درست اثاثے ظاہر کرنا ناگزیر

درست اثاثے ظاہر کرنا ناگزیر
تحریر : محمد ناصر شریف
سرکاری ملازمین اور حکومتی عہدیدار کسی بھی ملک کے انتظامی ڈھانچے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی دیانت، شفافیت اور ذمے داری نہ صرف حکومتی نظام کی کارکردگی کو بہتر بناتی ہے بلکہ عوام کے اعتماد کا باعث بھی بنتی ہے۔ ایسے میں سرکاری ملازمین و حکومتی عہدیداروں کے اثاثوں کی تفصیلات کا ریکارڈ رکھنا ایک نہایت اہم اور ناگزیر عمل ہے۔ یہ عمل نہ صرف کرپشن کے خاتمے میں مددگار ثابت ہوتا ہے بلکہ شفاف طرزِ حکمرانی کو فروغ دیتا ہے۔ سب سے پہلی اور اہم وجہ بد عنوانی کی روک تھام ہے۔ جب سرکاری ملازمین و حکومتی عہدیدار کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے تمام مالی اثاثوں کی تفصیلات وقتاً فوقتاً حکومت کے سامنے پیش کریں، تو اس سے ان کی آمدنی اور اخراجات کے درمیان توازن کا تجزیہ ممکن ہو جاتا ہے۔ اگر حکام و ملازم اپنی قانونی تنخواہ سے کہیں زیادہ اثاثے رکھتے ہیں، تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ دولت کہاں سے آئی۔ اس سے غیر قانونی ذرائع کا سراغ لگایا جا سکتا ہے اور بدعنوان عناصر کو قانون کے دائرے میں لایا جا سکتا ہے۔ شفافیت اور دیانت داری ایک اچھی حکومت کی بنیاد ہوتے ہیں، اثاثوں کی تفصیلات عوامی سطح پر لانے سے نہ صرف سرکاری اداروں پر عوام کا اعتماد بڑھتا ہے بلکہ یہ تاثر بھی قائم ہوتا ہے کہ حکومت اپنے ملازمین کی نگرانی میں سنجیدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سمیت کئی ممالک میں سرکاری ملازمین و حکومتی عہدیدار پر لازم ہے کہ وہ سالانہ بنیاد پر اپنے اثاثہ جات کے گوشوارے جمع کروائیں۔ اثاثوں کی تفصیلات کا ایک اور اہم پہلو مفادات کے ٹکرائو سے بچائو ہے۔ اگر کوئی سرکاری ملازم و حکومتی عہدیدار نجی کاروبار میں ملوث ہو اور وہی کاروبار حکومتی معاہدوں یا ٹینڈرز میں شامل ہو، تو یہ مفادات کا واضح ٹکرائو ہے۔ اثاثوں کی معلومات ہونے کی صورت میں ایسے معاملات کو وقت پر روکا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، اثاثہ جات کی معلومات
پالیسی سازی میں بھی معاون ثابت ہوتی ہیں۔ حکومت ملازمین کی مالی حالت کو دیکھ کر تنخواہوں، الائونسز، اور مراعات سے متعلق پالیسیوں کو بہتر بنا سکتی ہے۔ ساتھ ہی یہ معلومات احتسابی اداروں کیلئے ایک اہم ذریعہ بھی بنتی ہیں، جو قومی وسائل کے غلط استعمال کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ سرکاری ملازمین و حکومتی عہدیدار کے اثاثوں کی تفصیلات صرف ایک فارم جمع کرانے کا عمل نہیں، بلکہ یہ ایک موثر اور ضروری قدم ہے جو دیانت دار، شفاف اور جوابدہ نظام حکومت کے قیام میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ عمل نہ صرف کرپشن کیخلاف جنگ میں ایک مضبوط ہتھیار ہے بلکہ عوامی اعتماد کی بحالی اور مضبوط ادارہ جاتی ڈھانچے کی تعمیر میں بھی بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری حکومتوں نے بابوئوں اور بااثر افراد کے اثاثے ظاہر کرنے کیلئے کوئی موثر قانون سازی نہیں کی اور یہ کام بھی پاکستان کے دورے پر آئے آئی ایم ایف مشن کو ہی کرنا پڑ رہا ہے۔ وفد نے گریڈ 17سے 22کے تمام اعلیٰ سرکاری افسران کے اثاثے ظاہر کرنے کیلئے دسمبر 2025ء تک قانون سازی کرنے کا کہا ہے۔ اس میں تاخیر ملک کے اصلاحاتی وعدوں پر اثر ڈال سکتی ہے، حکومت گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک اسیسمنٹ (GCD)رپورٹ کو مقررہ مدت کے اندر شائع کرے اور ساتھ ہی گورنمنٹ سرونٹس (کنڈکٹ) رولز 1964میں ایسی ترامیم کرے جن کے ذریعے بدعنوانی میں ملوث افسران کیخلاف کارروائی ممکن ہو سکے تاہم یہ ترامیم وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کی منظوری سے ہی ممکن ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گریڈ 17سے 22تک کے تقریباً 25ہزار افسر ہیں اور یہ وسیع پیمانے پر خیال کیا جاتا ہے کہ بہت سے افسر اپنے اثاثے درست طور پر ظاہر نہیں کرتے جبکہ سیاستدانوں کا معاملہ ہی الگ ہے، ہمارے ہاں ایک سوال بار بار ابھرتا ہے کہ آخر یہ اثاثے چھپانے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ جب کوئی عوامی نمائندہ یا سرکاری شخصیت اثاثوں کی تفصیل دینے سے گھبراتی ہے، تو دراصل وہ اپنے کردار پر سوالیہ نشان لگا رہی ہوتی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں طاقتور طبقہ اور سرکاری ملازمین اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنی جائیدادیں اور بینک اکائونٹس سامنے رکھ دیئے تو کئی راز بے نقاب ہو جائیں گے۔ یہ راز صرف ناجائز کمائی کے نہیں ہوتے بلکہ ٹیکس چوری، کمیشن اور بیرونِ ملک چھپائی گئی دولت کے بھی ہوتے ہیں۔ اثاثے ظاہر نہ کرنے کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں قانون کمزور اور ادارے بے بس ہیں۔ احتساب کا عمل طاقتوروں کیلئے کبھی ایک جیسا نہیں رہا۔ کبھی ادارے سیاسی مقاصد کیلئے حرکت میں آتے ہیں اور کبھی بالکل خاموش ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں جس کے پاس اختیار ہے، وہ اپنے اثاثے چھپانے میں کامیاب رہتا ہے۔ یہی رویہ معاشرے میں بداعتمادی کو جنم دیتا ہے۔ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اگر حکمران اور اشرافیہ اپنی دولت چھپا سکتے ہیں تو عام شہری کیوں ٹیکس دے؟ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشی نظام کمزور ہوتا ہے اور کرپشن عام ہو جاتی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اثاثے کیوں چھپائے جاتے ہیں، بلکہ سوال یہ ہے کہ انہیں چھپانے دیا کیوں جاتا ہے؟ جب تک قانون سب کیلئے برابر نہیں ہوگا، شفافیت کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ ضروری ہے کہ ہر عہدے دار، ہر سیاست دان اور ہر حکومتی نمائندہ اپنی آمدن اور جائیداد کی مکمل تفصیل عوام کے سامنے رکھے۔ شفافیت ہی اعتماد پیدا کرے گی، ورنہ یہ دو پاکستان ہمیشہ قائم رہیں گے ’’ ایک طاقتوروں کا اور ایک مجبور عوام کا’’۔
