Column

نقوشِ نوشاہی اور جیا جی کا جہانِ نعت

نقوشِ نوشاہی اور جیا جی کا جہانِ نعت
تحریر : راجہ شاہد رشید
اس شامی بچی کے نام جس نے دم توڑتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ میں اپنے رب کو جا کر سب بتائوں گی‘‘۔ اس فلسطینی بچے کے نام جس نے بھوک سے نڈھال ہو کر کہا تھا ، یہ التجا کی تھی کہ ’’ یا اللہ مجھ سے زندگی واپس لے لے تا کہ میں جنت میں جا کر کھانا کھا سکوں‘‘۔ اور اس عراقی بچی کے نام جس نے لڑائی کے دوران بھاگتے ہوئے صحافی سے کہا تھا کہ ’’ انکل میری ویڈیو مت بنائیں میں بے حجاب ہوں‘‘۔ یہ انتساب ہے اشتیاق احمد نوشائی سچیاری کی کتاب ’’ نقوش ِ نوشاہی ‘‘ کا۔ مصنف روحانیت اور طریقت کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں ، ایک اچھے مسلمان ہیں اور صاحب فکر انسان ہیں ۔ موصوف ایک درویش صفت انسان ہیں اور تصوف کی کٹھن پتھریلی راہوں کے راہی ہیں۔ میں دل سے دعا گو ہوں کہ اللہ قادر و قدیر انہیں ہر میدان اور ہر امتحان میں سرخرو اور کامران فرمائے ، اللہ حاکمِ برحق ان پہ اپنا خصوصی فضل و کرم فرمائے اور انہیں حُب ِ رسول خزانوں سے مالا مال فرمائے ۔ اللہ غفور و غفار انہیں اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھے، آمین ۔ اشتیاق احمد نوشاہی سچیاری کی اس خوبصورت اور باکمال کتاب میں شامل مضامین میں جن بھی موضوعات پر طبع آزمائی کی گئی ہے ان میں مصنف کے اسلامی و فکری مشاہدات و نظریات کی جھلک نمایاں ہے ۔ بلا شبہ نقوش ِ نوشاہی نثری ادب میں بہترین اضافہ ہے اور صوفی ازم کے قارئین کے لیے ایک نایاب و انمول تحفہ بھی ہے ۔ اس کتاب کے فلیپ پہ محترم جناب جبار مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ اشتیاق احمد نوشاہی سچے یار ہیں اسی نسبت سے سچیاری کہلاتے ہیں ۔ سچیار سلسلہ قادریہ کی ذیلی شاخ ہے جس کے بانی حضرت پیر محمد سچیار نوشاھی ہیں۔ اسی خانودے کے صاحبزادہ حسن اختر نوشاہی نوشہرہ شریف گجرات کے دست مبارک پر جناب اشتیاق احمد نوشاہی سچیاری نے بعیت ہونے کی سعادت حاصل کی۔ اس کتاب میں تصوف کی پہلو دار باتوں کو آسان ، سادہ اور عام فہم کر کے پانچ حصوں ، قرآنیات ، ایمانیات، روحانیات ، شخصیات اور مطالعات میں منقسم کر دیا گیا ہے۔
نیت ِ اہل ِ جنوں جب بھی بہک اُٹھتی ہے
وادی ِ شوق کی ہر چیز مہک اُٹھتی ہے
مندرجہ بالا شعر محترمہ جیا قریشی جی کا ہے جو شعر و شاعری کا ایک جہان ہیں، ایک ادبستان ہیں بلکہ خوشبودار اور رنگ برنگے پھولوں کا ایک گلستان بھی ہیں ۔ محترمہ جیا قریشی صاحبہ بفضل اللہ حمد باری تعالیٰ اور ہدیہ سلام سمیت نعت نذرانے نظم کرنے میں نہایت ہی تسکین و راحت محسوس کرتی ہیں اور ان اصناف میں کافی مہارت بھی رکھتی ہیں۔ ماشاء اللہ یہ اچھوتے و منفرد رنگ و آہنگ اور مقدس و بابرکت ہُنر خزانے ہر کسی کو نہیں بلکہ کسی کسی کو اُس قادر و قدیر کی جانب سے ودیعت ہوتے ہیں ۔ جیا قریشی صاحبہ کی ایک نعت شریف حاضر خدمت ہے۔
انوار ِ مدینہ سے دل و جان سجا کر
اے گُنبد خضرا کے مکیں نعت عطا کر
میں روضہ اقدس کی ضیا سوچ رہی ہوں
دھڑکن کے دریچے میں چراغوں کو جلا کر
زیبائے محمد نے زمانے کو جلا دی
ظلمت میں بسے کفر کے آثار مٹا کر
محبوب کی تعریف کے آداب یہی ہیں
ہاتھوں میں قلم بعد میں لے پہلے دعاکر
نسبت کا تقاضا ہے کہ دربارِ خدا میں
ہر بات محمد کے وسیلے سے کیا کر
قرآن کا اسلوب ہی تعریف ِ نبی ہے
قرآن کے الفاظ جیا روز پڑھا کر
حسان کے لہجے سے یہی درس ملا ہے
کہنے کا سلیقہ ہے تو پھر نعت کہا کر
جیا قریشی نے جامع سکول راولپنڈی سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ گورنمنٹ ڈگری کالج سیٹلائٹ ٹائون راولپنڈی سے ایف ایس سی اور بی ایس سی کیا ۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے بی ایڈ کی ڈگری بھی حاصل کی ۔ کچھ عرصہ یو کے لندن میں مقیم رہنے کے بعد اب وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں اور درس و تدریس کے پیشہ سے منسلک ہیں ۔ جیا جی کی دو کتابیں ، نعتیہ مجموعہ ’’ انوار آگہی‘‘ اور غزلیہ مجموعہ ’’ مجھے بھی سانس لینے دو‘‘ شائع ہو چکی ہیں ۔ یہ نہ صرف پاکستانی بلکہ عالمی مشاعروں میں بھی شرکت کرتی چلی آ رہی ہیں ۔ انہیں ندرت ِ فکر کی جانب سی ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا اور اس کے علاوہ انہوں نے نیشنل لائبریری کی طرف سے بھی صوفی تبسم ایوارڈ حاصل کیا ۔
آخر میں محترمہ جیا قریشی صاحبہ کی ایک دسمبراتی غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے۔
رنگ عہدِ خزاں بھی لا رہا ہے
کوئی واپس مجھے بلا رہا ہے
اسکے فیض وکرم کی صورت ہی
یہ دسمبر بھی خشک جا رہا ہے
مجھ کو جاتے ہوئے دسمبر سے
یاد وہ سرد لہجہ آ رہا ہے
بات کر کے جیا نہیں راضی
جو غزل میری گُن گنا رہا ہے

جواب دیں

Back to top button