پنجاب میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن پھر آمنے سامنے

پنجاب میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن پھر آمنے سامنے
تحریر: رفیع صحرائی
پاکستان کو اس وقت سیلاب سے ہونے والے بہت بڑے نقصان کے صدمے اور متاثرین کی بحالی کے کٹھن اور دشوار ترین مرحلے کا سامنا ہے۔ قبل ازیں ہر قدرتی آفت کے بعد حکمران کشکول اٹھائے دنیا بھر میں امداد کے لیے اپیلیں کیا کرتے تھے۔ یہ آفت سیلاب کی صورت میں ہوتی، زلزلے کی شکل میں یا کرونا جیسی وبائی مرض کی شکل میں ہوتی، ہم امداد کے لیے ہمیشہ دوسروں سے آس لگایا کرتے۔ کہیں سے امداد مل جایا کرتی جبکہ زیادہ تر محض اعلانات ہی ہوا کرتے۔ ہمارے حکمران ڈونرز کو بار بار یاد دہانی کروا کر تھک جاتے مگر امداد نہ ملتی البتہ ایسے مواقع پر اپوزیشن جماعتیں بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرتیں اور میڈیا کے سامنے حکومتوں سے جواب طلب کیا کرتیں کہ امدادی رقم کے اربوں اور کھربوں ڈالر کہاں گئے۔ پتا انہیں بھی ہوتا تھا کہ وہ محض اعلانات ہی تھے مگر ان کا مقصد سیلاب زدگان سے ہمدردی نہیں ہوتا تھا۔ وہ تو حکومت کو چور اور خائن ثابت کر کے اگلی باری لینے کی راہ ہموار کیا کرتے تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ سیلاب تاریخ کا بدترین سیلاب تھا۔ املاک اور فصلوں کا تو اس میں بہت زیادہ نقصان ہوا لیکن حکومت پنجاب کے بروقت اور تیز رفتار اقدامات کو داد دینا پڑے گی کہ انسانی جانوں اور جانوروں کے نقصان کی شرح بہت کم رہی۔ حکومت پنجاب کے ریسکیو کے انتظامات مثالی تھے۔ حکومت کے منتخب نمائندوں اور وزراء نے فیلڈ میں رہ کر ریسکیو آپریشنز کی نہ صرف مدد اور نگرانی کی بلکہ اپنی مقامی ٹیموں کو بھی ہر لمحہ فعال اور متحرک رکھا۔ حکومت کے ساتھ ساتھ رفاہی اور فلاحی تنظیموں نے بھی سیلاب میں گھرے لوگوں کے لیے امدادی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس طرح سے سب نے مل جل کر سیلاب کے نقصانات کو کم کرنے اور سیلاب زدگان کو ریلیف پہنچانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔
اس مرتبہ حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ سیلاب زدگان کی بحالی اور ریلیف کے لیے دنیا کے سامنے کشکول لے کر نہیں جانا بلکہ اپنے وسائل سے متاثرین کی مدد کرنی ہے۔ یقیناً اس کے لیے بہت کثیر سرمائے کی ضرورت ہے لیکن ظاہر ہے گورنمنٹ کے پاس اس سرمائے کے حصول کا کوئی پلان ضرور ہو گا۔ وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف کے ذہن میں یقیناً یہی بات ہے کہ بھارت سے حالیہ جنگ جیتنے کے بعد پاکستان نے دنیا بھر میں جو عزت پائی ہے اور امریکہ سمیت پوری دنیا میں جس طرح پاکستان کا ایک فاتح کی حیثیت سے استقبال کیا جا رہا ہے، اس عزت و احترام کو امداد کی درخواست کر کے زمیں بوس نہیں کیا جا سکتا۔ حالانکہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کو قائل کرنے کی پوری کوشش کی کہ چونکہ ترقی یافتہ ممالک کے اقدامات کی وجہ سے پیدا ہونے والی گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں پاکستان کو خوفناک سیلاب کا سامنا کرنا پڑا ہے اس لیے ان سے مدد لینا ضروری ہے لیکن وزیرِ اعظم شہباز شریف پاکستان کے موجودہ امیج کو کسی صورت خراب کرنا نہیں چاہتے اس لیے انہوں نے بلاول بھٹو زرداری کے مشورے پر مثبت ردِعمل ظاہر نہیں کیا۔
دوسری طرف پنجاب میں سیلاب زدگان کی امداد کے طریقہ کار پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان رسہ کشی شروع ہو چکی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا مقف ہے کہ حکومت سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں بے نظیر انکم سپورٹ (BISP)کے ذریعے مالی امداد فراہم کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ واحد ایسا نیٹ ورک ہے جس سے شفافیت اور تیزی کے ساتھ رقوم مستحقین تک پہنچائی جا سکتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی رہنما آصفہ بھٹو نے بھی کہا ہے کہ اگر BISPکو استعمال نہ کیا گیا تو یہ ایک انتظامی غفلت ہو گی۔
وزیرِ اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب متاثرین کو وزیرِ اعلیٰ ریلیف کارڈز کے ذریعے براہِ راست رقم دی جائے گی تاکہ عوام کو لائنوں میں لگ کر گھنٹوں کھڑا ہونے کی تکلیف نہ ہو اور وہ عزت کے ساتھ امداد وصول کر سکیں۔
