Column

’ ہمارے گمنام ہیرو‘‘

قاسم آصف جامی
لوگو: قلبِ قلم
’’ ہمارے گمنام ہیرو‘‘
ایسا نہیں ہے کہ ہماری تاریخ میں فقط وہی نام حیثیت اور اہمیت کے حامل ہیں جن کا ذکر ہمیں کتابوں میں درج ملا یا اخبارات کے تراشے انکی خدمات کی گواہی دیتے رہے بلکہ بہت سارے ایسے کردار بھی روشن اور جاوید روایت کا حصہ رہے ہیں جن کا ظہور اسباب و علل کے دستیاب نہ ہونے اور زمانے کی گرد بیٹھ جانے کے بعد اسے صاف نہ کرنے کی وجہ سے سامنے نہ آسکا۔ ایسا ہی ایک شاندار نام اور کردار نواب زادہ رحمت علی خان کا عیاں ہوتا ہے۔
نواب زادہ رحمت علی خان کا نام برطانوی سامراج کے خلاف ایک فراموش شدہ مزاحمتی کردار کی حیثیت سے سامنے آتا ہے، انیسویں صدی کے وسط اور بیسویں صدی کے اوائل میں برصغیر میں ایسے کئی مقامی سردار اور اشرافیہ خاندان سامنے آئے جنہوں نے برطانوی نوآبادیاتی اقتدار کو چیلنج کیا۔ ان میں نواب زادہ رحمت علی خان ( 1842۔1915ء )
ایک نمایاں مگر فراموش شدہ نام ہیں۔ ان کا تعلق پنجاب کے منج راجپوت خاندان سے تھا، جو اپنی عسکری روایت اور سیاسی اثر و رسوخ کے باعث جانا جاتا تھا۔ رحمت علی خان نے 1857ء کی جنگِ آزادی میں براہِ راست حصہ لیا، بعد ازاں عرب اور شام میں جھڑپوں میں شریک رہے، اور عثمانی خلافت کو خطوط کے ذریعے برطانوی سامراج کے خلاف امداد کی درخواستیں بھیجیں۔ ان کی سرگرمیاں برطانوی ریکارڈ میں مسلسل ایک ’’ خطرے‘‘ کے طور پر درج رہیں۔ 1915 ء میں جنگِ عظیم اوّل کے دوران وہ ایک منصوبہ بند بغاوت کے تناظر میں زہر ئدیے جانے کے نتیجے میں فوت ہوئے، اور ان کے خاندان کی جاگیریں ضبط کر لی گئیں۔
یہ کالم نوابزادہ رحمت علی خان کو ایک مقامی جاگیردار کے بجائے ایک ایسے سامراج مخالف مزاحمتی کردار کے طور پر دیکھنے کی کوشش ہے، جو اپنی عسکری طاقت اور بین الاقوامی روابط کے ذریعے نوآبادیاتی نظام کو چیلنج کرتا رہا۔
نسبی و خاندانی پس منظر کی بات کریں تو نواب زادہ رحمت علی خان کا تعلق منج راجپوت قبیلے سے تھا، جو اپنا نسب راجا جیسل، راجا سلواہان اور بھگوان کرشنا سے جوڑتا ہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اس قبیلے کی بعض شاخوں نے عسکری روایت کو برقرار رکھا اور مغل عہد میں اپنی خدمات کے ذریعے نمایاں مقام حاصل کیا۔ اٹھارویں صدی میں نواب عیسیٰ خان منج نے 1707ء کی جنگِ جاجاو میں شہزادہ اعظم شاہ کو شکست دی، 1711ء میں بندہ سنگھ بہادر کے خلاف کامیابی حاصل کی، اور 1718ء میں مغل اختیار کو رد کرتے ہوئے اپنی آزاد ریاست قائم کی۔
