ColumnQadir Khan

ٹرمپ کے غزہ منصوبے کا تجزیہ: زمینی حقائق اور سیاسی پیچیدگیاں ( حصہ دوم )

ٹرمپ کے غزہ منصوبے کا تجزیہ: زمینی حقائق اور سیاسی پیچیدگیاں ( حصہ دوم )
تحریر : قادر خان یوسف زئی
عظیم مشرق وسطیٰ کا کردار ٹرمپ پلان کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔ قطر، مصر اور ترکی حماس اور اسرائیل کے درمیان ثالثی کر رہے ہیں۔ قطری وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمٰن آل ثانی نے حماس کو کہا ہے کہ یہ بہترین ڈیل ہے، آگے اس سے بہتر نہیں ملے گی۔ مصری انٹیلیجنس چیف حسن رشاد نے بھی یہی بات دہرائی ہے۔ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوغان نے پلان کی حمایت کی اور مکمل تعاون کا وعدہ کیا ہے۔ یہ تینوں ممالک حماس پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ وہ پلان قبول کرے۔ دوسری طرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی پلان کی حمایت کر رہے ہیں، مگر ان کی شرط ہے کہ مغربی کنارے کا الحاق نہ ہو اور دو ریاستی حل کی طرف پیش رفت ہو۔ سعودی کابینہ نے پلان کی حمایت کا اعلان کیا ہے، جبکہ امارات نے نیتن یاہو پر دبائو ڈالا ہے کہ وہ پلان قبول کرے۔ یہ حمایت ٹرمپ کے پلان کو مضبوط کرتی ہے، مگر یہ بھی واضح ہے کہ یہ ممالک اپنے مفادات دیکھ رہے ہیں، جیسے اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن اور علاقائی استحکام میں وعدوں کی پائیداری پر یقین دہانی زبانی نہ ہو بلکہ عملی بھی کیں جائیں۔
مغربی کنارے کی صورتحال پلان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اسرائیل نے اوسلو معاہدوں کے بعد پہلی بار علاقہ Bمیں سات نئی بستیاں بنائی ہیں۔ علاقہ Bفلسطینی اتھارٹی کے انتظامی کنٹرول میں ہونا چاہیے تھے، مگر اسرائیلی سیکورٹی کنٹرول میں ہے۔ مغربی کنارہ تین حصوں میں تقسیم ہے۔ علاقہ A، جو فلسطینی کنٹرول میں ہے اور جہاں 25سے 30لاکھ فلسطینی رہتے ہیں، علاقہ B، مشترکہ کنٹرول والا جہاں 7سے 8لاکھ فلسطینی ہیں اور علاقہ C، جو اسرائیلی کنٹرول میں ہے اور جہاں 8لاکھ اسرائیلی سیٹلرز اور 3لاکھ فلسطینی رہتے ہیں۔ کل ملا کر مغربی کنارے میں 7لاکھ 20ہزار اسرائیلی سیٹلرز ہیں۔ ٹرمپ کا پلان غزہ پر تو فوکس کرتا ہے، مگر مغربی کنارے کے مسئلے کو چھوتا تک نہیں، جو فلسطینی ریاست کی بنیاد ہے۔ اگر مغربی کنارے پر بستیاں بڑھتی رہیں تو دو ریاستی حل کیسے ممکن ہوگا؟ فلسطینی اتھارٹی کا کردار بھی مبہم ہے۔ محمود عباس کی قیادت والی فتح پارٹی اب صرف مغربی کنارے کے محدود علاقوں میں حکومت کرتی ہے۔ وزیر اعظم محمد مصطفیٰ نے کہا ہے کہ وہ غزہ کی ذمہ داری سنبھالنے کو تیار ہیں، مگر پلان میں ابتدائی طور پر بین الاقوامی نگرانی میں ٹیکنوکریٹک انتظام کا ذکر ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کو انتظار کرنا ہوگا جب تک اندرونی اصلاحات نہ ہوں۔ اسرائیلی ڈیفنس منسٹر یوآو گیلنٹ کا ’’ ڈے آفٹر‘‘ پلان بھی اسی طرح کا ہے، جو کہتا ہے کہ نہ حماس اور نہ اسرائیل غزہ پر حکومت کرے گا، بلکہ نامعلوم فلسطینی ادارے انتظام سنبھالیں گے، مگر اسرائیل کو فوجی آپریشن کا حق رہے گا۔ یہ مغربی کنارے کی طرح کا انتظام ہے، جہاں اسرائیلی فوج جب چاہے داخل ہو سکتی ہے۔ گو کہ امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کو مغربی کنارہ کو ضم کرنے کی اجازت نہیں دے گا ۔ لیکن تاریخ ثابت کرتی ہے کہ اسرائیل جو بھی کچھ کرتا ہے ۔ امریکہ اسے تسلیم کر لیتا ہے۔