ہمارے ہاں ایک عجب تماشہ برپا ہے۔ عوام بجلی کے بلوں، مہنگائی اور بے روزگاری میں پِس رہے ہیں اور حکمران طبقہ اور سرکاری ملازمین اپنی جائیدادیں، محلات اور غیر ملکی اکائونٹس چھپانے میں مصروف ہے۔ کسی کے اثاثے دبئی کے ٹاورز میں چھپے ہیں، کسی کے لندن کے فلیٹس میں اور کوئی پانامہ لیکس میں بے نقاب ہوتا ہی۔ مگر افسوس! یہ سب کچھ سامنے آنے کے باوجود احتساب صرف نعرے تک محدود رہتا ہے۔ قانون تو کہتا ہے کہ ہر عوامی نمائندہ اور سرکاری ملازم اپنے اثاثے ظاہر کرے مگر ہمارے ہاں قانون طاقتور کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ یہاں انصاف کے ترازو میں سکہ بھی تولا جاتا ہے اور رشتے داری بھی۔ ’’ اثاثے ظاہر کرو‘‘ کا نعرہ دراصل عوام کی وہ صدا ہے جو برسوں سے دبائی جا رہی ہے۔ یہ مطالبہ اس لئے نہیں کہ کسی کی ذاتی زندگی میں جھانکا جائے، بلکہ اس لئے ہے کہ جب آپ عوام کے ٹیکس پر عیش کرتے ہیں، اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھتے ہیں اور ملک کے فیصلے کرتے ہیں تو پھر آپ کو اپنی دولت اور ذرائع آمدن کے بارے میں بھی جواب دینا ہوگا۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں وزرا اور وزرائے اعظم تک اپنی دولت کے گوشوارے عوامی ویب سائٹس پر ڈال دیتے ہیں۔ وہاں شفافیت اعتماد کو جنم دیتی ہے اور یہاں عدم شفافیت بداعتمادی کو۔ عوام سوال کر رہے ہیں ’’ اگر آپ کے اثاثے جائز ہیں تو پھر چھپاتے کیوں ہیں؟ اور اگر ناجائز ہیں تو عوام کو کیوں سزا دیتے ہیں؟‘‘۔ وقت آ گیا ہے کہ حکمران طبقہ سمجھے ’’ اثاثے ظاہر کرو‘‘ کوئی وقتی نعرہ نہیں بلکہ آنے والے کل کا حساب ہے۔ اگر آج شفافیت نہ دکھائی گئی تو کل عوام حساب لینا جانتے ہیں، اور پھر یہ سوال محض کالموں میں نہیں بلکہ سڑکوں پر گونجتا ہے۔ وزرا اور اعلیٰ حکومتی افسران کی غیر ضروری تنخواہوں اور مراعات کا ازسرِ نو جائزہ لیا جائے اور غیر معقول مراعات ختم کی جائیں۔ دولتِ عظمیٰ رکھنے والے افراد اور کارپوریٹ سیکٹر پر منصفانہ اور شفاف ٹیکسیشن یقینی بنائی جائے تاکہ عوامی خدمات کیلئے پائیدار وسائل پیدا کئے جا سکیں۔ شفافیت، قانون کی بالا دستی اور بروقت احتساب کے ذریعے ہی مستحکم معاشی نظام قائم کیا جا سکتا ہے۔ ان اقدامات سے عوام کا اداروں پر اعتماد بحال ہوگا اور قومی وسائل کی بہتر تقسیم ممکن ہو گی، ورنہ موجودہ روش معاشرے میں بے چینی کا سبب رہے گی۔
اب دیکھیں چین میں وزیر زراعت اور دیہی امور 63سالہ تانگ رنجیان کو بدعنوانی کے الزامات ثابت ہونے پر سزائے موت سنا دی، کیا پاکستان میں ایسا ممکن ہوسکتا ہے؟ جبکہ ہم ہر معاملے میں چین کی تقلید کی بات کرتے ہیں۔
محمد ناصر شریف





