طلباء پر رحم کیجیے

طلباء پر رحم کیجیے
تحریر : رفیع صحرائی
سکول ایجوکیشن پنجاب کی جانب سے پنجاب کے تمام اضلاع کے چیف ایگزیکٹو آفیسر صاحبان ( ایجوکیشن) کو 25ستمبر کو ایک مراسلہ جاری کیا گیا ہے جس کے تحت حکومت پنجاب 15ستمبر تا 15دسمبر صوبے میں پنجاب سوشیو اکنامک رجسٹری سروے کروا رہی ہے جس کے لیے پنجاب کے سرکاری سکولوں کے 15000اساتذہ کی خدمات درکار ہیں۔ سی ای اوز سے درخواست کی گئی ہے کہ مراسلے کے ساتھ نتھی کی گئی فہرست کے مطابق مطلوبہ تعداد میں اساتذہ کی ڈیوٹی لگائیں۔
اس مراسلے نے سرکاری سکولوں میں زیرِ تعلیم طلباء کے والدین کو مضطرب کر دیا ہے۔
تجربات کے نام پر پہلے ہی سرکاری سکولوں کو برباد کیا جا چکا ہے۔ اب تک دس ہزار سے زائد سرکاری سکول آئوٹ سورس ہو چکے ہیں جبکہ اسی سال پنجاب حکومت کا مزید ساڑھے دس ہزار سکول آئوٹ سورس کرنے کا پلان ہے۔ اب تک حکومت صوبے کے سرکاری سکولوں سے مختلف سکیلز کی 43ہزار 960اسامیاں ختم کر چکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بیس ہزار سے زائد سکولوں کو آئوٹ سورس کرنے کے باوجود سکولوں میں اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے، جسے پورا کرنے کے لیے عارضی طور پر اساتذہ کی بھرتی کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ گزشتہ سال بھرتی کیے گئے 12500سکول ٹیچر انٹرنیز (STIs)کی خدمات جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ البتہ گرمیوں کی چھٹیوں کی تنخواہ سے انہیں محروم رکھا گیا ہے۔ ایس ٹی آئیز کی بھرتی کا مقصد ہی یہ تھا کہ کم تنخواہ دے کر اور چھٹیوں کی تنخواہ بچا کر سرکاری خزانے کا بوجھ ہلکا کیا جائے۔ آپ پنجاب کے سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی کمی کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ جو 10ہزار سکول آئوٹ سورس کیے گئے ہیں حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ان سکولوں میں 60 ہزار نوجوانوں کو روزگار ملا ہے۔ اس سال مزید10ہزار سکولز آئوٹ سورس ہونے کی صورت میں 60ہزار نئے اساتذہ ان آئوٹ سورس ( پرائیویٹ) سکولوں میں روزگار پائیں گے۔ آئوٹ سورس ہونے والے 20ہزار سکولز کے اساتذہ ٹرانسفر ہو کر دیگر سرکاری سکولوں میں خدمات انجام دیں گے۔ ان کے علاوہ 12500انٹرنیز کی خدمات بھی سرکاری سکولز کو حاصل ہوں گی لیکن پھر بھی سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی کمی ہو گی جسے پورا کرنے کے لیے اس سال مزید 12500 انٹرنیز بھرتی کرنے کا پروگرام ہے۔ اگر ان اعداد و شمار کو جمع کیا جائے تو آئوٹ سورس سکولز کے اساتذہ کی تعداد 120000، ختم ہونے والی اسامیوں کی تعداد 44000، انٹرنیز کی تعداد 25000یہ کل تعداد 189000ہزار بنتی ہے۔ گویا محکمہ تعلیم میں حقیقی طور پر اساتذہ کی 189000اسامیاں خالی تھیں۔ 2018ء کے بعد پنجاب میں سرکاری اساتذہ کی مستقل بھرتی نہیں کی گئی جبکہ اس دوران ہزاروں اساتذہ ریٹائرڈ ہوئے یا دورانِ سروس وفات پا گئے۔ کم از کم 189000 اساتذہ کی خالی اسامیوں کو بتدریج پورا کرنے کے بجائے سکولوں ہی کو پرائیویٹ کر دیا گیا۔ یعنی مریض کا دوائی سے علاج کرنے کی بجائے اسے زہر کا انجکشن لگا دیا گیا۔ ہزاروں اسامیاں ختم کر دی گئیں اور ڈنگ ٹپائو پالیسی اختیار کر کے عارضی اساتذہ بھرتی کر کے کام چلانے کی پالیسی اختیار کی گئی۔ یہی حشر سرکاری ہسپتالوں کا کیا گیا۔ جبکہ دوسری طرف ہزاروں بسیں خرید کر انہیں سرکاری طور پر چلانے کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ عوام سے صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتیں چھین کر انہیں سرکاری بس سروس دینے کی نرالی منطق سمجھ سے باہر ہے۔
اب جبکہ 12500نئے ایس ٹی آئیز بھرتی کیے جا رہے ہیں ایسے میں 15000مستقل اساتذہ کو تین ماہ کے لیے سکولوں سے نکال کر سروے پر لگا دینا مناسب فیصلہ نہیں ہے۔ حکومت لاکھ یہ کہتی رہے کہ اساتذہ سکول ٹائم کے بعد یہ سروے کریں گے مگر عملاً یہ ممکن نہیں ہے۔ ایسا فیصلہ تعلیمی عمل کو مذاق بنا دے گا۔ تعلیمی عمل میں غیر سنجیدگی در آئے گی۔
یہ سروے ایسے وقت میں شروع کیا جا رہا ہے جب سکولز میں تعلیمی سرگرمیاں عروج پر ہوتی ہیں۔ دسمبر تک نصاب مکمل کروا لیا جاتا ہے۔ دسمبر ہی میں بورڈ کی کلاسز کا داخلہ چلا جاتا ہے۔ ماضی میں جتنے بھی سروے ہوئے ہیں وہ کبھی مقررہ مدت میں پورے نہیں ہوئے۔ غالب امکان ہے کہ یہ سروے بھی فروری سے پہلے مکمل نہیں ہو پائے گا۔ اگر پنجاب حکومت کو یہ سروے کرانا ہی تھا تو بہتر تھا کہ گرمی کی چھٹیوں میں کروا لیتی۔ اس سے طلباء تعلیمی نقصان سے بچ جاتے۔ سرکاری سکول پہلے ہی برباد ہو چکے ہیں۔ 15000اساتذہ کے یکدم نکلنے سے مزید برباد ہوں گے۔ اس سے اچھا تو یہ فیصلہ ہوتا کہ آئندہ چند روز میں جو 12500ایس ٹی آئیز بھرتی کیے جا رہے ہیں ان کی بھرتی منسوخ کر کے ان نوجوانوں کی خدمات سروے کے لیے حاصل کر لی جاتیں۔
وزیرِ تعلیم پنجاب نے ببانگِ دہل اعلان کیا تھا کہ اساتذہ کی غیرنصابی سرگرمیوں کے لیے ڈیوٹی نہیں لگائی جائے گی۔ یہ ڈیوٹی ان کے ڈیپارٹمنٹ نے ہی لگائی ہے۔ اصولی طور پر تو وزیرِ تعلیم کو اپنے طلباء اور ان کے مستقبل کی خاطر ڈٹ جانا چاہیے۔ کیا وہ ایسا کر پائیں گے؟
رفیع صحرائی




