ColumnTajamul Hussain Hashmi

بندوق کی نوک پر غزہ امن

بندوق کی نوک پر غزہ امن
تحریر : تجمل حسین ہاشمی

امریکہ کی پشت پناہی میں پیش کیا جانے والا غزہ امن منصوبہ درحقیقت اسرائیلی مفادات کی چال ہے، جسے اس نے خود ہی سبوتاژ کر دیا۔
صدر ٹرمپ نے آٹھ مسلمان رہنمائوں سے مل کر ایک ایسا معاہدہ پیش کیا، جس میں بظاہر غزہ میں جنگ بندی کی پیشکش ہے، مگر اس کی تیاری میں مغربی اور اسرائیلی مفادات کو خصوصی تحفظ دیا گیا، حقیقت یہ ہے کہ یہ منصوبہ غزہ کو ایک نوآبادیاتی کالونی میں ڈھالنے اور فلسطینی خودمختاری کے تصور کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کی سازش ہے، یہاں تک کہ اس نوآبادیاتی منصوبے کے گورنر جنرل کے عہدے کے لیے دنیا کے مشہور وار کرِمنل، ٹونی بلیئر کا نام تجویز کیا گیا جو افغان، عراقی، لیبیائی اور شام کے لاکھوں معصوم شہریوں کے خون میں ملوث ہیں اور برطانیہ میں انہیں ناپسندیدہ ترین وزرائے اعظم میں شمار کیا جاتا ہے، اگرچہ اس نامزدگی نے منصوبے کی غیر منصفانہ نوعیت کو مزید بے نقاب کیا مگر چونکہ ابتدائی مسودے میں فلسطینیوں کو چند بنیادی رعایتیں دی گئیں، مثلاً اسرائیلی حملوں کا وقتی طور پر رک جانا اور قابض فورسز کی واپسی، اس لیے بعض مسلمان رہنمائوں نے بظاہر اس پر اتفاق کر لیا، تاہم جب نیتن یاہو نے صدر ٹرمپ سے بعد میں ملاقات کی تو اس نے طے شدہ شرائط میں من مانی ترامیم کرائیں اور نتیجتاً وہی منصوبہ جس کا اعلان پہلے دوست مسلمان ممالک کی موجودگی میں ہوا تھا پھر اسی اسرائیلی منشور کی شکل لے آیا، جس نے فلسطینی توقعات کو پوری طرح پامال کر دیا، ٹرمپ کی متغیر پالیسی نے امریکہ کے اعتباری موقف کو داغدار کر دیا ہے مگر جب معاملہ اسرائیل کا ہو تو معلوم ہوتا ہے کہ امریکی صدر کی اپنی مرضی کا کوئی وزن نہیں رہتا۔ بدگمانی یہ تھی کہ دھڑلے سے طے پائے معاہدے سے یہ امید وابستہ تھی کہ بندوق کی نوک پر منوائے گئے اس ’ امن‘ کے نتیجے میں فی الوقت قتلِ عام رک جائے گا، مگر نیتن یاہو واپسی پر اعلان کر چکے کہ اسرائیلی فوج غزہ سے نہیں نکلے گی اور فلسطینی ریاست کا قیام قطعی قابلِ قبول نہیں ۔
بہت سے مشاہدین و تجزیہ نگار درست کہہ رہے ہیں کہ اس منصوبے کا اصل مقصد ریاستِ فلسطین کے تصور کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا اور اس خطے کو مغربی و اسرائیلی کنٹرول میں ایک نوآبادیاتی ڈھانچے میں بدلنا ہے، اسی وجہ سے غزہ کو الگ انفرادی علاقے کی حیثیت سے پیش کیا جا رہا ہے تاکہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کو الگ الگ کر کے فلسطین کے سالم تصور کو کمزور کیا جا سکے۔ مغرب و اسرائیل کی مدد سے پہلے ہی فلسطین کے بہت سے علاقے پر قبضہ ہو چکا ہے اور مشرقی یروشلم کو اپنا دارالحکومت قرار دینے کی کوشش اس کا حصہ ہے تاکہ مستقبل میں کسی ممکنہ فلسطینی ریاست کو اس کا دارالحکومت تسلیم نہ کیا جا سکے۔
غزہ کا کل رقبہ تقریباً 365مربع کلومیٹر (141مربع میل) ہے اور 2023ء میں یہاں تقریباً 22لاکھ فلسطینی بستے تھے، جبکہ مغربی کنارے کا رقبہ قریب 5660مربع کلومیٹر ( 2183مربع میل) ہے جس میں مشرقی یروشلم بھی شامل ہے اور وہاں فلسطینی آبادی اور اسرائیلی آبادکاروں کے درمیان زمینی تنازعہ شدت اختیار کیے ہوئے ہے۔ اسرائیلی قبضے، ناجائز بستیوں کی توسیع اور فلسطینی زمینوں پر زبردستی قبضے نے لاکھوں لوگوں کو اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کیا یا ان کے وجود کو کچل دیا۔ سات اکتوبر 2023ء کو ہوا وہ حملہ جس کے پسِ پردہ محرکات پر مغربی سیکیورٹی ماہرین نے شکوک ظاہر کیے کہ اس کا فائدہ اسرائیلی حکومت کو اسی نوع کی عسکری کارروائیاں شروع کرنے کے لیے ملا، مگر فلسطینی عوام کی مزاحمت اور جبر کے خلاف ان کی ثابت قدمی نے اس منصوبے کو ایک بیک فائر میں تبدیل کر دیا۔ امریکہ و اسرائیل کی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنہائی، بڑے ٹیک کمپنیز، میڈیا کنسورشیمز اور ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی حمایت نے ایک طاقتور نظام قائم کر رکھا ہے، جو فلسطینی عوام کے قتلِ عام اور جبر کی سرپرستی کرتا ہے۔ اس گرفت کو زمین پر توڑنے کے لیے عالمی عوامی تحریک اور غیر مغربی متبادل طاقت درکار ہے، ورنہ ظلم کے اس تسلسل کو روکا نہیں جا سکے گا۔ البتہ فی الفور قتلِ عام روکنا ازحد ضروری ہے اور اس کے لیے سمجھوتہ ناگزیر ہے۔
امریکہ واقعی روک سکتا ہے مگر سیاسی و معاشی مفادات کی وجہ سے روکنے کا عزم موجود نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا بین الاقوامی شعور، عوامی طاقت اور اخلاقی دباؤ اتنا مضبوط ہو جائے گا کہ فلسطینیوں کو ان کا حقِ حیات و خودمختاری واپس مل سکے؟ اسی راستے کی پہلی کرن یہ ہو گی کہ دنیا اسرائیل کی بربریت اور اس کے مغربی اتحادیوں کی خاموش حمایت کو بے نقاب کرے اور فلسطینی عوام کی قربانیوں کو منصفانہ عالمی کارروائی میں تبدیل کرے۔
قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کا ارشاد یاد رکھنے کی ضرورت ہے: ’’ اتحاد، ایمان، تنظیم‘‘، یہی اصول آج دنیا کے منصف عناصر کو ایک مربوط، باوقار اور موثر تحریک میں ڈھال سکتے ہیں جو ظلم کے خلاف کھڑی ہو اور فلسطین کے حقِ خود ارادیت کی آواز کو عالمی عدالتِ رائے تک پہنچا سکی۔

جواب دیں

Back to top button