ColumnQadir Khan

ٹرمپ کے غزہ منصوبے کا تجزیہ: زمینی حقائق اور سیاسی پیچیدگیاں ( حصہ اول )

ٹرمپ کے غزہ منصوبے کا تجزیہ: زمینی حقائق اور سیاسی پیچیدگیاں ( حصہ اول )
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
ٹرمپ کا غزہ امن منصوبہ ایسا ہے جو بادی النظر دیکھنے میں امید افزا لگتا ہے، لیکن جب آپ اس کی تہہ میں جھانکتے ہیں تو یہ ایک ایسا جال نظر آتا ہے جو تاریخی تضادات، سیاسی دائو پیچ اور انسانی المیوں سے بھرا پڑا ہے۔ یہ منصوبہ، جو 20 نکاتی ہے، بنیادی طور پ رفلسطینی تنظیم حماس سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنی مسلح مزاحمت کو ترک کر دے، یرغمالیوں کو رہا کرے اور غزہ کو ایک غیر مسلح علاقہ بنا دے، جبکہ بدلے میں تعمیر نو، معاشی ترقی اور ممکنہ طور پر فلسطینی ریاست کی طرف راہ ہموار کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے، بظاہر یہ وعدے خوشنما لگتے ہیں لیکن تاریخی حقائق اسرائیلی و امریکی ’’ وعدوں‘‘ کی حقیقت کو بخوبی جانتے ہیں، اس لئے یہ وعدے ایسے ہیں جو کاغذ پر تو اچھے لگتے ہیں، مگر زمینی حقائق میں ان کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ حقائق یہی ہیں کہ اس میں کسی بھی ضمانت پر یقین نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسرائیل کی جانب سے ابھی بھی غزہ پر بمباریاں جاری ہیں۔ سیز فائز کی کوئی شق و معیاد موجود نہیں ۔ غزہ کی جنگ، جو اکتوبر 2023ء سے جاری ہے، نے پہلے ہی لاکھوں لوگوں کی زندگیاں تباہ کر دی ہیں، اور اب یہ پلان ایسا ہے جو ایک طرف سے امن کا دعویٰ کرتا ہے جبکہ دوسری طرف سے طاقت کے عدم توازن کی بنا پر خطے کو مزید عدم استحکام کی جانب گامزن کر رہا ہے۔ معاہدہ حماس مائنس پر مبنی ہے جو اسرائیل کو مظلوم بنا رہا ہے۔
غزہ کی موجودہ صورتحال کو دیکھیں تو یہ ایک چھوٹا سا علاقہ ہے، صرف 365مربع کلومیٹر، جہاں تقریباً 21لاکھ لوگ رہتے ہیں۔ فلسطینی مرکزی بیورو آف سٹیٹسٹکس کے مطابق، جنگ شروع ہونے سے پہلے یہ آبادی 22لاکھ 60ہزار تھی، لیکن اب یہ کم ہو کر 21لاکھ 14ہزار رہ گئی ہے۔ اس کمی کی بنیادی وجوہ 57ہزار سے زیادہ اموات، ایک لاکھ سے زائد لوگوں کا ہجرت کر جانا اور پیدائشی شرح میں کمی شامل ہے۔ یہ اعداد صرف اعداد نہیں، یہ انسانی کہانیاں ہیں۔ غزہ میں 47فیصد آبادی 18سال سے کم عمر کی ہے، یعنی ایک ایسی نسل جو جنگ کے سائے میں بڑھ رہی ہے، جو مستقبل میں امن کی بجائے انتقام کی سوچ رکھ سکتی ہے۔ یہ نوجوان، جو سکولوں کی بجائے ملبے میں کھیل رہے ہیں، ان کے لیے ٹرمپ کا پلان کیا پیش کرتا ہے؟ ایک ممکنہ معاشی ترقی، لیکن اس ترقی کی بنیاد کیا ہوگی جب تک سیاسی آزادی نہ ہو؟ حماس کی ساخت کو سمجھے بغیر اس پلان کی کامیابی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
حماس ایک ایسی تنظیم ہے جو 1987ء میں بنی اور اس کی بنیاد عسکری مزاحمت پر رکھی گئی۔ اس کی چار اہم شاخیں ہیں، سماجی خدمات، جو سکول، ہسپتال اور فلاحی کام کرتی ہیں، عسکری شاخ القسام بریگیڈز، جو لڑائی کا کام دیکھتی ہے، سیکورٹی سروس، جو داخلی امن برقرار رکھتی ہے اور میڈیا برانچ، جو پروپیگنڈا اور رابطے کا ذمہ دار ہے۔ قیادت کا ڈھانچہ شوریٰ کونسل پر مبنی ہے، جو 15رکنی سیاسی بیورو کو منتخب کرتی ہے۔ یہ قیادت غزہ، مغربی کنارے، جیلوں میں قید فلسطینیوں اور بیرونی ملکوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ یحییٰ سنوار کی ہلاکت کے بعد ایک پانچ رکنی عبوری کونسل بنی ہے، جس میں خالد مشعل، خلیل الحیہ، ظاہر جبارین، محمد اسماعیل درویش اور ایک نامعلوم رکن شامل ہیں۔ یہ تنظیمی ڈھانچہ ایسا ہے جو صرف مسلح مزاحمت پر نہیں، بلکہ سماجی اور سیاسی سطح پر بھی کام کرتا ہے۔ ٹرمپ کا پلان حماس سے کہتا ہے کہ وہ اپنے ہتھیار چھوڑ دے اور جو چاہے غزہ چھوڑ کر چلا جائے، مگر یہ اتنا آسان نہیں، یکدم حماس کا غیر مسلح ہو جانا ممکن نظر نہیں آتا۔
