Column

ٹرمپ امن فارمولا

ٹرمپ امن فارمولا
شہر خواب ۔۔۔
صفدر علی حیدری
غزہ کی سنگین صورت اور وہاں برسوں سے جاری بحران کے حوالے سے ایک اہم پیش خبروں کی زینت بنی ہے۔
امریکی صدر نے امن کے قیام کے لیے ایک 20نکاتی فارمولا پیش کیا ہے جس پر آج کل بہت زیادہ بات ہو رہی ہے۔ ہر دو جانب سے اس فارمولے کے حق اور مخالفت میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔
امریکی صدر نے اہم مسلمان ممالک سعودی عرب، عرب امارات، مصر، اردن، قطر، ترکیہ وغیرہ کے ساتھ پاکستان کو بھی اعتماد میں لیا۔ تاثر یہی دیا جا رہا ہے کہ ان مسلمان ممالک نے یہ فارمولے تسلیم کر لیا ہے اور اب اسے حماس کی اعلیٰ قیادت تک بھی پہنچا دیا ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے بہتر ہو گا اس امن فارمولے کے اہم نکات پر ایک نظر ڈال لی جائے۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ غزہ اب غیر فوجی علاقہ ہو گا جہاں پر کسی بھی قسم کی مسلح مزاحمت یا گروپوں کی گنجائش نہیں ہو گی۔
امن منصوبے کے تحت اسرائیلی فوج پیچھے ہٹ کر ایک مخصوص علاقے تک محدود رہے گی۔ اس دوران اگلے تین دنوں کے اندر حماس اپنے پاس موجود اسرائیلی یرغمالی اور مرنے والوں کی باقیات واپس کر دے گی۔ جواب میں اسرائیل بھی ڈیڑھ ہزار سے زائد غزہ کے شہری اپنی قید سے رہا کر دے گا۔
حماس کے ان لوگوں کے لیے عام معافی ہو گی، جو پرامن رہنے کا وعدہ کریں اور ہتھیار ضائع کر دیں۔ پھر وہ غزہ میں بھی رہ سکتے ہیں۔
حماس کے جو لوگ یہاں سے جانا چاہیں گے، انھیں محفوظ راستہ دیا جائے گا۔
اس فارمولے میں غزہ کی تعمیر نو کا وعدہ بھی شامل ہے۔
اس کے مطابق غیر سیاسی فلسطینی کمیٹی کے تحت عبوری حکومت قائم کی جائے گی۔
اس بورڈ آف پیس کے سربراہ امریکی صدر ٹرمپ اور سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر اس کا حصہ ہوں گے۔
غزہ کی تعمیر و ترقی کے اصلاحات کے لیے یہی بورڈ نگرانی کرے گا۔
ایک خصوصی اقتصادی زون کو ترجیحی ٹیرف اور دیگر سہولتوں کے ساتھ قائم کیا جائے گا۔
سب سے حساس نکتہ یہ ہے کہ
حماس کا غزہ میں کسی قسم کا کوئی کردار نہیں ہو گا۔
غزہ میں فوری طور پر ایک انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس ( آئی ایس ایف) بنائی جائے گی جو فلسطینی پولیس کو تربیت دے گی۔ یہ اسرائیل اور مصر کے ساتھ مل کر سرحدوں کی حفاظت بھی کرے گی اور جنگی سامان غزہ میں نہیں داخل ہونے دے گی۔
جیسے جیسے آئی ایس ایف فعال ہوگی اور فلسطینی پولیس معاملات سنبھالے گی، اسرائیلی فوج بتدریج پیچھے ہٹتی جائے گی اور انتظام آئی ایس ایف کے حوالے کر دے گی۔
اس امن منصوبے کی عجیب بات یہ ہے کہ اس میں آزاد فلسطینی ریاست کا نام نہیں لیا گیا۔
اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ وہ آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کریں گے اور نہ یہ معاہدے میں ہے۔
اس منصوبے کے مطابق حماس کا غزہ میں کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔ یہ نکتہ اس فارمولے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتا ہے۔ حماس وہاں کو اپنا اثر و رسوخ بے پناہ عزیز ہے۔ اگر اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا ہو جائے اور فلسطین کی آزاد ریاست ہو، تب حماس مسلح جدوجہد کے خاتمے کا اعلان کر سکتی ہے۔
یہ سوال بھی اپنی جگہ بہت اہم ہے کہ اگر آزاد فلسطینی ریاست فوری نہیں بن رہی تو پھر ان قربانیوں کا کیا فائدہ؟
اس منصوبے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ غزہ میں فوری جنگ بندی ہو جائے گی۔ فلسطینیوں پر برسوں سے جاری مظالم کا سلسلہ رک جائے گا۔ اس سے وہاں امن کی بحالی اور تعمیر نو کی کاوشوں کا آغاز ہو گا۔
غزہ کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری آئے ، عرب ممالک اپنا پیسہ وہاں خرچ کریں تو ظاہر ہے وہاں کے عوام کو چین و سکون حاصل ہو گا ، روزگار ملے گا اور وہاں خوش حالی آئے گی۔
