ColumnRoshan Lal

معذرت کیوں، فلڈ انکوائری کیوں نہیں؟

معذرت کیوں، فلڈ انکوائری کیوں نہیں؟
تحریر : روشن لعل
پنجاب کے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے ان کی امداد کا پیپلز پارٹی کا مطالبہ محترمہ مریم نواز کو ناگوار گزرا۔ ناگواری کے عالم میں مریم نواز صاحبہ نے کچھ ایسی تلخ باتیں کہہ دیں جن کی پیپلز پارٹی کے لوگوں کو توقع نہیں تھی۔ مریم نواز کی غیر متوقع باتوں پر پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی اور سینیٹ اجلاسوں کا بائیکاٹ کر دیا۔ یہ بات کوئی راز نہیں کہ جس مسلم لیگ ن کی مریم نواز پنجاب میں وزیر اعلیٰ ہیں اسی مسلم لیگ ن کے شہباز شریف کی وفاقی حکومت پیپلز پارٹی کی حمایت سے قائم ہوئی اور اس کے حمایت واپس لینے پر دھڑام سے نیچے گر سکتی ہے۔ صاف ظاہر ہے مریم نواز کے چچا شہباز شریف کی جو حکومت پیپلز پارٹی کی حمایت سے چل رہی ہے اس کے لیے پی پی پی کے ووٹوں کے بغیر قومی اسمبلی یا سینیٹ میں کوئی قانون پاس کرنا ممکن نہیں ہے۔ اپنی اس حیثیت سے آگاہ ہونے کی وجہ سے پیپلز پارٹی نے یہ مطالبہ کر دیا کہ جب تک مریم نواز اپنی کہی ہوئی تلخ باتوں پر معذرت نہیں کرتیں اس وقت تک اس کے اراکین، پارلیمنٹ میں کسی قسم کی قانون سازی میں حصہ نہیں لیں گے۔ مریم نواز نے معذرت کرنے کی بجائے ان باتوں کو زور شور سے دہرانا شروع کر دیا جنہیں پیپلز پارٹی نے تلخ تصور کیا تھا۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ پنجاب کے جن سیلاب متاثرین کی بحالی کے معاملہ پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے لوگوں کے درمیان بیان بازی کا سلسلہ شروع ہوا تھا ، ان کی مشکلات، تکلیفیں اور مصائب پس پشت چلے گئے اور میڈیا پر یہ فضول بحث شروع ہو گئی کہ مریم نواز کو معذرت کرنی یا نہیں کرنی چاہیے۔
پنجاب میں حالیہ سیلاب کے دوران ایک طرف تو صوبائی حکومت اپنی کارکردگی کو مثالی قرار دیتی رہی لیکن دوسری طرف ایسی آوازیں بھی ابھریں جن میں سیلاب کی وجہ سے پیدا ہونے والی لوگوں کی تکلیفوں، مشکلات اور نقصانات کو کو قدرتی آفت سے زیادہ انسانی غلطیوں کا نتیجہ قرار دیا گیا۔ پنجاب حکومت کی آفیشل اپوزیشن تحریک انصاف ہے لیکن اس جماعت کے لوگوں کو عمران خان کے غم نے دنیا و مافیا سے اس قدر بے نیاز کر دیا ہے کہ انہیں نہ سیلاب زدگان کی تکلیفوں کا احساس ہو سکا اور نہ انہوں نے اس معاملے میں کچھ بولنا پسند کیا۔ پیپلز پارٹی نے جب سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے حکومت کو مشورے دینے شروع کیے تو امید پیدا ہوئی کہ شاید وہ آگے بڑھ کر سیلاب کی بروقت پیش گوئی اور حفاظتی انتظامات نہ کر سکنے والے حکومتی اداروں کی کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے احتساب کا مطالبہ بھی کر دیں ، مگر ایسا ہونے کی بجائے معاملات مریم نواز کی معذرت کی طرف چلے گئے۔ مریم نواز کی پیپلز پارٹی سے معذرت سیلاب زدگان کی ان تکلیفوں ، نقصانات اور مصائب کا ازالہ نہیں ہو سکتی جنہیں مبینہ طور پر پنجاب کے متعلقہ اداروں کی کوتاہیوں کا نتیجہ تصور کیا جارہا ہے۔
یہ بات کچھ گزشتہ تحریروں میں بھی بیان کی جاچکی ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ہر سال کے مخصوص مہینوں کو فلڈ سیزن کا نام دیا جاتا ہے۔ فلڈ سیزن کا دورانیہ 15جون سے 15اکتوبر تک ہوتا ہے۔ شدید بارشوں اور دریائوں کے تیز بہائو کا سیلابی موسم بہت زیادہ نقصان کر کے یا پھر کوئی آفت برپا کئے بغیر بھی گزر جاتا ہے۔ سیلاب کے نقصانات کا خطرہ کیونکہ ہر سال موجود رہتا ہے اس لیے یہ کام متعلقہ حکومتی اداروںکا فرض بنا دیئے گئے ہیں کہ وہ نہ صرف خود سیلاب سے بچائو کے لیے پیشگی انتظامات کریں بلکہ سیلابی علاقوں میں بسنے والے لوگوں کو بھی ممکنہ خطرات سے آگاہ رکھیں۔ سیلاب سے تحفظ کے لیے متعلقہ اداروں کو تفویض کیے گئے کام تین حصوں میں تقسیم کیے گئے ہیں۔ پہلی حصے میں حفاظتی انتظامات آتے ہیںجن میں حفاظتی پشتوں وغیرہ کی تعمیر اور بارش کی پیشگی اطلاع کا نظام وغیرہ شامل ہے۔ اگر تمام تر حفاظتی انتظامات کے باوجود دریائوں میں آنے والا انتہائی درجے کا سیلاب حفاظتی پشتو ں کو عبور کر تا ہوا
