ColumnZia Ul Haq Sarhadi

جنرل فضل حق کی 34ویں برسی

جنرل فضل حق کی 34ویں برسی
تحریر : ضیاء الحق سرحدی
جنرل فضل حق کا شمار ہمارے انتہائی قابل احترام اور دبنگ جرنیلوں میں ہوتا تھا، انہیں ہم سے جدا ہوئے پورے 34برس گزر گئے،3اکتوبر1991ء کو جب وہ صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے بعد واپس جارہے تھے تو ڈیفنس کالونی پشاور گھر کے قریب گھات میں بیٹھے کرائے کے قاتلوں نے انہیں گولیوں سے چھلنی کر دیاتھا۔ اس دور کے وزیر اعلیٰ سرحد میرا فضل خان نے اس واقعہ کے بارہ دن بعد15، اکتوبر1991ء کو سرحد کی صوبائی اسمبلی میں صوبے میں امن و امان کی صورت حال پر بحث سیمٹتے ہوئے کہا تھا کہ ، فضل حق کا قتل ہماری حکومت کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے، وہ چیلنج آج بھی ہر دور کے لئے دیگر قومی سانحات کی طرح موجود ہے۔ ماضی قریب میں خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت رہی اس کے لئے وہ سانحہ اور بھی توجہ طلب تھا کیونکہ فضل حق کا عوامی نیشنل پارٹی کے رہنمائوں سے عقیدت و احترام کے علاوہ ذاتی تعلق بھی تھا، لیکن فضل حق کا خیال کسی کو نہ آیا حتی کہ جنرل فضل حق جب قتل ہوئے تو ان دنوں صوبہ سرحد کے گورنر ان کے نوجوانی کے دوست بریگیڈئیر گلستان جنجوعہ تھے مگر وہ بھی کچھ نہ کر سکے، جبکہ وہ گائوں گائوں، گلی، گلی پہنچتے تھے۔ تعلیم کے بعد مواصلات ان کی دوسری ترجیح تھی، ان کے دور میں863میل پختہ سڑکیں تعمیر ہوئیں،650میل نئی کچی سڑکیں بنی تھیں، ہزاروں میل پرانی سڑکیں کشادہ کیں، 116بڑے پل بنائے گئے، سالانہ 1250روپوں کا 24فیصد تعلیم پر خرچ کیا،3یونیورسٹیاں، 33ڈگری کالج بنوائے، 221ہائی سکول، 330مڈل اور تین ہزار پرائمری سکول بنائے، ان کا سارا زور پرائمری تعلیم پر تھا، وہ بتایا کرتے تھے کہ انہیں جہاں کہیں دور دراز چند گھر دکھائی دیتے، وہ دشوار گزار راستوں سے پیدل وہاں پہنچ جایا کرتے کبھی کبھی ہیلی کاپٹر سے اچانک کسی گائوں جا اترتے اور فوری طور پر وہاں پرائمری اسکول تعمیر کرنے کا حکم دیتے پھر دیگر محکموں کو کہتے سکول کی بلڈنگ بننے سے پہلے وہاں پانی بجلی اور سڑک پہنچائی جائے یوں ویرانے آباد ہوتے گئے اور بستیاں علم و نور سے منور ہوتی رہیں۔ جنرل فضل حق کے دور میں خیبر پختونخوا کی سڑکیں پورے ملک میں مثالی سمجھی جاتی تھیں لیکن اب گزشتہ کافی عرصے سے وہی شاہراہیں کھنڈرات میں تبدیل ہوچکی ہیں وہ سڑکوں کی تعمیر میں استعمال ہونے والی بجری کو دھلوایا کرتے تھے اس عمل کو یقینی بنانے کے لئے وہ اکثر کسی نہ کسی زیر تعمیر سڑک پر جاکر ہیلی کاپٹر سے اترتے گھنٹوں وہاں موجود رہ کے کام کا جائزہ لیا کرتے تھے ان دنوں ٹھیکیداروں اور صوبائی انتظامیہ کی نگاہیں جنرل فضل حق کے ہیلی کاپٹر کے انتظار میں فضائوں کو گھورتی رہتی تھیں۔ جنرل فضل حق ستمبر 1928ء کو ضلع مردان میں پیدا ہوئے تھے تیسری جماعت تک مردان میں پھر 1935ء سے1939ء تک کوہاٹ میں پڑھے، اس کے بعددِہرہ دُون( انڈیا) ملٹری اکیڈمی چلے گئے، وہیں سے ستمبر1946ء میں فوج کے لئے منتخب ہوئے، گائیڈز کیولری کوہاٹ سے انہوں نے باقاعدہ فوجی زندگی کا آغاز کیا، وہ جب میجر تھے تو فیلڈ مارشل ایوب خان کے باڈی گارڈ دستے کے انچارج رہے۔ انہی دنوں ذوالفقار علی بھٹو ان کے قریب ہوئے۔1965 ء کی پاک بھارت جنگ انہوں نے سیالکوٹ میں چونڈہ کے محاذ پر لڑی زندگی کی ہر سطح پر ان کی خدمات بے پایاں ہیں جدوجہد ان کا ماٹو تھا ان کی ساری فوجی سروس فیلڈ میں گزری وہ ایک دن بھیGHQمیں نہیں رہے، وہ کور کمانڈر بھی ہوئے، مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، گورنر اور وزیر اعلیٰ بھی رہے۔1988ء میں انہیں نگران وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے صوبے میں خدمات انجام دینے کا موقع میسر آیا، انہوں نے سیاست میں حصہ لیا لیکن اس شہر سے جہاں انہوں نے بے شمار ترقیاتی کام کئے عام انتخابات میں انہیں شکست ہو گئی تا ہم وہ کوہستان سے صوبائی اسمبلی کی نشست جیتنے میں کامیاب رہے۔ جنرل فضل حق 1988ء میں سینیٹر منتخب ہوئے اور اس کے بعد مئی1988ء میں اسی صوبے کے 15ویں وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ جنرل فضل حق اپنے دور میں ایک طاقتور شخصیت ثابت ہوئے تھے اور اپنی کارکردگی سے عوام کا اعتماد حاصل کیا۔ وہ بحیثیت گورنر نمایاں شخصیت قرار پائے اور اپنی بہترین لیڈر شپ کے ذریعے طرز حکمرانی میں بہتری لائی۔ انہوں نے اپنے دور میں معاشی ترقی پر زیادہ زور دیا، وہ عموما انفرا سٹرکچر کی ترقی کے حوالے سے یاد کئے جائیں گے لیکن اصل میں انہوں نے تعلیمی خدمات کی فراہمی کیلئے نمایاں اقدامات اٹھائے تھے۔ ایک آرمی جنرل اور ایڈمنسٹریٹر کے ہوتے ہوئے انہوں نے اپنی کار کردگی کے بل بوتے پر اپنے لئے سیاسی حلقہ بھی بنا لیا اور اپنے ساتھی سیاستدانوں کی زبانی وہ واحد جنرل تھے جو کامیاب سیاست کی طرف منتقل ہوئے ۔ اپنی خدمات کی وجہ سے بطور انسان سولجر انسان ، سولجر اور لیڈر شپ عوام کا بے حد احترام کرتے تھے، حتی کہ بعد از مرگ ان کی دو آنکھوں کے عطیے نے دو انسانوں کی بینائی بحال کی اور وہ دوبارہ اس کائنات کو دیکھ سکے۔ جنرل فضل حق دبنگ گورنر تھے جو آرڈر دیتے اس پر عملدرآمد کراتے۔ حکم دیتے اور انگریزی میں کہتے ’’ ڈو اینڈ رپورٹ می‘‘ کام چوروں اور کرپٹ لوگوں کے لئے سخت مگر عام زندگی میں نرم تھے۔ بیوروکریسی تو کاپنتی تھی۔ مہینے میں بیس دن دفتر میں کام کرتے اور دس دن فیلڈ میں جاتے۔ مختلف علاقوں کے دورے کرتے۔ کہتے کہ دیکھتے ہیں کہ ان کے احکامات پر کس حد تک عمل در آمد ہوا ہے۔ اور جو کام نہ ہوتا تو اس افسر کی خیر نہ ہوتی۔ بھری مجلس میں ایسی کلاس لیتے کہ اسے اماں بابا یاد آجاتا۔ سب حیران ہو جاتے۔ ان دنوں پی ٹی وی سے پشتو کا ایک پروگرام چلا کرتا تھا ’’ سوک بدے تپوس کئی‘‘ کون پوچھے گا تمہارا، جنرل فضل حق نے جب یہ پروگرام دیکھا تو انہوں نے برملا سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا’’ زا بہ تپوس کوم‘‘ یعنی کہ میں پوچھوں گا۔ پھر انہوں نے یہ کام کر دکھایا۔ جنرل فضل حق اخبار نویسوں اور کالم نگاروں کے قریب رہے اور اخبار نویس ان کے قریب ۔اخبار نویس ان کے ہر دورے میں ان کے پیچھے پیچھے اور ساتھ ساتھ ہوتے۔ کبھی نظر نہ آتے تو جنرل فضل حق پیچھے مڑ کر مسکراتے ہوئے مذاق میں کہتے۔ کہاں ہے میری امت۔ راقم ضیاء الحق سرحدی کی بھی اکثر جنرل فضل حق صاحب سے کئی ملاقاتیں رہی۔ وہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبر بھی رہے زندگی کے آخری دنوں میں وہ صوبائی اسمبلی کے ممبر تھے ان کی بیگم ان سے کہا کرتی تھیں کہ لوگ ترقی کرتے ہوئے نیچے سے اوپر جاتے ہیں مگر آپ اوپر سے نیچے کی طرف آرہے ہو اب ضلع کونسل کا ممبر کب بنو گے؟ جنرل فضل حق بہت ہمدرد انسان تھے وہ ہر وقت کسی نہ کسی کی مدد کو پہنچے رہتے تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل فضل حق بلاشبہ ایک قابل فخر ایڈمنسٹریٹر اور اس صوبے کے عوام سے محبت کرنے والی شخصیت تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کا نام آج بھی ان کے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ وہ جس کو پسند کرتے، دل و جان سے اس کا احترام کرتے تھے اور جسے ناپسند کرتے اسے بتا دیا کرتے تھے، ڈھکی چھپی یا لگی لپٹی بات ان سے میلان نہیں کھاتی تھی وہ ہر وقت خوش رہتے تھے سیاست کی دنیا میں ان جیسے کھرا کم کم دکھائی دیتے ہیں حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔ جنرل فضل حق خیبر پختونخوا کے بڑے دبنگ گورنر گزرے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک روز وہ اسلام آباد سے پشاور آرہے تھے۔ جب اٹک پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ آٹے کی بوریوں سے لدھے کئی ٹرک قطار میں کھڑے ہیں۔ انہوں نے گاڑی روکی اور پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے تو بتایا گیا کہ پنجاب حکومت نے خیبر پختونخواہ کو آٹے کی سپلائی بند کر رکھی ہے۔ وہ گاڑی میں سوار ہو کر پشاور آگئے اور فوراً پنجاب پر بجلی کی سپلائی لائن بند کرنے کا حکم دیا۔ تب کیا تھا پنجاب حکومت کی چیخیں نکل گئیں اور بجلی بحال کرنے کی منتیں کرنے لگے۔ گورنر فضل حق نے جواب میں کہا کہ جب تک خیبر پختونخوا کو آٹے کی سپلائی بحال نہیں ہوجاتی، پنجاب پر بجلی بند رہے گی۔ پنجاب پر بجلی بند کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ دو گھنٹے گزرے نہیں تھے کہ اٹک پر کھڑے آٹے کے تمام ٹرک پشاور پہنچ گئے اور اس کے بعد پنجاب کی بجلی بحال کردی گئی۔ اب بھی خیبر پختونخوا میں گورنر بھی موجود ہیں اور وزیر اعلیٰ بھی لیکن جنرل فضل حق مرحوم کی طرح جرأت کہاں۔
ضیاء الحق سرحدی

جواب دیں

Back to top button