حماس کے لیے غیر مسلح ہونا اپنی وجودیت کو ختم کرنے کے مترادف ہے، کیونکہ اس کی مقبولیت کا راز ہی اسرائیل کے خلاف مزاحمت ہی۔ القسام بریگیڈز کی عسکری طاقت کو دیکھیں تو اسرائیلی ذرائع کا اندازہ ہے کہ حماس کے پاس اب بھی تقریباً 40ہزار جنگجو ہیں۔ یہ تعداد جنگ شروع ہونے سے پہلے کی طرح ہے، جو یہ بتاتی ہے کہ حماس نے جنگ کے دوران نئے لوگوں کو بھرتی کیا ہے۔ البتہ یہ نئے جنگجو اتنے تربیت یافتہ نہیں جتنے پرانے تھے۔ حماس کی اصل طاقت اس کے زیر زمین سرنگوں کے نیٹ ورک میں ہے، جو 350سے 450میل لمبا ہے۔ یہ سرنگیں غزہ میٹرو کے نام سے مشہور ہیں، جن میں بجلی، ہوا کا نظام، رابطے کے آلات اور اسلحہ کا ذخیرہ موجود ہے۔ یہ نیٹ ورک محض چھپنے کا ذریعہ نہیں، بلکہ ایک مکمل فوجی انفراسٹرکچر ہے۔ ٹرمپ کا پلان ان سرنگوں کو تباہ کرنے اور غزہ کو ڈیمیلٹریائز کرنے کا مطالبہ کرتا ہے، مگر یہ عمل کیسے ممکن ہوگا جب تک حماس رضامند نہ ہو؟ اور اگر حماس رضامند نہ ہو تو پلان کا پوائنٹ 17کہتا ہے کہ امن والے علاقوں میں امداد اور تعمیر نو جاری رہے گی، جو عملاً غزہ کو تقسیم کرنے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
تعمیر نو کا معاملہ بھی اتنا ہی پیچیدہ ہے۔ مختلف تخمینوں کے مطابق، غزہ کی تعمیر نو میں 53سے 100ارب ڈالر لگیں گے۔ عرب ممالک نے ایک متبادل پلان پیش کیا ، جو تین مراحل پر مشتمل ہے۔ پہلا مرحلہ چھ ماہ کا، جس میں 3ارب ڈالر خرچ کر کے ملبہ صاف کیا جائے گا، عارضی رہائش بنائی جائے گی اور بنیادی خدمات بحال ہوں گی۔ دوسرا مرحلہ ڈھائی سال کا، 20ارب ڈالر کے ساتھ مستقل مکانات، انفراسٹرکچر اور پانی کی سپلائی۔ تیسرا مرحلہ بھی ڈھائی سال کا، 30ارب ڈالر کے ساتھ صنعتی زونز، بندرگاہ، ہوائی اڈہ اور سیاحتی سہولیات۔ ٹرمپ کا پلان بھی معاشی ترقی کی بات کرتا ہے، جس میں ایک خاص اقتصادی زون بنانا، سرمایہ کاری کو اپنی طرف متوجہ کرنا اور نوکریاں پیدا کرنا شامل ہے۔ مگر یہ سب کچھ ایک ’’ بورڈ آف پیس‘‘ کے تحت ہوگا، جس کی سربراہی ٹرمپ اور ٹونی بلیئر کریں گے، اور ابتدائی طور پر ایک ٹیکنوکریٹک فلسطینی کمیٹی غزہ کا انتظام سنبھالے گی۔ یہ انتظام فلسطینی اتھارٹی کو اس وقت تک دور رکھے گا جب تک وہ اصلاحات مکمل نہ کر لے۔
2014ء کی غزہ جنگ کے بعد قاہرہ میں ایک کانفرنس ہوئی تھی، جہاں 5.4ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا گیا تھا۔ مگر شرطیں یہ تھیں کہ فلسطینی اتھارٹی غزہ کا کنٹرول لے، سرحدیں کھولی جائیں اور اسرائیل کے ساتھ تعاون ہو۔ دس سال گزرنے کے باوجود غزہ کی مکمل تعمیر نو نہیں ہو سکی، کیونکہ یہ شرطیں پوری نہ ہوئیں۔ یہ مثال بتاتی ہے کہ تعمیر نو محض پیسے کا مسئلہ نہیں، بلکہ سیاسی رضامندی اور استحکام کا معاملہ ہے۔ ٹرمپ پلان بھی ایسی ہی شرطوں سے بھرا ہے، جیسے حماس کا مکمل خاتمہ اور غزہ کا غیر مسلح ہونا۔ اگر یہ شرطیں پوری نہ ہوئیں تو امداد رک جائے گی، جو غزہ کی آبادی کے لیے مزید مصیبت کا باعث بنے گی۔

جواب دیں

Back to top button