عوام کو متاثر کرے تو ان کی امداد ، محفوظ مقامات پر منتقلی اور سیلاب کی پیشگی وارننگ کا کام اہم ہو جاتا ہے جو سیلاب سے بچائو کے کاموں کا دوسرا حصہ ہے۔ اگر سیلاب عوام کے معمولات زندگی کو متاثر کر کے انہیں نقصان پہنچا دے تو سیلاب کے بعد بچائو کے تیسرے حصے کے طور پر ان کی بحالی کا کام کیا جاتا ہے۔ سیلاب سے بچائو کے تینوں حصوں میں پیشگی انتظامات کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ سیلاب کا تقریباً چار ماہ پر مشتمل موسم اگر خیر عافیت سے گزر جائے تو شکر ادا کیا جاتا ہے لیکن اگر سیلاب کے دوران عوام اس طرح متاثر ہوں جس طرح ان دنوں نظر آ رہے ہیں تو حکومت ان کے نقصانات، دکھوں اور تکلیفوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے ماتحت اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے بعد یہ طے کرتی ہے کہ کسی انسان کی غلطی اور کوتاہی سیلاب زدگان کے رنج و الم اور مصائب کا سبب تو نہیں ہے۔ محترمہ مریم نواز نے سیلاب کے دوران ظاہر ہونے والے لوگوں کے مصائب کے باوجود اپنی حکومت کی کارکردگی کو جس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے اس سے یہ قطعاً نہیں لگتا کہ وہ اپنے ماتحت اداروں کے لوگوں کے احتساب کا کوئی ارادہ رکھتی ہیں۔
ایسی صورتحال میں پیپلز پارٹی کو معافی تلافی کے چکروں میں پڑنے کی بجائے براہ راست حالیہ سیلاب کی انکوائری کے لیے اسی طرح ایک کمیٹی یا کمیشن کا مطالبہ کرنا چاہیے جس طرح 2010ء کے سیلاب کے بعد انکوائری کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ حالیہ فلڈ کی انکوائری کا مطالبہ اس لیے ضروری ہے کہ کیونکہ جو شدید بارشیں خطے میں سیلاب کا باعث ثابت بنیں، سائوتھ ایشین کلائمیٹ آئوٹ لک فورم نے ماہ اپریل کے آخر میں ہی ان کے معمول سے 30تا 70فیصد، زیادہ برسنے کی پیش گوئی کر دی تھی۔ جس طرح سے لوگ یہاں سیلاب سے متاثر ہوئے اس سے یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ سیلاب کا الارم بجانے والی معمول سے زیادہ بارشوں کی پیش گوئی کے باوجود یہاں سیلاب سے تحفظ کے مناسب انتظام کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا۔ فلڈ سیزن کے دوران لگاتا شدید بارشوں کی وجہ سے بھارت نے اپنے ڈیم وقت سے پہلے بھر لیے لیکن ہمارے متعلقہ ادارے اس بات سے بے خبر رہے ۔ شدید بارشیں جاری رہنے اور بھارت کے وقت سے پہلے ڈیم بھرنے کے بعد صاف نظر آرہا تھا کہ بھارت اپنے ڈیم بچانے کے لیے کسی بھی وقت ان سے لاکھوں کیوسک پانی پاکستان کی طرف بہنے کے لیے چھوڑ سکتا ہے۔ یہ خطرہ سر پر موجود تھا لیکن متعلقہ اداروں نے ممکنہ طور پر سیلاب کی زد میں موجود آبادیوں سے لوگوں کا انخلا نہ کیا۔ اس کے علاوہ کئی حفاظتی بندوں کا خود بخود ٹوٹنا بھی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایک عرصہ سے ان کی مرمت کا کام نظر انداز کیا گیا تھا۔ حکومتی اداروں کی اس طرح کی مزید کئی کوتاہیوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ ان کوتاہیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پیپلز پارٹی کو مریم نواز کی معذرت کی بجائے براہ راست فلڈ کے نقصانات کی غیر جانبدارانہ انکوائری کا مطالبہ کرنا چاہیے۔

جواب دیں

Back to top button