سیلاب کی تباہ کاریوں میں فلاحی تنظیموں کا کردار

سیلاب کی تباہ کاریوں میں فلاحی تنظیموں کا کردار
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
حالیہ سیلابوں کی تباہ کاریوں نے متاثرہ علاقوں کے رہنے والوں کی کمر توڑ دی ہے۔ فصلیں اور مال مویشی پانی کی نذر ہو گئے مکانات منہدم ہو چکے ہیں جبکہ ان علاقوں کے رہنے والوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ عشروں بعد جو سیلاب آیا اس نے انسانوں کو حواس باختہ کر دیا کسی کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے اور کہا جائے لیکن حق تعالیٰ نے مشکلات میں پھنسے لوگوں کے مدد کے لئے انسانوں میں سے ہی کچھ لوگ منتخب کر رکھے ہیں جو فلاح انسانیت پر ایمان رکھتے ہیں۔ اسلام میں ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان بھائی کی مدد کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے ۔ جو کوئی مسلمان مشکل میں ہو تو اس کی مدد کرنے والے کے ساتھ حق تعالیٰ کی مدد بھی شامل ہو جاتی ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ روایت کرتے ہیں رسالت مآبؐ نے فرمایا جس نے اپنے بھائی کی حاجت پوری کی اللہ سبحانہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری کرے گا۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے سہارا چھوڑتا ہے لیکن باری تعالیٰ کا خوف رکھنے والے اور اس کی خوشنودی کے طلبگار لوگ مصیبت کی گھڑی میں مشکل میں گھیرے اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لئے سرگرم رہتے ہیں، جو ایک مسلمان کا طرہ امتیاز ہے وہ مصیبت میں دوسرے مسلمان بھائی کا دوست و بازو بنا رہتا ہے ۔ اگلے روز المصطفیٰ ٹرسٹ کے زیراہتمام وفاقی دارالحکومت میں جڑواں شہر کے میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو حالیہ سیلابوں میں ٹرسٹ کی سرگرمیوں سے آگاہ کرنے کے لئے کانفرس کا انعقاد کیا جس کے روح رواں معروف تاریخ دان سجاد اظہر کی دعوت پر مجھے بھی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ المصفطیٰ ٹرسٹ کی ایم ڈی محترمہ نصرت سلیم بتا رہی تھیں حالیہ سیلابوں میں دس لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں اور سات ہزار سے زیادہ مویشی پانی کی نذر ہوئے ہیں۔اس کے ساتھ لاکھوں ایکٹر چاول کی فصل تباہ ہو گئی ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق چار سو ارب کا مالی نقصان ہوا ہے جس کی تلافی برسوں پوری نہیں ہو سکے گی۔ہمیں یہ سن کر مسرت ہوئی المصطفیٰ ویلفیر ٹرسٹ دنیا کے بائیس ملکوں میں فلاحی کام کر رہا ہے غزہ ہو یا کشمیر یا دنیا میں کہیں مسلمان مشکل میں ہوں اس فلاحی تنظیم کے کارکن اپنے مسلمان بھائیوں کی مشکل میں شانہ بشانہ ہوتے ہیں۔ ٹرسٹ کی ایم ڈی اور کوارڈنیٹر نواز کھرل نے صحافیوں کو بتایا سیلابی علاقوں میں دس خیمہ بستیوں میں پانچ ہزار متاثرہ افراد کو ٹھہرایا گیا۔ متاثرین کو طبی امداد کی فراہمی کے لئے 25میڈیکل کیمپ قائم کئے گئے سیلابی پانیوں میں پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالنے اور ان تک امداد پہنچانے کے بیس کشتیوں کا انتظام کیا گیا جن کے ذریعے متاثرہ افراد کو کھانے کے فراہمی کے ساتھ ساتھ طبی امداد پہنچائی گئی۔ صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ایم ڈی نے بتایا ضلع راولپنڈی میں دریائے سواں میں آنے والی طغیانی سے اڈیالہ، خصالہ اور چونترہ کے علاقے خاصے متاثر ہوئے اسی طرح مانسہرہ، سیالکوٹ، جھنگ،چینوٹ، خانیوال، وہاڑی، بہاول نگر،بہاولپور، اوکاڑہ، ملتان، لودھراں ،مظفر گڑھ،ٹوبہ ٹیک سنگھ، قصور، وزیرآباد، حافظ آباد، منڈی بہائوالدین،لاہور،شیخوپورہ، نارووال، پاکپتن،صوبہ سندھ کے گھوٹکی، خیرپور اور سکھر کے علاوہ کے پی کے علاقے بونئیر میں امدادی سرگرمیاں جاری رکھی۔ اس موقع پر بعض صحافیوں نے تجویز دی ملک کی تمام این جی اوز باہم ملک کر فلاحی کاموں میں حصہ لیں تو متاثرہ لوگوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کی جا سکتی ہے۔ گو المطفیٰ ٹرسٹ اندرون اور بیرون ملک فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے جیسا کہ صوبائی دارالحکومت لاہور میں ایک بڑا آئی ہسپتال قائم کیا گیا ہے جس میں کئی لاکھ افراد کی آنکھوں کے مفت آپریشن کئے گئے ہیں ۔ اسی طرح مانسہرہ اور اٹک میں اسی ٹرسٹ کی زیر نگرانی ہسپتال قائم کئے گئے ہیں جہاں مریضوں کا مفت علاج معالجہ کیا جاتا ہے۔ لگ بھگ ایک سال پہلے کی بات ہے محترم سجاد اظہر اس ناچیز کو آزاد کشمیر کے علاقے ڈڈویال لے گئے جہاں المصطفیٰ ٹرسٹ کے زیر انتظام آنکھوں کا ہسپتال قائم کیا گیا ہے جہاں سے لوگ بغیر کوئی معاوضہ دیئے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ ان تمام باتوں کے ساتھ ہمیں ان عوامل پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات درست ہے بارش اللہ سبحانہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے لیکن اس کے ساتھ وہ لوگ جو آبی گزرگاہوں میں بڑی بڑی ہائوسنگ کالونیاں تعمیر کرتے ہیں کیا حکومت وقت کے ذمہ داران اس بات سے لاعلم تھے کہ پانی نہ ہونے کی صورت میں دریائی گزرگاہیں ختم نہیں ہو سکتیں؟ مصلحت پسندی کا یہ عالم ہے حکومت میں شریک اقتدار لوگوں نے آبی گزرگاہوں میں ہائوسنگ سوسائٹیز کیوں اور کس کی اجازت سے بنائی ؟ کیا حکومت کا کوئی عہدے دار اس کا جواب دے سکتا ہے؟ پاکستان کی اشرافیہ کا یہ معمول رہا ہے عوام جائیں بھاڑ میں انہیں مال و دولت سمیٹنے کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ پنجاب میں غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیاں اور غیر قانونی تعمیرات کیا حکومت سے ڈھکی چھپی ہیں؟ ہزاروں ایکڑ جنگلات کی اراضی ایک پرائیویٹ سوسائٹی کو دینے والے آزاد گھوم پھر رہے ہیں۔ محکمہ مال کے وہ اعلیٰ افسران اور ملازمین جو اس کام میں شریک رہے بدستور اپنے عہدوں پر فائز ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات ختم کرنے کی دعویٰ دار ہیں انہیں راولپنڈی کے پوش علاقے سیٹلائٹ ٹائون میں بغیر نقشہ پاس کرائے کمرشل پلازوں کی تعمیر سے بے خبر ہیں؟ شہری ان تعمیرات کے خلاف سراپا احتجاج ہیں لیکن ان کے شنوائی کسی فورم پر نہیں ہو رہی ہے جبکہ غیرقانونی تعمیرات بدستور جاری ہیں۔ دریائے راوی اور دریائے سواں کے کناروں پر ہائوسنگ سوسائٹیز بنانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نہیں ہوتی ہے؟ بعض حکومتی وزراء اور اراکین اسمبلی غیر قانونی تعمیرات کرنے والوں کی پشت پر ہوتے ہیں لہذا ان لوگوں کے خلاف نہ تو آر ڈی اے نہ ہی بلدیہ کے حکام کارروائی کرنے کی جرات کرتے ہیں۔ پنجاب کی حکومت کے لئے سیلابوں سے متاثرہ لوگوں کی آبادی کاری بہت بڑا چیلنج ہے۔ وزیراعلیٰ کا دعویٰ ہے وہ ترقی میں پنجاب کو کہاں سے کہاں لے گئی ہیں۔ سیلابوں سے متاثرہ افراد کی بحالی موجودہ حکومت کا امتحان ہے۔ اب دیکھتے ہیں پنجاب حکومت سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے آبادی کے چیلنج سے کسی طرح عہدہ برآ ہوتی ہے، عوام کو انتظار کرنا چاہیے۔