انیسویں صدی نواب عیسیٰ خان منج کے پڑپوتے نواب میر احمد علی خان، جو نواب زادہ رحمت علی خان کے دادا تھے، نے اس خاندان کو عثمانی خلافت سے جوڑا۔ ان کی شادی خلیفہ عبدالحمید اول کی بیٹی شہزادی المِسہ/ملِکسہ سے ہوئی، اور یوں یہ خانوادہ برصغیر کی ایک مقامی اشرافیہ سے نکل کر براہِ راست عثمانی شاہی خاندان کا حصہ بن گیا۔ رحمت علی خان کے والد، نواب محمد علی خان، توپ قاپی محل استنبول میں پیدا ہوئے اور بعد ازاں سیدہ فاطمہ جیلانی ( ساداتِ قادریہ) سے شادی کی۔ اس امتزاج نے رحمت علی خان کی شناخت میں راجپوتانہ عسکری، عثمانی شاہی اور ساداتِ جیلانی کی تینوں روایات کو یکجا کیا۔
ابتدائی زندگی اور لسانی و تعلیمی پس منظر:
زیادہ معتبر روایت کے مطابق رحمت علی خان14 یا 15فروری 1842ء کو سلطنتِ عثمانیہ کے منیسا محل میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام علی بن محمد خان تھا، تاہم برصغیر میں وہ رحمت علی خان کے نام سے معروف ہوئے۔ ان کے ساتھ ’’ چلبی‘‘، ’’ العلا العربی‘‘ اور ’’ المنج‘‘ جیسے القابات بھی منسلک رہے۔
وہ بمبئی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے اور رائل ملٹری کالج لندن سے بھی وابستہ رہے تھے۔ وہ پنجابی، عربی، فارسی، ترکی اور انگریزی کئی زبانوں پر بھی عبور رکھتے تھے۔ یہی تعلیمی اور لسانی پس منظر انھیں مقامی جاگیرداری سے ہٹ کر ایک وسیع تر بین الاقوامی فکری و سیاسی دائرے میں لاتا ہے۔ عربی، فارسی، انگریزی وغیرہ مختلف زبانوں میں ان کی تحریروں اور خطوط وغیرہ کی شہادتیں بھی گزشتہ کچھ عرصے کے دوران میں دست یاب ہوئی ہیں۔
1857ء کی جنگِ آزادی اور عملی مزاحمت:
1857 ء میں محض سولہ برس کی عمر میں انہوں نے دہلی پہنچ کر بہادر شاہ ظفر کی افواج میں شمولیت اختیار کی۔ دہلی کے محاصرے کے دوران فصیلوں کے ایک حصے کا دفاع ان کے سپرد ہوا۔ بعد ازاں جھانسی پہنچے اور رانی لکشمی بائی کے ساتھ قلعے کے دفاع میں شریک ہوئے۔ کلپی اور گوالیار کی لڑائیوں میں بھی انہوں نے براہِ راست حصہ لیا۔ گوالیار میں جب رانی لکشمی بائی زخمی ہوئیں تو سپاہ کی قیادت انہوں نے سنبھالی اور کئی دن تک برطانوی افواج کا مقابلہ جاری رکھا۔
یہ تمام معرکے ان کی شخصیت کو ایک ایسے نوجوان سردار کے طور پر نمایاں کرتے ہیں جس نے برطانوی سامراج کے خلاف عملی میدان میں مزاحمت کی۔
بعد از بغاوت عسکری سرگرمیاں
بغاوت کی ناکامی کے بعد بھی ان کی سرگرمیاں ختم نہ ہوئیں۔
1861ء میں نجد میں بیس روزہ جنگ لڑی جس کا اختتام صلح پر ہوا۔
1863ء میں دوبارہ پانچ روزہ جنگ لڑی، جس میں انہوں نے برتری حاصل کی۔
1883ء میں عراق اور شام کے قبائل کے ساتھ چار ماہ تک چھاپہ مار کارروائیاں جاری رہیں۔
یہ جھڑپیں اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ان کا عسکری دائرہ عمل برصغیر تک محدود نہ تھا، بلکہ انہوں نے عرب دنیا میں بھی اپنی عسکری موجودگی قائم رکھی۔ جبکہ رحمت علی خان نے اپنے خطوط کے ذریعے بھی غاصب حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کی۔
