کالم: صورتحال

کالم: صورتحال
نیو نو مئی
تحریر: سیدہ عنبرین
دو نسلوں کی زندگی شمع پروانہ کی کہانیاں پڑھتے گزر گئی، ان کہانیوں میں بتایا جاتا تھا، شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک، دوسری بات جو سب کو ازبر ہو گئی وہ یہ تھی کہ شمع کے جلتے ہی پروانے اس کے گرد جمع ہو جاتے ہیں، کچھ اسے حاصل کرنے کیلئے آتش نمرود میں کود پڑتے ہیں اور جل کر راکھ ہو جاتے۔ مشاہدے میں آگیا تمام پروانے از حد بیوقوف نہیں ہوتے، کچھ جل مرتے ہیں، کچھ عقل مند پروانے اس کا طوائف کرتے ہوئے ابتدائی چکروں میں جان لیتے ہیں شمع کا حصول ممکن نہیں، پس وہ اپنا ارادہ تبدیل کر کے کسی اور طرف کا رخ کر جاتے ہیں۔ عین ممکن ہے وہ کسی اور شمع کی تلاش میں کہیں اور منہ کر جاتے ہوں، ان کی حتمی منزل کا کسی کو علم نہیں ہوتا، بجلی کا دور آیا تو شمع کا دور ختم ہو گیا، گھر گھر شمع روشن ہونا ختم ہو گئی، لیکن ایک مختلف قسم کی شمع کسی اور جگہ روشن ہونا شروع ہو گئی۔ اس شمع کے گرد شام ڈھلے پروانے جمع ہونا شروع ہو جاتے، یہ بغیر پروں کے پروانے ہوتے تھے، ان کی جیبیں سکوں سے بھری ہوتی تھیں۔ خالی جیب پروانے شمع کی سیڑھی چڑھنے کا سوچ بھی نہ سکتے تھے، شمع تمام رات جلتی رہتی، وہ گاتی اور محو رقص رہتی، پروانے اپنی جیبیں خالی کرتے رہتے، جس کی جیب خالی ہو جاتی وہ بالا خانے کی سیڑھیوں سے ڈولتے ڈگمگاتے نیچے آجاتا، بھری جیبوں والے بیٹھے رہتے، اذان فجر کی آواز بلند ہوتے ہی سارا ڈھول ڈھمکا ختم ہو جاتا، یوں مکمل خرچ ہو جانے والے پروانے اپنے گھروں کی راہ لیتے، امیر و کبیر پروانے تن تنہا شمع کو جلتے دیکھتے، اس کی حرارت سے لطف اٹھاتے، جو دل کے ہاتھوں مجبور ہو جاتا وہ شمع سے دو بول پڑھوا کر اسے ہمیشہ کیلئے اپنا لیتا، یوں کچھ کی زندگیوں میں قرار آجاتا، کچھ ہمیشہ کیلئے بربادیوں کی طرف سفر شروع کر دیتے، شمع پروانہ کے نام پر اس موضوع پر متعدد فلمیں بھی بنائی گئیں۔ پاکستان میں یہ موضوع ایک سے زائد مرتبہ فلمایا گیا، ایک فلم میں اداکار ندیم اور شبنم اسی موضوع پر بننے والی فلم کے مرکزی کردار تھے، پروانہ، شمع کے حصول کیلئے عرصہ دراز تک جدوجہد کرتا رہتا ہے، اختتام سے ذرا پہلے شمع تمام رکاوٹیں توڑتے ہوئے پروانے کو پکارتے پکارتے اس کے دروازے پر پہنچ جاتی ہے، دونوں بارش میں بھیگنے کے بعد ایک زبردست جھپی ڈالتے ہیں، اس زمانے میں ہیروئن کا بھیگا بدن لون کی قمیض سے صاف نظر آرہا ہوتا تھا، بھیگے بدن کی یہ جھپی فلم کی کامیابی کی ضمانت ہوا کرتی تھی۔ سو یہ فلم بھی کامیاب رہی۔ چند روز قبل اقوام متحدہ کے اجلاس سے پہلے ایک سیاسی فلم ریلیز ہوئی ہے، اس میں ایک شمع اور کئی پروانے قابل ذکر ہیں۔ فلم کے منظر میں نظر آیا کہ پاکستان کے وزیر دفاع اہم اجلاس میں شریک ہیں۔ شمع ان کی عقبی نشست پر بیٹھی ہیں اور پورے انہماک سے اجلاس کی کارروائی سن رہی ہیں۔ شمع کا یوں وہاں بیٹھنا تو کچھ معیوب نہ تھا، شمع کا لباس معقول تھا، وہ بھیگی ہوئی بھی نہ تھی، لیکن وہ کس حیثیت میں وہاں موجود تھی، وہ کیسے وہاں پہنچی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کی پہنچان ایک اسرائیل نواز شخصیت کی ہے۔ اگر معاملہ صرف نواز کا ہوتا تو شاید لوگ ادھر ادھر باتیں کر کے خاموش ہو جاتے، لیکن اسرائیل نواز ہونا اور پاکستانی وفد کے ایک رکن کی حیثیت سے اہم ترین اجلاس میں شریک ہونا، خالی از علت نہ سمجھا گیا، شمع کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ غیر ملکی شہرت رکھتی ہیں اور عرصہ دراز سے اس بات کا پرچار کر رہی ہیں کہ پاکستان کو چاہئے کہ اسرائیل کو تسلیم کر لے، گو پاکستان اس راہ پر چلتا نظر آتا ہے اور وزیراعظم پاکستان اور امریکی صدر کی ایک ملاقات کے بعد صدر امریکہ کی طرف سے بیان آ گیا کہ پاکستانی وزیراعظم ان کے منصوبے سے اتفاق کرتے ہیں، لہٰذا پاکستانی وفد میں شمع کی شرکت حادثاتی قرار نہیں دی جا سکتی، انہیں یقیناً ایک منصوبے کے تحت اس وفد میں شامل کیا گیا، پاکستان کے وزیر دفاع سے اس حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے صاف جواب دیتے ہوئے کہا میں تو اس خاتون کو جانتا تک نہیں، وزارت خارجہ سے پوچھیں، یہ بات اپنی جگہ درست اور اہمیت کی حامل ہے کہ وفد میں شامل شخصیت کا حتمی انتخاب وزارت خارجہ کرتی ہے، لیکن وزارت خارجہ نے ابتدا میں انکار کرتے ہوئے اس بات کی ذمہ داری قبول نہ کی کہ انہوں نے اس خاتون کا نام حتمی فہرست میں شامل کیا ہے، تاہم وزیراعظم جب چاہیں کسی بھی شخص کو ایسے وفد میں شامل کر سکتے ہیں یا فہرست سے نکال سکتے ہیں، عین ممکن ہے شمع کا نام آخری لمحوں میں شامل کیا گیا ہو۔ وزیراعظم شہباز شریف کے بارے میں عام تاثر ہے اور کافی حد تک درست ہے کہ وہ ’’ بائی دی بک‘‘ چلتے ہیں اور اس قسم کے ہنگامی فیصلے نہیں کرتے لہٰذا اس امر کی گنجائش موجود ہے کہ یہ نام کسی اور طرف سے بھجوایا گیا ہو۔ شمع کا کہنا ہے کہ وہ وزیراعظم کی تقریر لکھنے پر مامور کی گئی ہیں، تو عرض ہے وزیراعظم کی اس قدر اہم اجلاس میں شرکت کے حوالے سے تقریر کوئی ایرا غیرا نہیں لکھتا، بلکہ ماہرین وزارت خارجہ لکھتے ہیں، ایک ایک لفظ پر غور و فکر ہوتا ہے، مختلف اہم شخصیات اس تقریر کو پڑھتی ہیں، یوں اس کی منظوری دی جاتی ہے۔ شمع جتنی بھی قابل ہوں، وہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں کی جانے والی وزیراعظم پاکستان کی تقریر تن تنہا نہیں لکھ سکتیں، وہ کہتی ہیں انہوں نے وزیراعظم پاکستان کے طیارے میں سفر کیا، انہوں نے وزیردفاع کے ساتھ ایک کار میں سفر کیا، یہ درست ہو سکتا ہے، لیکن اصل معاملہ وہیں کا وہیں ہے انہیں اس اجلاس میں شرکت کا اذن کس نے دیا، یہ بات خارج از امکان ہے کہ کوئی شخص منہ اٹھائی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں گھس آئے اور چار سطح کی سکیورٹی میں اسے کوئی بھی نہ روکے۔
امریکہ میں پاکستان کے سفیر ایسے اہم اجلاسوں میں شرکت کرنے والی شخصیات کے قیام و طعام، آمدورفت کے معاملات کو دیکھتے ہیں، جو کچھ ہوا ان کی نظر میں تھا وہ اس حوالے سے خاموش رہی ہیں تو اس کا مطلب ہے انہیں معلوم تھا کہ یہ بھرتی کس کے ایما پر ہوئی ہے۔ وزیراعظم کی تقاریر لکھنے والے اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں شرکت نہیں کیا کرتے، اس اعتبار سے شمع کی اس اجلاس میں شرکت کے معاملے پر ملک بھر میں گھنٹیاں بج اٹھی ہیں، سوال در سوال کا ایک سلسلہ جاری ہے، لیکن کسی سرکاری دفتر سے اس معاملے پر کوئی تسلی بخش جواب اب تک آیا ہے نہ آئندہ آنے کی توقع ہے۔ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ شمع راولپنڈی کے کوٹے سے اس اجلاس میں شریک نہیں ہوئیں جو بھی کیا دھرا ہے وہ اسلام آباد کا ہے، جبکہ اسلام آباد اپنے آپ کو فقط راولپنڈی کے سامنے جواب دہ سمجھتا ہے اور راولپنڈی کے نزدیک یہ معاملہ کچھ اہم نہیں ہے پس وہ خاموش ہے۔ شمع کو نوازا گیا ہے، کہانی بس اتنی ہے، لیکن درحقیقت یہ ’’ نیو نو مئی ہے‘‘، جنہیں ایکشن لینا چاہئے وہ خاموش ہیں، لہٰذا آپ سب بھی خاموش ہوجائیں۔





