شکست کا ذمہ دار۔ بابر اعظم

شکست کا ذمہ دار۔ بابر اعظم
محمد مبشر انوار
گزشتہ تحریر بعنوان ’’ متوقع دورہ پاکستان‘‘ میں برسبیل تذکرہ پاک بھارت ایشیا کپ ٹی ٹوٹنی 2025کے حوالے سے لکھا تھا کہ ’’ کھیلوں کے میدان کے حوالے سے، ایک اور اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان بہرطور ایشیا کپ 2025کے فائنل میں پہنچ چکا ہے، جہاں اس کا مقابلہ آج پھر بھارت سے ہونے جا رہاہے، بھارتی کھلاڑیوں اور کپتان نے جس طرح کا رویہ کھیل کے میدان میں اپنایا ہے، اس سے ان کی اپنی ہی جگ ہنسائی ہوئی ہے تاہم باوجود یکہ بھارتی کرکٹ ٹیم، اپنی سلیکشن میں، اس وقت کرکٹ کے نقطہ نگاہ سے ایک بہترین ٹیم ہے لیکن میدان میں پھر بھی امپائر کے ساتھ ہی کھیلتی ہے، جس کی واضح مثال سپر فور میچ میں فخر زمان کا غلط آئوٹ ہے۔ بہرطور جو طوفان بدتمیزی اس وقت کرکٹ کے میدانوں میں بھارتی کرکٹ بورڈ اور اس کے کھلاڑیوں کے جانب سے جاری ہے، مجھے ایک بار پھر 2017ء چمپئنز ٹرافی کی یاد دلاتی ہے، جب بھارتی خود کو پاکستان کا باپ کہلاتے نہیں تھکتے تھے لیکن فائنل میں پاکستانی ٹیم نے وہ بھرکس نکالا تھا کہ ساری عمر یاد رکھا جائیگا۔ میری دانست میں آج بھی کرکٹ کے میدان میں وہی صورتحال ہو چکی ہے کہ بھارت جس طرح آپے سے باہر ہو رہا ہے اس کا جواب میدان میں بخوبی دینے کی اہلیت پاکستانی ٹیم ہمیشہ رکھتی ہے بشرطیکہ اس پر مصالحت یا مفاہمت یا دبائو نہ ہو، تو آج بھی پاکستان، بہترین بھارتی کرکٹ ٹیم کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ رہی بات پاکستان کرکٹ بورڈ کی تو ساری دنیا کو علم ہے کہ اس وقت پاکستانی بورڈ، پاکستانی کرکٹ کی نسبت ذاتی بغض و عناد و انا کا شکار ہے وگرنہ اس سے بہتر پاکستان ٹیم منتخب کی جاسکتی تھی، اس پر تفصیل سے لکھا جا سکتا ہے اور یہ بھی برسبیل تذکرہ، آج کے فائنل کی نسبت یہاں تحریر کیا ہے‘‘۔ کل کے میچ پر تبصرے تو بہت زیادہ ہو چکے ہیں اور پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کے حوالے سے بچے بچے کی زباں پر یہ بات آچکی ہے کہ ایسی کارکردگی تو کلب لیول کے کھلاڑی بھی دکھا سکتے ہیں، مراد یہ ہے کہ جس طرح پاکستان ٹیم ہاری ہے، ایسی کارکردگی تو کلب کے کھلاڑی بھی نہیں دکھاتے۔ بارہویں اوورز تک پاکستان کی میچ پر گرفت انتہائی مضبوط دکھائی دے رہی تھی اور یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے آج پاکستان، بھارت کو کم از کم دو سو سکور کا ٹارگٹ دے گا لیکن حیرت انگیز طور پر، پاکستان نے بھارت کو جیت کے لئے صرف 147کا ٹارگٹ دیا- پاکستانی کھلاڑیوں کی بدحواسی و سنجیدگی، ایک ایک شاٹ سے واضح ہو رہی تھی، یوں محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی نظم، ترتیب یا منصوبہ پس پردہ کام نہیں کر رہا بلکہ ہر کھلاڑی کو کھلی چھوٹ ہے کہ جیسے چاہے، کریز پر جا کر بلا گھماتا رہے، خواہ گیند شاٹ والی ہو یا نہیں۔ قریبا دو سال ہو چکے، ان کھلاڑیوں کو ساتھ کھیلتے ہوئے، کہیں کوئی تال میل ملتا دکھائی نہیں دے رہا تھا کہ یہ واقعی ایک عالمی معیار کی ٹیم ہے، جس کے کھلاڑی ایک دوسرے کے ساتھ لمبے عرصہ سے کھیل رہے ہیں، کریز پر کھڑے ہونے کے لئے کوئی تیار ہی دکھائی نہیں دیتا تھا، ممکنہ طور پر میچ روایتی حریف سے ہونے کے باعث، جذبات پورے عروج پر تھے اور ہر کھلاڑی یہ تصور کئے بیٹھا تھا کہ آج کی کارکردگی یقینی طور پر اگلے کئی سیزن کے لئے اس کی جگہ مضبوط کر جائیگی مگر کسی ایک کھلاڑی کی جانب سے بھی ذہنی پختگی کا مظاہرہ نہیں ہوا۔ تسلیم کہ بھارت کے خلاف کارکردگی دکھانے پر، عوام میں آپ کا تاثر ایک ہیرو کے طور پر بن جاتا مگر ایک لمحہ کو رک کر سوچئے کہ اگر یہ میچ جیت جاتے تو تاثر کیا ہوتا؟ جیتنے کے یہ انداز قطعی نہیں ہوتے، کرکٹ کھیلنا اور کرکٹ کی سمجھ بوجھ ہونا، دو قطعی مختلف چیزیں ہیں، موقع کی مناسبت سے کسی ایک جوڑے کو وکٹ پر کھڑا ہونا تھا، پارٹنر شپ بنانی تھی، اننگز کو قدم بقدم سنبھالنا تھا، سکور بورڈ کو متحرک رکھنا تھا، دوسرے ساتھی کو موقع دینا تھا، مگر جو کھلاڑی بھی آیا، یہ ٹھان کر آیا کہ بس میدان میں بھارتی بولرز کا بھرکس نکالنا ہے، جبکہ اس روش سے مواقع بھارتی بولرز کو ملے کہ وہ پاکستانی بلے بازوں کا با آسانی شکار کریں، جو بھارتی بولرز نے بخوبی کیا۔ غضب خدا کا، کلدیپ یادیو کا سترھواں اوور اور پاکستانی تین شاہین ڈھیر، پہلی گیند پر کپتان سلمان آغا، اگلی دو گیندوں پر شاہین آفریدی بچے مگر چوتھی گیند پر وکٹوں کے سامنے ٹانگوں پر گیند کھا کر باہر، اگلی دو گیندیں فہیم اشرف کے حصے آئیں مگر آخری گیند پر فہیم اشرف بھی لانگ آن پر اونچا مگر کمزور شاٹ کھیل کر کیچ دے بیٹھے اور باہر کا راستہ ناپا۔ کوئی بتانے والا نہیں، کوئی سمجھانے والا نہیں کہ ایک اوور میں دو کھلاڑی پویلین لوٹ چکے ہیں، تھوڑا صبر، موقع کی نزاکت کو سمجھئے، وکٹ پر کھڑے ہوں، کچھ وقت لیں اور پھر بڑی شاٹس کھیلیں مگر نہیں، ہر کھلاڑی کو جلدی اور بے صبری کہ آج ہی بلے کو مولا جٹ کے گنڈاسے کی مانند گھمانا ہے، نتیجہ خواہ کچھ بھی نکلے۔ حارث رئوف کا ایک تکا لگ گیا اور گیند وکٹ کیپر اور سلپ/شارٹ تھرڈ مین کے درمیان سے بائونڈری لائن کے باہر مگر اگلی گیند کی سمجھ ہی حارث رف کو نہیں آئی اور آف سٹمپ اکھڑ کر زمین پر قلابازی کھاتی نظر آئی ۔ کسی بھی کھلاڑی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ سنگل لے کر دوسرے اینڈ پر موجود نواز کو سٹرائیک دی جائے، جو اس ٹورنامنٹ میں اچھے کھیل کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ تاہم انیسویں اوور کی آخری دو گیندیں ابرار نے بخوبی سنبھال لیں مگر نواز آخری اوور کی پہلی گیند پر کیچ تھما بیٹھے اور پاکستان کی پوری اننگز 146پر یوں تمام ہوئی کہ بیس اوورز بھی پورے نہ کھیل پائے۔
بھارتی ٹیم کا آغاز بھی کچھ اچھا نہ تھا اور خطرناک ترین بلے باز جلد ہی پویلین واپس جا چکے تھے بالخصوص ابتدائی تین بلے باز، ابھیشیک شرما، سوریا کمار یادیو اوش شبھمن گل کے جلد آئوٹ ہونے سے پاکستان کی جیت کے امکانات روشن تھے۔ پاور پلے میں صرف 36رنز پر بھارت کے تین اہم کھلاڑی پویلین کو لوٹ چکے تھے اور اس سکور میں بھی، ایک اوور حارث رئوف کا شامل تھا، جس میں بھارتی سکور چار اوورز میں بیس رنز سے بڑھ کر غالبا تیس یا زیادہ ہو گیا، اس کے بعد پاکستانی سپنر ز نے کھیل کو اپنے قابو میں رکھا اور بھارتی بلے بازوں کو کھل کر کھیلنے نہیں دیا۔ یہاں بھارتی بلے بازوں تلک ورما اور سنجو سیمسن نے موقع کی مناسبت سے کھیلنا شروع کیا اور بلاوجہ جارحانہ بلے بازی سے گریز کرتے ہوئے انتہائی سکون و اطمینان و منجھے ہوئے بلے بازی کی، گو کہ مطلوبہ رن ریٹ بڑھ رہا تھا مگر ان کے چہرے پر مکمل سکون و اطمینان تھا۔ اس دوران سنجو سیمسن کا ایک انتہائی آسان کیچ حسین طلعت نے گرا دیا تاہم اس کا نقصان پاکستان کو اس لئے زیادہ نہیں ہوا کہ بہرطور سنجو بہت دیر تک کریز پر نہیں ٹک سکے اور اپنے انفرادی سکور کو ڈبل ہی کر پائے اور آئوٹ ہو گئے۔ دوسری طرف تلک ورما کی بلے بازی تواتر کے ساتھ جاری تھی اور کسی بھی لوز گیند پر وہ اپنے سٹروک پلے کا بھرپور مظاہرہ کر رہا تھا، جیسے اسے کسی قسم کی کوئی جلدی ہی نہ ہو یا اس کو اپنے شکار کا بخوبی علم ہو کہ اسے کس پاکستانی گیند باز کو شکار کرنا ہے۔ پندرھویں اوور تک، میچ کا پانسہ برابر نظر آ رہا تھا اور امید تھی کہ اگر پاکستانی بولرز ایسی ہی گیند بازی کرتے رہے تو ممکنہ طور پر پاکستان میچ جیت جائے گا لیکن افسوس کہ کپتانی کا انتہائی کمزور مظاہرہ سلمان آغا کی طرف سے دیکھنے کو ملا۔ ایک ایسے وقت میں جب ابرار نپی تلی گیند بازی کر رہا تھا، غیر ضروری طریقے سے اس کا اینڈ تبدیل کیا گیا اور اس سے قبل حارث رئوف کو دیئے گئے اوورز میں سترہ رنز نے بلے بازوں کے اعتماد کو یکدم آسمان تک پہنچا دیا، ابرار کو آخری اوور میں چھکا بھی لگا۔ دوسری طرف صائم ایوب کا ایک اوور باقی تھا اور صائم نے تین اوورز میں صرف سولہ رنز دئیے تھے، اسے گیند بازی سے ہٹا دیا گیا جبکہ محمد نواز نے صرف ایک اوور کیا تھا اور چھ رنز دیئے تھے، نواز سے دوسرا اوور تک نہیں کروایا گیا، کیا کپتانی ہے، اس پر داد و تحسین ہی بنتی ہے، لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ کرکٹ سے تھوڑی سی سمجھ بوجھ رکھنے والا بھی ایسے موقع پر کسی صورت سپنرز کو ہٹانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا لیکن کپتان سلمان علی آغا نے نہ صرف یہ کر دکھایا بلکہ میچ بھی گنوا دیا۔ حارث رئوف کی گیند بازی کے متعلق کیا کہا جائے کہ لائن، لینتھ کے حوالے سے اتنی حواس باختگی کا مظاہرہ پاکستانی کرکٹ تاریخ میں کم ہی ہوا ہو گا کہ پاکستان کرکٹ نے تو ایسے نابغہ روزگار گیند باز دنیائے کرکٹ کو دیئے کہ جنہوں نے آخری اوورز میں دنیا کی بہترین ٹیموں کو تین سے چھ رنز تک نہیں کرنے دیئے اور آج حالت یہ ہے کہ ایک سفارشی کھلاڑی تین اوورز میں پچاس رنز کھانے کے باوجود ٹیم کا مستقل حصہ ہے، طرہ یہ کہ جواز بنایا جاتا ہے کہ وہ ٹی ٹونٹی کا بہترین کھلاڑی ہے، تف ہے ایسے جواز اور کھلاڑی پر، جو جیتا ہوا میچ طشتری میں رکھ کر مخالف ٹیم کو پیش کر دیتا ہے۔ لاہور قلندرز کے کوچ عاقب جاوید کا منظور نظر، ہیرا اور شنید ہے کہ سیالکوٹ سے بارہا فارم 47کے منتخب یا مسلط شدہ خواجہ آصف کی تگڑی سفارش اس ہیرو کو زیرو ہونے نہیں دیتی، خواہ کرکٹ کا جنازہ نکل جائے۔ عاقب جاوید کی ہٹ دھرمی و ضد و انا کے علاوہ بورڈ کے ارباب اختیار کی بے تکی رٹ کہ انہوں نے جدید کرکٹ، جارحانہ کرکٹ کے کھلاڑیوں کو منتخب کیا تھا، جن کا سٹرائیک ریٹ بابر اعظم اور رضوان سے بہتر ہے ( کہنے میں میں کیا حرج ہے)، البتہ کرکٹ کی سمجھ بوجھ کسی بھی صورت بابر اور رضوان سے زیادہ نہیں، فائنل میں عبرتناک شکست کا قصوروار اب بھی بابر اعظم کو ہی ٹھہرائیں گے کیا؟۔