امریکی صدر کے بقول اس امن منصوبے کو پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی حمایت حاصل ہے۔ اس حوالے سے پاکستانی سوشل میڈیا پر ابھی سے شور مچنا شروع ہوگیا ہے۔ بہت سے لوگوں نے دھڑا دھڑ پوسٹیں لگانا شروع کر دی ہیں۔ لوگ شمع جونیجو کے حوالے سے پہلے ہی ایسے خدشات ظاہر کر رہے تھے۔
تاہم ابھی تک صرف یہ ہوا ہے کہ صدر ٹرمپ کے اس امن منصوبے کی پاکستان نے دیگر مسلم ممالک سمیت حمایت کی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسے تاریخ کے عظیم ترین منصوبوں میں سے ایک گردانتے ہیں۔ ان کے مقبول اس سے مشرق وسطیٰ میں دائمی امن کا قیام ممکن ہو گا۔
یقینا یہ مبالغہ آرائی ہی ہے لیکن اُن کا 20نکاتی مجوزہ منصوبہ بلاشبہ ایک اہم سفارتی قدم ضرور ہے ، جس کا اعلان پیر کو صدر ٹرمپ نے وائٹ ہائوس میں نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات کے بعد کیا۔
بی بی سی کے بقول ’’ آنے والے ہفتوں میں یہ مجوزہ منصوبہ حقیقت کا روپ دھارتا ہے یا نہیں، اس کا انحصار انہی عوامل پر ہو گا جو ہمیشہ سے بنیادی نوعیت کے رہے ہیں: مثلاً کیا نیتن یاہو اور حماس کی قیادت، دونوں اب جنگ کو جاری رکھنے کے بجائے اس کے خاتمے میں زیادہ فائدہ دیکھ رہے ہیں ‘‘۔
حماس کے ایک اہم سینئر اہلکار نے اس پر مایوسی کا اظہار کیا اور بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اشارہ دیا کہ یہ شرائط فلسطینیوں کے مفادات کے تحفظ میں بڑی حد تک ناکام رہی ہیں اور یہ بھی کہ حماس کسی بھی ایسے منصوبے کو قبول نہیں کرے گا جو غزہ سے اسرائیل کے مکمل انخلا کی ضمانت نہ دے۔
مجوزہ منصوبہ واضح طور پر اُس پیش رفت کے حصول کے لیے کافی نہیں ہو سکتا جو ٹرمپ چاہتے ہیں۔ اس منصوبے میں اب بھی اسرائیل اور حماس دونوں کے سیاسی حلقوں کے لیے اہم رکاوٹیں موجود ہیں جو انھیں بالآخر کسی معاہدے پر پہنچنے سے روک سکتی ہیں۔
اس منصوبے میں کافی ابہام بھی ہے جسے کوئی بھی فریق اس پورے عمل کو سبوتاع کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے، اور اس کی ناکامی کا ذمہ دار دوسرے فریق کو ٹھہرا سکتا ہے۔
اگرچہ ٹرمپ نے اسے ایک معاہدے کے طور پر پیش کیا ہے لیکن حقیقت میں یہ مزید مذاکرات کے لیے ایک ڈھانچہ ہے ۔ یا جیسا کہ انہوں نے ایک موقع پر کہا کہ ’’ اصولوں‘‘ کا ضابطہ کار ہے۔ یہ اس قسم کے تفصیلی منصوبے سے بہت دور ہے جو غزہ میں جنگ کے خاتمے پر اتفاق کے لیے درکار ہو گا۔
یہ ڈھانچہ ماضی کی تجاویز سے مستعار لیا گیا ہے جس میں جولائی کا سعودی فرانسیسی منصوبہ اور 20نکاتی منصوبے کے تحت غزہ کے انتظام کی عارضی نگرانی کرنے والے مجوزہ ’’ بورڈ آف پیس‘‘ کے رکن اور برطانیہ کے سابق وزیراعظم سر ٹونی بلیئر جیسی حالیہ اقدامات شامل ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ یہ سارا فریم ورک جنگ کے خاتمے کے ان کے مقاصد کے مطابق ہے جو کہ حماس کو غیر مسلح دیکھنا، غزہ کو غیر فوجی بنانا اور کسی فلسطینی ریاست کا قیام نہ ہونا ہے۔
یورپی ممالک کے خیال میں یہ تنازعہ قابو سے باہر ہوتا جا رہا تھا اور ان کا خیال تھا کہ وہ اس دو ریاستی حل کے لیے اعتدال پسندوں سے اپیل کر سکتے ہیں۔ اگرچہ اس منصوبے میں یہ خیال واضح طور پر موجود نہیں ہے لیکن انھوں نے ٹرمپ کو غزہ کے لیے ایک اعتدال پسند تجویز پر اتفاق کرنے کو کلیدی قدم سمجھا ہے ۔
خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امریکی فریم ورک اس مسئلے کو مذاکرات کی طرف واپس لے جائے گا لیکن اسے ٹرمپ کے بقول ’’ جنگ کے خاتمے‘‘ جیسی کسی بھی چیز تک پہنچانے کے لیے اب بھی کئی ہفتوں یا اس سے زیادہ وقت کے محنت طلب کام کی ضرورت ہو گی ۔
یہ منصوبہ کامیاب ہوتا ہے یا ناکام ، یہ تو آنے والا وقت ہی بتا پائے گا۔ مگر ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم یہی چاہتے ہیں کہ وہاں جلد از جلد جنگ بندی ہو، امن قائم ہو اور اسرائیلی فوجی واپس چلے جائیں ۔
ہم مسلمان آج تک فلسطینی بھائیوں کے لیے کچھ بھی نہیں کر پائے نہ مستقبل قریب میں ایسی کوءی امید ہے۔ ایسے میں مقام شکر ہے کہ دنیا کو فلسطین میں امن و امان کے قیام کا خیال تو آیا۔
دعا ہے کہ قیام امن کی کوششیں کامیاب ہوں اور فلسطینوں کو امن و سکون سے اپنی زندگی گزارنے کا موقع ملے۔

جواب دیں

Back to top button