1316ھ میں بصرہ کے گورنر کو خط لکھ کر اپنی زمین کی ضبطی پر احتجاج کیا اور دھمکی دی کہ اگر زمین واپس نہ کی گئی تو طاقت کے ذریعے لی جائے گی۔
1877 ء میں سلطان عبدالحمید ثانی کو خط لکھ کر 77ہزار فوجی امداد کی درخواست کی تاکہ ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کی جا سکے۔ اگرچہ عثمانی سلطنت مالی مشکلات کے باعث صرف 12ہزار فوجی دینے پر آمادہ ہوئی، تاہم یہ خط اس بات کی علامت ہے کہ رحمت علی خان خود کو بین الاقوامی سطح پر ایک مزاحمتی رہنما کے طور پر دیکھتے تھے۔
اور اس مزاحمت پر برطانوی رد عمل کی روداد کچھ یوں ہے کہ 1909ء کی مارلے-منٹو اصلاحات کے بعد برطانوی خفیہ رپورٹس میں ان کا ذکر نمایاں ہونے لگا۔ ان کے زیرِ انتظام تقریباً 2200ایکڑ زمین، کئی قلعے اور سترہ ہزار مسلح افراد تھے۔ یہی قوت انھیں برطانوی حکام کے نزدیک ایک مستقل خطرہ بناتی رہی۔ ان پر کڑی نگرانی رکھی گئی اور ان کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے منصوبے ترتیب دیے گئے۔
1915 ء میں جنگِ عظیم اوّل کے دوران دہلی پر قبضے کی ایک منصوبہ بندی کی گئی جس میں رحمت علی خان کا کردار اہم تھا۔ منصوبہ افشا ہو گیا اور 15جون 1915ء کو انھیں زہر دے دیا گیا جس سبب وہ اس سازش سے خالقِ حقیقی کو جاملے۔ ان کی وفات کے بعد برطانوی حکومت نے ان کی جاگیریں اور محلات ضبط کر لیے اور ان کے خاندان کی عسکری و سیاسی حیثیت کمزور پڑ گئی۔
نواب زادہ رحمت علی خان کی شخصیت برصغیر کی تاریخ میں ایک ایسے کردار کے طور پر سامنے آتی ہے، جو محض ایک جاگیردار نہیں بلکہ ایک مزاحمتی سردار تھے۔ ان کی مزاحمت کئی جہات رکھتی تھی:
مقامی سطح پر برطانوی سامراج کے خلاف بغاوت میں عملی شرکت۔
عرب دنیا میں عسکری جھڑپوں کے ذریعے اپنی موجودگی۔
عثمانی خلافت سے برصغیر میں برطانوی استعمار کے خلاف امداد کی اپیل۔
ان کی زندگی اس بات کی مثال ہے کہ برصغیر کے بعض خاندان اپنی عسکری روایت اور بین الاقوامی روابط کے بل بوتے پر نوآبادیاتی اقتدار کو چیلنج کرتے رہے۔ تاہم نوآبادیاتی سیاست کی سخت حکمتِ عملی اور خفیہ نگرانی کے باعث ان کی حیثیت ختم کر دی گئی اور وہ تاریخ کے صفحات میں ایک فراموش شدہ کردار بن کر رہ گئے۔
یہ مختصر سطور اس فراموش شدہ تاریخی کردار کی باز یافت کے لیے محض ابتدائی کوشش ہیں۔ ان کی زندگی کے بہت سے گوشوں کے حوالے سے تفصیلات جاننے اور ان پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تحقیق برصغیر میں انگریز کے خلافت مزاحمتی کرداروں سے آشنا کرنے کے ساتھ ساتھ پنجاب کے راجپوت سرداروں اور بہ طور خاص منج راجپوت سرداروں کے حوالے سے اہم معلومات فراہم کر سکتی ہے، اگر کوئی منجھا ہوا منج اس کا بیڑا اٹھائے تو اپنے اکابر کے نام اور کام کو زندہ رکھنے میں یہ خدمت غیر معمولی ہوسکتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button