گلوبل صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی حملہ

گلوبل صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی حملہ
حالیہ دنوں میں فلسطین کی صورت حال ایک بار پھر عالمی ضمیر کا امتحان لے رہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کی آڑ میں جو سیاسی کھیل کھیلا جارہا ہے، وہ فلسطینیوں کی امنگوں، مزاحمت کے حق اور انسانی وقار کے ساتھ کھلا مذاق ہے۔ اس منصوبے کی بنیاد پر ایک طرف حماس سے غیر مسلح ہونے کا مطالبہ کیا جارہا ہے، تو دوسری جانب اسرائیل فریڈم فلوٹیلا جیسے انسانی امدادی مشن پر کھلے عام حملہ کررہا ہے، یہ سب کچھ امن کی چھتری تلے ہورہا ہے مگر اس امن کی اصل حقیقت ایک فریب ہے۔ اسرائیل پچھلے دو سال سے فلسطین پر آتش و آہن برسا رہا ہے اور 64ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی مسلمانوں کو شہید اور لاکھوں شہریوں کو زخمی کر چکا ہے۔ پوری دُنیا اس ناجائز ریاست کو اس ہولناک درندگی سے اب تک روک نہیں سکی ہے۔ ’’گلوبل صمود فلوٹیلا’’ ایک پُرامن، غیر مسلح اور خالص انسانی ہمدردی پر مبنی قافلہ ہے، جو غزہ کے محصور شہریوں کے لیے امداد لے کر جارہا تھا۔ اسرائیلی بحریہ کی جانب سے اس فلوٹیلا کو چاروں طرف سے گھیر کر حملہ کرنا نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ انسانیت کے خلاف جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ کشتیوں کی انٹرنیٹ کنیکٹیوٹی بند کرنا، جہازوں پر چڑھائی کرنا، مسافروں کو حراست میں لینا اور ان میں موجود صحافیوں کو بھی نشانہ بنانا اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل غزہ کو ایک کھلی جیل بنانے پر تُلا ہوا ہے اور دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ اسرائیل نے فریڈم فلوٹیلا کو نشانہ بنایا ہو۔ 2010 میں بھی ترک امدادی قافلے ’’ماوی مرمرہ’’ پر حملہ کر کے اسرائیلی فوج نے 9 انسانی کارکنوں کو شہید کیا تھا۔ آج ایک دہائی سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد تاریخ خود کو دہرا رہی ہے مگر عالمی برادری کی بے حسی پہلے سے کہیں زیادہ گہری ہوچکی ہے۔حماس نے امریکی امن منصوبے میں غیر مسلح ہونے کی شق کو مسترد کرتے ہوئے جو م¶قف اختیار کیا ہے، وہ کسی شدت پسندی یا انتہاپسندی کی نمائندگی نہیں کرتا بلکہ یہ ایک مزاحمتی قوم کی خودداری اور اصولی پالیسی کا آئینہ دار ہے۔ ایک ایسی تنظیم جو اپنے عوام کے دفاع کے لیے میدان میں ہے، اس سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کرنا سراسر ناانصافی ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب اسرائیلی جارحیت انتہا کو پہنچ چکی ہو۔ اگر واقعی امن مطلوب ہے تو سب سے پہلے اسرائیل سے ہتھیار رکھوانے چاہئیں، اس کے بعد فلسطینی مزاحمت پر بات ہوسکتی ہے، لیکن موجودہ ترتیب میں صرف مظلوم سے مطالبات کیے جارہے ہیں اور ظالم کو کھلی چھوٹ دی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کی جانب سے جنگ بندی کی اپیل، انسانی امداد کی رسائی اور یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ اپنی جگہ اہم ہے، لیکن یہ محض بیانات تک محدود ہیں۔ ان بیانات کے باوجود اسرائیل کا فریڈم فلوٹیلا پر حملہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اسرائیل اقوام متحدہ سمیت کسی عالمی ادارے کی پروا نہیں کرتا۔ اسی طرح، کینیڈا کی وزیر خارجہ انیتا آنند کا اسرائیل سے راہداریاں کھولنے کا مطالبہ، قطر اور ترکی کی طرف سے فلسطینیوں کے حق میں بیانات اور سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر جیسے افراد کی امن منصوبے میں شمولیت پر تنقید سب ایک جانب، لیکن جب تک ان بیانات کے ساتھ عملی اقدامات نہ ہوں، فلسطینیوں کی حالت نہیں بدلے گی۔ ترک صدر رجب طیب اردوان کا بیان اس ساری صورت حال میں سب سے توانا اور بے باک موقف ہے۔ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات منقطع کرنے، غزہ کے دفاع میں ہر ممکن اقدام کرنے اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام تک جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان کرکے امت مسلمہ کے سوئے ہوئے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ ترکی کی پالیسی نہ صرف اصولی ہے بلکہ عملی بھی، جو دیگر مسلم ممالک کے لیے مثال بن سکتی ہے، بشرطیکہ وہ جرأت کریں۔ انٹرنیشنل سینٹر آف جسٹس فار فلسطین (ICJP)کی جانب سے اس منصوبے پر کی گئی تنقید مکمل طور پر جائز اور حقیقت پر مبنی ہے۔ انہوں نے بجاطور پر اسے ’’نوآبادیاتی سوچ’’ قرار دیا ہے، کیونکہ یہ منصوبہ انصاف پر مبنی نہیں، بلکہ طاقت کے زور پر فلسطینی عوام سے ان کی سرزمین، مزاحمت اور شناخت چھیننے کی کوشش ہے۔