Column

پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کا لائبریرین شپ کے فروغ میں کردار ( حصہ چہارم)

پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کا لائبریرین شپ کے فروغ میں کردار ( حصہ چہارم)
تحریر: شیر افضل ملک
پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن (PLA)نہ صرف ملک کی لائبریری برادری کی نمائندہ تنظیم رہی ہے بلکہ یہ ادارہ لائبریری سائنس کے فروغ، علم و تحقیق کی ترویج، اور کتب خانوں کے تحفظ و ترقی کے حوالے سے ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ اس تنظیم نے اپنے قیام سے لے کر اب تک مختلف النوع اقدامات، سیمینارز، کانفرنسز، تحقیقی و اصلاحی نشستوں، اور قومی و بین الاقوامی اداروں سے تعاون کے ذریعے جو علمی اور عملی خدمات انجام دی ہیں، وہ قابلِ تحسین بھی ہیں اور قابلِ تحقیق بھی۔ یہاں مطبوعات کا تسلسل اور تاریخی پس منظر بیان کرنے کی کوشش کررہا ہوں،
پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کی مطبوعاتی تاریخ نہایت وقیع اور متنوع رہی ہے۔ ایسوسی ایشن نے خبرناموں اور جرائد کے علاوہ متعدد اہم کتب، ڈائریکٹریاں، رودادیں، اور تحقیقی رپورٹس شائع کیں جو آج بھی اس پیشے کے تحقیقی سرمایے کی حیثیت رکھتی ہیں۔
1978ء میں PLAکی سندھ برانچ نے "Problems of Libraries and Librarians in Sindh” کے عنوان سے ایک سیمینار منعقد کیا، جس کی روداد کو کتابی صورت میں محفوظ کیا گیا۔ 1988ء میں فیڈرل برانچ کونسل نے بشیر چوہان اور محمد جاوید کی مرتب کردہ لائبریری ڈائریکٹری شائع کی۔ اس سے قبل 1981ء میں سید ارشاد علی نے بھی ایک ڈائریکٹری مرتب کی، جب کہ 1985ء میں بلوچستان ہیڈکوارٹر کے زیرِ اہتمام "Who’s Who” شائع ہوئی۔ 1990ء میں اراکین کی ڈائریکٹری اور 1996ء میں اسلام آباد ہیڈکوارٹر نے حکومتِ پاکستان کے شعبہ لائبریریز کے تعاون سے ایک جامع ڈائریکٹری شائع کی، جو پاکستانی لائبریریوں کا احاطہ کرتی تھی۔ایسوسی ایشن کے تحت شائع ہونے والی مختصر مطبوعات بھی بے حد اہمیت کی حامل رہیں، جن میں لائبریرینز کے لیے ضابطہ اخلاق، انٹرمیڈیٹ لائبریری سائنس کا نصاب، کالج اور خصوصی کتب خانوں کے معیارات، اور ایسوسی ایشن کا ترمیم شدہ دستور شامل ہیں۔ 1989ء میں کراچی مرکز کے زیرِ انتظام منعقد ہونے والے سیمینار کی روداد بعنوان "لائبریری خدمات میں معیارات” شائع کی گئی، جب کہ اسی برس "لائبریریز و اطلاعاتی مراکز کے کردار” کے حوالے سے توسیعی لیکچر بھی منعقد ہوا، جس کی ترتیب صادق علی خان نے دی۔
1989ء میں پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن نے ملک میں لائبریری تحریک کے فروغ کے لیے "لائبریری ویک” کا انعقاد کیا۔ اس ہفتے کے دوران نہ صرف افتتاحی سیشن منعقد ہوا بلکہ دانشوروں، مصنفین، صحافیوں، سائنس دانوں، طلبہ، ماہرین قانون (Bench and Bar)اور مختلف طبقات کے نمائندوں کے اجلاس منعقد کیے گئے۔ اس ویک کی روداد سندھ برانچ کونسل نے مرتب کی۔
اس سے قبل 1966ء میں بھی نیشنل لائبریری ویک 27اکتوبر سے 2نومبر کے دوران لاہور ہیڈکوارٹر کے زیرِ اہتمام منایا گیا، جو اس وقت (1966ء تا 1969ئ) ایسوسی ایشن کا مرکز تھا۔ اسی طرح ڈاکٹر محمود حسین مرحوم کی یاد میں ایک مجلسِ مذاکرہ کا انعقاد کیا گیا جس کی روداد ’ خورشید نشاں‘ نے شائع کی۔ 1976ء میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری سائنس، پی ایل اے پنجاب، اور پنجاب کالج لائبریریز ایسوسی ایشن کے اشتراک سے ایک مجلسِ مذاکرہ "کالج لائبریریز کے مسائل” پر منعقد ہوئی جس کی روداد ڈاکٹر ممتاز انور نے مرتب کی اور اسے جامعہ پنجاب کے شعبہ لائبریری سائنس نے شائع کیا۔ علاوہ ازیں، کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹر محمود حسین کی صدارتی تقاریر اور نظریات پر مبنی کتاب 1974ء میں شائع کی، جو آج بھی اس شعبے میں علمی سرمایہ شمار ہوتی ہے۔ یہاں قومی و بین الاقوامی سطح پر خدمات کا جائزہ پیش خدمت ہے ،
پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن نہ صرف ایک قومی ادارہ ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اس نے پاکستان کی مثر نمائندگی کی ہے۔ یونیسکو، اِفلا، اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں سے مسلسل رابطہ اور تعاون اس کا بین ثبوت ہے۔ نیدرلینڈز حکومت کے تعاون سے پاکستان میں کتب خانوں کی ترقی کے لیے "نیدرلینڈ لائبریری ڈیولپمنٹ پروگرام” کے نفاذ کی ذمہ داری بھی پی ایل اے کو سونپی گئی، جو کامیابی سے مکمل ہوئی۔
ایسوسی ایشن نے ملک میں لائبریری سائنس کے مختصر مدتی کورسز کے انعقاد، لائبریری آٹومیشن کی بنیاد، اور دیگر کئی انقلابی اقدامات کے ذریعے پیشے کی ارتقائی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان میں کاپی رائٹ ایکٹ کے نفاذ سے لے کر نیشنل ببلیوگرافک یونٹ، قومی لائبریری، لائبریری اسکولوں کی سفارش، کابینہ کمیٹی و ٹیکنیکل ورکنگ گروپ کی تشکیل، پنجاب ڈائریکٹریٹ آف پبلک لائبریریز و لائبریری فائونڈیشن، قومی نصاب کمیٹی، پاکستانی ناموں کے کیٹلاگ کے اصول، پیرس کانفرنس میں ان کی منظوری، لائبریری ویک کا انعقاد، اور لائبریرینز کے لیے اساتذہ کے مساوی تنخواہوں کا حصول شامل ہیں۔
ایسوسی ایشن نے مختلف لائبریری انجمنوں سے اشتراکِ عمل، عالمی اداروں سے تعاون، لائبریری آٹومیشن کے قیام، کتب خانوں کی جدید تعمیر، فنی مہارت کی فراہمی، اور عوامی سطح پر لائبریری شعور اجاگر کرنے میں جو کاوشیں کیں، وہ اس کے عملی و نظریاتی عزم کا مظہر ہیں۔تنقیدی جائزہ اور ساختیاتی کمزوریاں بتانا بھی ضروری ہیں ، تاہم، ان تمام علمی، پیشہ ورانہ اور تنظیمی خدمات کے باوجود اگر پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کی 48سالہ تاریخ کا تنقیدی اور تحقیقی تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ایسوسی ایشن اپنے تمام اہداف کو مکمل طور پر حاصل نہیں کر سکی۔ بیشتر اقدامات وقتی نوعیت کے تھے اور کوئی بھی طویل مدتی اور مستقل ترقیاتی پالیسی مکمل شکل میں سامنے نہ آ سکی۔ سب سے بنیادی اور افسوسناک پہلو ایسوسی ایشن کا مستقل ہیڈکوارٹر یا سیکریٹریٹ کا نہ ہونا ہے۔ اس خامی کے باعث ایسوسی ایشن مختلف ادوار میں مختلف شہروں میں منتقل ہوتی رہی۔ منتخب سیکریٹری کا شہر ہی دراصل اس کا مرکز بن جاتا، اور یوں تنظیم کی فعالیت انفرادی کوششوں پر منحصر ہو جاتی۔ بعد ازاں اسے ملک کے پانچ شہروں تک وسعت دی گئی، مگر یہ تجربہ بھی خاطر خواہ نتائج نہ دے سکا۔ بعض اوقات ایسوسی ایشن کئی برسوں تک غیر فعال رہی۔ حالیہ مرکز 1997ء میں پشاور منتقل ہوا، مگر آئین کے مطابق ہر تین سال بعد انتخابات اور کانفرنسز کا انعقاد نہ ہو سکا، یہاں تک کہ آٹھ برس تک آئینی تقاضے بھی پورے نہ کیے گئے۔ اس سست روی اور غیر فعالیت نے ایسوسی ایشن کی کارکردگی کو متاثر کیا۔ اس کا ریکارڈ مختلف شہروں اور افراد میں منتشر ہو گیا۔ اگر کوئی محقق اس کی مکمل کارگزاری پر تحقیقی کام کرنا چاہے، تو اسے متعدد شہروں کا سفر کرنا پڑے گا۔ اس کے باوجود بھی یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ تمام ریکارڈ تک رسائی حاصل کر سکے گا، کیونکہ یہ مواد کسی مرکزی دفتر یا لائبریری میں محفوظ نہیں بلکہ ماضی کے سیکریٹری صاحبان کے گھروں میں، غیر دستاویزی حالت میں، محفوظ ہو سکتا ہے۔ تاہم اب یہ کوشش جاری ہے کہ پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کا مستقل صدر مقام دارالحکومت اسلام آباد میں قائم کیا جائے تاکہ تنظیم کو ایک مستقل، منظم، اور باوقار مرکز میسر آ سکے اور یہ ادارہ ایک نئے عزم، منظم ڈھانچے، اور قومی ویژن کے ساتھ آئندہ نسلوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہو۔

جواب دیں

Back to top button