مریم بی بی 1989ء کی سیاست مت کرو

مریم بی بی 1989ء کی سیاست مت کرو
تحریر : محمد ضرار یوسف
2025 ء میں مریم بی بی اور اس کی تین چار سہیلیوں نے پنجاب کی حکمرانی 1989-90ء کی صوبائی عصبیت l نفرت اور تکبر پر مبنی سیاست کا نقشہ پیش کرنا شروع کر دیا ہے ۔
مریم بی بی سب کچھ بھول گئیں کہ نواز شریف کی سیاست سے دس سال کے لئے دستبرداری کا جنرل مشرف سے معاہدہ اور جلاوطنی کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف آصف علی زرداری نے باوجود ظلم، زیادتی، تشدد اور کسی جرم کے بغیر قائدین پیپلز پارٹی کو جیلوں میں قید رکھنے جیسے تلخ حقائق کو بھول کر پاکستان میں حقیقی جمہوری کلچر پروان چڑھانے کے لئے 2006ء میں چارٹر آف ڈیموکریسی کیا ۔
نواز شریف نے 90ء کی دہائی میں ایسی پالیسی اختیار کی تھی جو نواز شریف کو گریٹر پنجاب کے ایک اداکار کا شائبہ پیش کرتی تھی۔ پنجاب کو دیگر صوبوں پر فوقیت دیتی ہو، تو وہ اس ’’ پنجابائزیشن‘‘ کے تسلسل کا ایک حصہ تصور
کی جا سکتی ہے۔ اس کے اس عمل سے دوسرے صوبوں کے عوام میں پنجاب کے خلاف نفرت کو تقویت ملی ۔
نواز شریف اور ان کے رفقاء نے جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگا کر صوبائی عصبیت کی انتہاء کر دی یہ نعرہ اس وقت استعمال کیا جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت نے پنجاب کے اندر نظر انداز کئے گئے علاقوں اور دیہات میں پیپلز پروگرام کے تحت سڑکوں، گلیوں، محلوں میں ترقیاتی کام شروع کیے جن میں سکول کالج ڈسپنسریاں اور عوامی فلاح و بہبود کے ترقیاتی منصوبے تھے۔
نواز شریف نے اس نعرے کے ذریعے پنجاب میں ایک علاقائی اور لسانی بنیاد پر مزاحمتی فضا پیدا کی تاکہ پیپلز پارٹی کے وفاقی اثر کو کم کیا جا سکے۔
اس کا مقصد پنجاب کو وفاقی حکومت کے خلاف متحرک کرنا تھا، تاکہ بے نظیر کی حکومت کمزور ہو۔ اور وہ عوام کی فلاح بہبود کے اپنے منشور کے مطابق کام کرنے سے قاصر رہیں ۔
پیپلز پروگرام، محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کا ایک ترقیاتی منصوبہ تھا، جس کے ذریعے وفاقی حکومت براہِ راست عوامی فلاحی اسکیمیں ( ترقیاتی فنڈز، پینے کا پانی، چھوٹے ترقیاتی منصوبے) شروع کرنا چاہتی تھی۔ نواز شریف نے اس کے خلاف کئی عملی اقدامات کئے:
نواز شریف نے یہ موقف اپنایا کہ ترقیاتی فنڈز صوبائی حکومت کے ذریعے خرچ ہوں، براہِ راست وفاقی حکومت کے ذریعے نہیں۔
پنجاب حکومت نے کئی جگہوں پر پیپلز پروگرام کے تحت چلنے والے ترقیاتی کاموں کو بیوروکریسی کے ذریعے سست یا محدود کر دیا۔ وفاقی فنڈز روکنے کی کوشش میں پنجاب کے افسران کو ہدایات دی گئیں کہ وفاقی نمائندوں کے ساتھ تعاون محدود رکھیں تاکہ بے نظیر حکومت عوام میں کریڈٹ نہ لے سکے۔
حسین حقانی اپنی کتاب Between Mosque and Military(Carnegie Endowment, 2005)میں لکھتے ہیں کہ 1988ء کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے اسلامی جمہوری اتحاد (IJI)تشکیل دیا اور نواز شریف کو’’ counterweight‘‘ کے طور پر استعمال کیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے پیپلز پروگرام کو فوجی قیادت اور صدر غلام اسحاق خان نے پنجاب حکومت کو اشارہ دیا کہ پیپلز پروگرام کے منصوبے سبوتاژ کرے۔
عائشہ جلال اپنی کتاب Democracy and Authoritarianism in South Asia (Cambridge University Press, 1995)) میں لکھتی ہیں کہ نواز شریف کی صوبائی حکومت نے federal patronage schemes ( یعنی پیپلز پروگرام جیسے منصوبے) کو قبول کرنے سے انکار کیا اور کئی جگہوں پر انہیں منہدم کرایا۔ حالانکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 97،156اور 160کے تحت محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو صوبوں میں وفاقی ترقیاتی پروگرام چلانے کا اختیار حاصل تھا۔
مریم بی بی اپنے والد کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے جہاں صوبوں میں نفرت پھیلانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں وہاں غرور اور تکبر میں کسی مشورہ کو تسلیم کرنا درکنار، سننا بھی توہین سمجھتی ہیں، پنجاب حکومت دعویٰ کرتی ہے سیلاب زدگان کی مدد اپنے وسائل سے کرے گی اور فی کس دس لاکھ روپے ادا کرے گی ۔ پنجاب میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 42لاکھ افراد سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، اگر مریم بی بی اپنے دعوے کے مطابق ادائیگی کرتی ہے تو کل رقم 4.2ٹریلین روپے درکار ہو گی۔ جبکہ پنجاب کا 26۔2025ء کا کل بجٹ 5.22ٹریلین ہے، مریم بی بی نے اس سے قبل 300یونٹ بجلی استعمال کرنے والے کنزیومرز کو نوید سنائی تھی کہ ان کے بل حکومت پنجاب ادا کرے گی، جو تاحال ایفا نہیں ہو سکا، وزیر اعلیٰ پنجاب نے صوبائی حکومت کے اخراجات پورے کرنے کے لیے 405ارب روپے کے ٹی بلز (Treasury Bills)کے ذریعے قرض حاصل کیا۔ یہ رقم صوبے کے مالیاتی خسارے اور سیلابی بحالی جیسے اخراجات پورے کرنے کے لیے لی گئی ہے، اس قرض کا بوجھ براہِ راست پنجاب حکومت پر آئے گا اور اسے مقررہ مدت میں عام طور پر شرحِ سود (markup)کے ساتھ واپس بھی کرنا ہوگا۔
لیکن پنجاب کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے فرما رہی ہیں کہ یہ قرض نہیں ہے ۔
مریم بی بی کو مشورہ ہے کہ نفرتیں پہلے ہی بہت ہیں، مزید مت پھیلائو، یہ ملک کی جڑیں کھوکھلی کر دے گا۔ ملک ہے تو سیاست ہے۔ یہاں میں پیپلز پارٹی کی قیادت سے بھی عرض کرتا ہوں کہ 90ء کی دہائی میں نواز شریف جن کے ایما پر مرکز کے خلاف سرگرم تھے۔ وہ سب مستند ذرائع سے عوام کو معلوم ہوچکا ہے۔ آج بھی نظر رکھیں کہ مریم بی بی کن کی آشیرباد کی وجہ سے اپنی اہم اتحادی پارٹی، جس کی بدولت مرکز اور پنجاب میں مسند اقتدار پر قابض ہیں ، اس کے خلاف سرگرم ہے۔





