Column

سیلاب کی کہانیاں اور الخدمت کا سفر

سیلاب کی کہانیاں اور الخدمت کا سفر
احمد نبیل نیل
کبھی سوچا ہے کہ برسوں کی محنت ایک لمحے میں پانی بہہ لے جائے تو انسان پر کیا گزرتی ہے؟ یہ سوال مجھے ہر بار جھنجھوڑ دیتا ہے، خاص طور پر جب سے مجھے سیلاب متاثرہ علاقوں میں جانے کا موقع ملا ہے۔ وہاں جا کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ سانحہ اتنا بڑا ہے کہ نہ الفاظ میں بیان ہو سکتا ہے، نہ اتنی آسانی سے ختم۔
لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔ نہ سر پر چھت ہے، نہ کھانے کو کچھ، نہ پہننے کو کپڑا۔ اچھے خاصے کھاتے پیتے لوگ بھی ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ہر سفر، ہر دورہ دل کا بوجھ بڑھا دیتا ہے، کیونکہ ہر بار نئی اور تکلیف دہ کہانیاں سننے کو ملتی ہیں جو روح کو چھلنی کر دیتی ہیں۔
ہم شہر میں رہنے والوں کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ یہ کتنی بڑی قیامت ہے اور اس کے اثرات کہاں تک جائیں گے۔ ہم میں سے اکثر لوگوں کو صرف تب ہی سیلاب کا پتا چلا جب راوی میں پانی آیا، اور اس کے بعد ہمیں لگا کہ سیلاب ختم ہو گیا ہے۔ مگر جب آپ جنوبی پنجاب کے علاقوں میں جاتے ہیں، بالخصوص جلالپور پیروالا اور علی پور، تو وہاں ایسی قیامت ٹوٹی ہے کہ بیان کرنا مشکل ہے۔ 70فیصد علاقہ ابھی بھی زیرِ آب ہے اور لاکھوں لوگ اپنے خاندان کے ساتھ خیمہ بستیوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
لیکن انہی تاریکیوں میں ایک روشنی بھی ہے، پاکستان کے وہ درد دل رکھنے والے افراد اور ادارے، جو اپنے بہن بھائیوں کو مشکل میں اکیلا نہیں چھوڑتے۔ مجھے فخر ہے کہ میں پاکستان کے سب سے بڑے فلاحی ادارے، الخدمت فائونڈیشن کا حصہ ہوں جس کا نیٹ ورک پاکستان کے ہر صوبے، ہر شہر اور حتیٰ کہ قصبے تک پھیلا ہوا ہے۔ جہاں جہاں لوگ متاثر ہوئے، الخدمت کے رضاکار ان کی خدمت کے لیے پہنچے۔
مجھے بذاتِ خود فیلڈ میں جا کر تمام ریلیف آپریشن دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ میرے لیے اطمینان کا باعث تھا کہ اس ملک میں ایسے لوگ موجود ہیں جو دوسروں کے لیے جیتے ہیں۔ فیلڈ میں الخدمت کے رضاکاروں اور ذمہ داران کو جس لگن اور محنت سے متاثرین کی خدمت کرتے اور دعائیں سمیٹتے دیکھا، دل کو بے حد سکون ملا۔
اگر الخدمت فائونڈیشن کی خدمات کی بات کی جائے تو وہ بے شمار ہیں: ریسکیو بوٹس کے ذریعے متاثرین کا انخلا، کھانے پینے کی اشیا اور ادویات کی فراہمی، خیمہ بستیوں کا قیام، موبائل ہیلتھ یونٹس ( منی ہسپتال جن میں ڈاکٹر روم، لیبارٹری، فارمیسی اور الٹراسائونڈ روم تک کی سہولت موجود ہے)، خیمہ بستیوں میں بچوں کے لیے اسکول، لائبریریاں اور جھولے۔ ہر خیمہ بستی میں جا کر یوں لگتا ہے جیسے ایک ’ نئی دنیا آباد ہو گئی ہو‘ زندگی کا احساس جاگ اٹھتا ہے۔
ان دنوں کئی کہانیاں سننے کو ملیں۔ کسی نے برسوں محنت کر کے اپنا گھر بنایا تھا جو لمحوں میں ڈوب گیا، کسی نے بیٹی کا جہیز تیار کر رکھا تھا جو پانی بہا لے گیا، کوئی نئی نویلی دلہن تھی جس کا سارا سامان ضائع ہو گیا۔ ان کے زخموں کا مرہم شاید کوئی نہ ہو، مگر ان کی آنکھوں میں شکر گزاری پھر بھی جھلکتی ہے۔
جلالپور میں ایک نوجوان ملا جو سبزی اور دودھ لیے منت سماجت کر رہا تھا کہ اسے کشتی مل جائے تاکہ وہ گھر والوں تک یہ سامان پہنچا سکے۔ اندھیرا چھا جانے کی وجہ سے اسے جانے کی اجازت نہ مل سکی، اس کی آنکھوں کی حسرت دل میں اتر گئی۔ اسی علاقے میں ایک ماں جی سے ملاقات ہوئی جن کے بچوں کو الخدمت کے رضاکاروں نے ڈوبنے سے بچایا تھا۔ اب وہ ماں جی ہر روز کشتیوں کے مقام پر آتی ہیں اور جو بھی شخص الخدمت کی جیکٹ پہنے نظر آ جائے، اسے اتنے پیار سے ملتی ہیں اور ڈھیروں دعائیں دیتی ہیں۔ جب مقامی ساتھی نے میرا تعارف کرایا تو وہ مجھ سے بھی ایسے ملیں جیسے برسوں سے جانتی ہوں، ماتھے پر بوسہ دیا اور بے شمار دعائیں دیں۔
یہ وہ لمحات ہیں جو کبھی نہیں بھولتے ’’ دکھ، درد، شکرگزاری، خوشی، امید‘‘ سب کچھ ایک ساتھ دیکھا۔ اگر کہوں کہ اس مہینے میں زندگی کے کئی نئے روپ دیکھے ہیں تو یہ بالکل درست ہوگا۔ سیلاب نے ہمیں دکھ اور بربادی دی ہے، لیکن اس نے یہ سبق بھی دیا ہے کہ انسانیت ابھی زندہ ہے۔ جب تک ایسے لوگ اور ادارے موجود ہیں جو دوسروں کے دکھ کو اپنا سمجھ کر جیتے ہیں، تب تک یہ دنیا اندھیروں میں بھی روشنی سے جگمگاتی رہے گی۔

جواب دیں

Back to top button