غزہ کی ناکہ بندی کا نظام پلان کی کامیابی میں رکاوٹ ہے۔ اسرائیل نے 2010ء میں پالیسی تبدیل کی تھی کہ غیر فوجی اشیا غزہ جا سکتی ہیں، مگر تعمیراتی سامان صرف منظور شدہ پراجیکٹس کے لیے اجازت کے بغیر نہیں جاسکے گا۔ سمندری ناکہ بندی برقرار ہے، اور تمام سامان اسرائیلی بندرگاہ اشدود سے چیک ہوتا ہے۔ پلان میں امداد کی بات ہے، مگر ناکہ بندی ہٹانے کا واضح ذکر نہیں۔ حماس نے ان اقدامات کو پروپیگنڈا قرار دیا تھا اور مکمل ناکہ بندی ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔ غزہ کی عوامی رائے پلان کی قبولیت کا پیمانہ ہے۔ فلسطینی سنٹر فار پالیسی اینڈ سروے ریسرچ کے سروے کے مطابق، صرف 50فیصد فلسطینی اکتوبر 7کے حملے کو درست سمجھتے ہیں، جبکہ غزہ میں یہ 38فیصد ہے۔ 57فیصد اب اسے غلط قرار دیتے ہیں۔ 43فیصد غزہ والے جنگ کے بعد یہاں سے نکلنا چاہتے ہیں۔ یہ اعداد حماس کی حمایت میں کمی دکھاتے ہیں، مگر 81فیصد محمود عباس کے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہیں، یعنی فتح کی مقبولیت بھی کم ہے۔ جنگی تھکن واضح ہے، لوگ امن چاہتے ہیں، مگر حماس کے خلاف بغاوت کا امکان کم ہے۔
مارچ اور اپریل میں مظاہرے ہوئے، مگر 60فیصد کا خیال ہے کہ یہ بیرونی اکسانے پر تھے۔ ایران کا کردار مخالف ہے۔ ایران کی فارن پالیسی اسرائیل مخالف محور مزاحمت پر مبنی ہے۔ سپریم لیڈر علی خامنہ ای دو ریاستی حل کو بھی مسترد کرتے ہیں اور پوری فلسطین کی آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایران حماس کو اسلحہ اور مالی مدد دیتا ہے، لہذا پلان کی مخالفت کر رہا ہے۔ افغانستان کی مثال اہم ہے۔ 2020ء کے دوحہ معاہدے میں افغان طالبان سے غیر مسلح ہونے کا مطالبہ کیا گیا، مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ افغان طالبان نے صرف دہشت گردوں کو روکنے کا وعدہ کیا اور اپنی طاقت برقرار رکھی، جو آخر کار ان کی فتح کا باعث بنی۔ حماس کے لیے یہ سبق ہے کہ غیر مسلح ہونا خودکشی ہے۔ مگر فرق یہ ہے کہ افغان طالبان کے پاس وسیع علاقے تھے، جبکہ غزہ محاصرے میں ہے اور حماس کو صرف ایران کی محدود حمایت حاصل تھی۔
معاشی پہلو بھی اہم ہیں۔ پلان غزہ کو انڈیا، مڈل ایسٹ، یورپ اکنامک کوریڈور کا حصہ بنانے کی بات کرتا ہے، جس میں صنعتی زونز، لگژری ریزورٹس اور بندرگاہی سہولیات شامل ہیں۔ یہ امریکی اور بین الاقوامی کمپنیوں کے لیے مواقع پیدا کرے گا، مگر یہ بھی نارملائزیشن کا حصہ ہے، جو ابراہم ایکارڈز کو وسعت دے گا۔ یہ امریکہ کی بے تابی کی وجہ ہے کہ جنگ ختم ہو۔ کیونکہ امریکی صدر پہلے بھی واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ امریکی کمپنیاں تعمیر نو میں حصہ لیں گی لیکن تعمیر نو میں پیسہ نہیں لگائے گا یہ عرب اور اسلامی ممالک کو برداشت کرنا ہوگا ۔ یہ ٹرمپ کی برڈن پالیسی کہلائی جاتی ہے ۔ دوسری جانب امریکی حماس کی داخلی صورتحال میں اختلافات ہیں۔ غزہ کی قیادت جنگ جاری رکھنا چاہتی ہے، بیرونی قیادت مذاکرات کی حامی ہے۔ فلسطین میں مالی بحران ہے، ملازمین کو تنخواہیں اور امداد نہیں مل رہیں۔ اگر حماس پلان مسترد کرے تو ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ’’ انجام افسوسناک ہوگا‘‘، یعنی مکمل امریکی حمایت سے حماس کو ختم کیا جائے گا اور فلسطین کو دی جانے والی امداد رک جائے گی۔ اگر حماس قبول کرتا ہے تو اپنی شناخت کھو دے گا۔
علاقائی حمایت پلان کو مضبوط کرتی ہے۔ آٹھ ممالک، جیسے سعودی عرب، مصر، اردن، قطر، ترکی، امارات، انڈونیشیا اور پاکستان پلان کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ جیو پولیٹیکل تبدیلی ہے، جو محور مزاحمت کو کمزور کرے گی۔ مستقبل کے منظر نامے کئی ہیں۔ جنگ جاری رہے، حماس قبول کرے اور کمزور ہو، تنظیم میں تقسیم ہو، یا درمیانی راستہ نکلے۔ مڈل ایسٹ میں مسائل آسان نہیں، ہر فیصلہ دور رس ہوتا ہے۔ ٹرمپ کا پلان امن کا دعویٰ ہے، مگر یہ طاقت کے توازن کو مستحکم کرتا ہے اور حماس کے لیے ناممکن انتخاب ہے۔ فلسطین کے مستقبل کا یقینی حل نکالنا ضروری ہے۔ اسرائیل جس نے پہلے ہی فلسطین کی زمین پر قبضہ کیا ہوا ہے ، اسے تسلیم کرنا کا مطلب اسرائیل کی جارحیت کو تسلیم کرنا ہوگا ۔ لاکھوں زندگیوں کو بچانے کے لئے معاہدہ اہم ہے لیکن زمینی حقائق کو بھی سامنے رکھیں کہ اسرائیل کبھی بھی اپنے وعدوں پر عمل نہیں کرتا ۔

جواب دیں

Back to top button