امن منصوبے میں اسرائیلی انخلا کی مبہم شقیں، فلسطینی رائے کی عدم شمولیت اور سابق نوآبادیاتی قوتوں کے نمائندوں کی شمولیت، یہ سب اوامر اس بات کا پتا دیتے ہیں کہ اس منصوبے کا مقصد اسرائیل کو وقت دینا ہے، امن لانا نہیں۔ غزہ ایک انسانی بحران کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ وہاں کی تباہ شدہ عمارات، اجتماعی قبریں، معصوم لاشیں اور انسانی حقوق کی پامالی عالمی برادری کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے۔ فریڈم فلوٹیلا پر حملہ صرف ایک کشتی پر حملہ نہیں، بلکہ پوری انسانیت پر حملہ ہے۔ اگر آج اسرائیل کو کھلی چھوٹ دی گئی تو کل یہی روش دنیا کے کسی اور کونے میں دہرائی جاسکتی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ مسلم دنیا بیانات سے آگے نکلے اور اسرائیل پر سیاسی، سفارتی اور اقتصادی دبائو ڈالے۔ اقوام متحدہ کو چاہیے کہ وہ صرف جنگ بندی کی اپیلیں نہ کرے بلکہ عملی پابندیاں عائد کرے اور امریکا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ امن مسلط نہیں کیا جا سکتا، امن تب آتا ہے جب انصاف ہو، برابری ہو اور مظلوم کی آواز سنی جائے۔ غزہ، فریڈم فلوٹیلا، اور فلسطینی مزاحمت، یہ سب ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ حق اور سچ کبھی دبائے نہیں جاسکتے۔ وہ دن ضرور آئے گا جب دریا سے سمندر تک امن، آزادی اور انصاف کا سورج طلوع ہوگا۔
گیس و تیل کے نئے ذخائر دریافت
پاکستان کے توانائی کے شعبے کے لیے خوش آئند خبر ہے کہ او جی ڈی سی ایل نے سندھ کے ضلع خیرپور میں تیل اور گیس کا نیا ذخیرہ دریافت کیا ہے۔ بترسم ایسٹ۔1کے مقام پر کھدائی کے نتیجے میں حاصل ہونے والی یہ دریافت پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے اور درآمدی انحصار کو کم کرنے کی طرف ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اس دریافت سے یومیہ 22.5 لین اسٹینڈرڈ کیوبک فٹ گیس اور 690بیرل کنڈینسیٹ حاصل ہونے کی توقع ہے، جو ملک کے توانائی کے ذخائر میں قابل قدر اضافہ ہے۔ پاکستان کئی دہائیوں سے توانائی کے بحران کا سامنا کررہا ہے۔ صنعت، زراعت اور گھریلو صارفین کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ملک کو مہنگی درآمدی ایل این جی اور تیل پر انحصار کرنا پڑتا ہے، جو نہ صرف معیشت پر بوجھ بنتا بلکہ مہنگائی اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بھی بنتا ہے۔ ایسے میں مقامی گیس و تیل کے ذخائر کی دریافت ملکی معیشت کے لیے ریلیف کا باعث بن سکتی ہے۔ سندھ، خاص طور پر اس کا بالائی علاقہ، قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ سکھر، خیرپور، گھوٹکی اور تھر جیسے علاقوں میں گیس، کوئلے اور تیل کے ذخائر پہلے ہی دریافت ہوچکے اور مزید امکانات بھی موجود ہیں۔ خیرپور میں یہ نئی دریافت اس بات کی دلیل ہے کہ اگر جدید ٹیکنالوجی، پالیسی سپورٹ اور سرمایہ کاری کو مربوط طریقے سے استعمال کیا جائے تو پاکستان توانائی کے شعبے میں خودکفالت حاصل کرسکتا ہے۔ یہ دریافت صرف توانائی کی فراہمی نہیں بلکہ پاکستان کی معیشت پر بھی براہ راست مثبت اثر ڈال سکتی ہے۔ مقامی پیداوار کی وجہ سے مہنگے درآمدی ایندھن کی ضرورت کم ہوگی۔ گیس و تیل کی درآمد پر خرچ ہونے والا قیمتی زرمبادلہ بچایا جاسکے گا۔ مقامی سطح پر دریافت سے علاقے میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ سستی توانائی کی دستیابی سے صنعتیں بحال ہوں گی اور برآمدات بڑھانے میں مدد ملے گی۔ اگرچہ یہ دریافت خوش آئند ہے، لیکن اب حکومت پر بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ دریافت کے بعد پیداوار کو جلد از جلد قومی گرڈ میں شامل کیا جائے۔ مقامی سطح پر ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں تاکہ مقامی آبادی کو بھی براہ راست فائدہ پہنچے۔ او جی ڈی سی ایل جیسے اداروں کو مزید آزادی، وسائل اور ٹیکنالوجی فراہم کی جائے تاکہ وہ مزید تلاش کا عمل تیز کر سکیں۔ خیرپور میں نئی گیس و تیل کی دریافت نہ صرف پاکستان کے توانائی بحران میں کمی لاسکتی ہے بلکہ یہ ایک بڑے معاشی اور اسٹرٹیجک امکان کی نمائندگی بھی کرتی ہے۔ ضروری ہے کہ ان قدرتی وسائل کو صرف دریافت تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ مکمل منصوبہ بندی، شفافیت اور مقامی شراکت داری کے ذریعے قومی ترقی کے لیے استعمال کیا جائے۔ اگر یہی تسلسل جاری رہا، تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان توانائی کی میدان میں خودکفیل ہو کر اپنی صنعتی، زرعی اور گھریلو ضروریات کو اپنے ہی وسائل سے پورا کر سکے گا۔