حکومت پنجاب کا موقف درست ہے کہ سیلاب متاثرین کو BISPکے ذریعے امداد دینا عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔ BISP کے پاس صرف ان مستحقین کا ڈیٹا موجود ہے جو خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کے پاس نہ تو نقصانات کی تفصیل کے اعداد و شمار ہیں اور نہ ہی متمول متاثرین یا زمینداروں و کاشتکاروں کا ڈیٹا موجود ہے۔ فصلوں کی گرداوری اور مکانات و مویشیوں کی تفصیل اور نقصانات کے اعدادا و شمار BISPکے پاس موجود نہیں ہیں ایسے میں متاثرین کی خاطرخواہ امداد کیسے کی جا سکتی ہے۔ پنجاب حکومت نے سیلاب سے ہونے والے نقصانات سے درست آگاہی حاصل کرنے کے لیے سروے مہم کا آغاز کر دیا ہے جس میں پانچ صوبائی محکموں کے علاوہ پاک فوج کی خدمات بھی حاصل کر لی گئی ہیں۔ عظمیٰ بخاری نے بتایا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے ریلیف پیکیج کے تحت کسانوں کو فی ایکڑ 20ہزار روپے معاوضہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ جو پختہ گھر مکمل گرا ہے اس کے لیے 10لاکھ روپے اور جزوی نقصان والے یا کچے گھر کے گرنے پر 5لاکھ روپے امدادی رقم دی جائے گی۔ اسی طرح بڑے جانور کے جانی ضیاع پر 5لاکھ اور چھوٹے جانور کا معاوضہ 50ہزار روپے مقرر کیا گیا ہے۔ دیکھا جائے تو BISPکا ڈیٹا بیس اس طرح کے نقصان کے اعداد و شمار مہیا کرنے سے قاصر ہے۔
رہنما پیپلز پارٹی ندیم افضل چن نے حکومت پنجاب کے اعلانات کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ اعلان کردہ ریلیف پیکیج پر عمل درآمد کے لیے پنجاب کو اپنے سالانہ بجٹ کے تین گُنا وسائل درکار ہوں گے، یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اتنی بڑی رقم کہاں سے آئے گی۔ ندیم افضل چن کو شکوہ ہے کہ امدادی سرگرمیوں کے سلسلے میں حکومت نے اتحادیوں کو مشاورت میں شامل نہیں کیا۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے پنجاب میں سیلاب متاثرین کے ریلیف اور بحالی کی سرگرمیوں میں پیپلز پارٹی کی مداخلت کو پسند نہیں کیا۔ انہوں نے اس پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب پر تنقید کرنے والے اپنے صوبے میں کام کر لیتے تو متاثرین کا بھلا ہو جاتا۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب میں 25لاکھ افراد کی تصویریں بنتی ہیں تو قوم کو احساس ہوتا ہے کہ حکومت ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ انہوں نے سیلاب متاثرین کے لیے خصوصی کارڈ جاری کرنے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ پنجاب حکومت نے سیلاب کے دوران 25لاکھ لوگوں کی مدد کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت عملی کام میں مصروف ہے جبکہ دیگر لوگ صرف تنقید کر رہے ہیں۔ مریم نواز کا مزید کہنا تھا کہ دفتر میں بیٹھ کر تصویریں بنانا آسان ہے لیکن اصل سکون چپ کر کے بیٹھنے میں نہیں بلکہ عملی کام کرنے میں ہے۔ صوبے کے حکمران محلات میں سونے کی بجائے عوام کے درمیان رہ کر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے فخریہ کہا کہ نواز شریف کی بیٹی ہوں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائوں گی بلکہ اپنے وسائل سے سیلاب متاثرین کی مدد کروں گی۔
ادھر وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بھی سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور متاثرین سے متعلق ایک ہفتہ میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سیلاب متاثرین کی بحالی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
پنجاب کے سیلاب متاثرین اس وقت شدید صدمے کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ ان کے ریلیف یا بحالی کے نام پر سیاسی پارٹیوں کا ٹکرائو مناسب نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ متاثرہ گھرانوں تک بروقت، شفاف اور عزت کے ساتھ امداد پہنچے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سیلاب متاثرین کی فوری مدد کی بجائے طریقہ کار پر رسہ کشی نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔ سیلاب زدگان کو پارٹیوں کی سیاست سے نہیں بلکہ عملی اقدامات چاہئیں۔ بہتر یہ ہے کہ ایک دوسرے پر تنقید کرنے پر توانائیاں صرف کرنے کی بجائے یہی توانائیاں متاثرہ عوام کی بحالی پر خرچ کی جائیں۔
یہ حقیقت اپنی جگہ بڑی اہم ہے کہ پنجاب جب شدید ترین سیلاب کی لپیٹ میں تھا تو سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے پیپلز پارٹی کہیں دور دور تک بھی نظر نہیں آئی۔ وہ اس طرح لاتعلق رہی جیسے کہ صوبہ پنجاب میں ان کا کوئی سٹیک ہی نہیں۔ سیلاب اترنے کے دنوں میں بلاول بھٹو ضلع قصور میں ضرور نظر آئے لیکن ان کا یہ دورہ عملی طور پر فوٹو سیشن ہی کہا جائے گا۔ انہوں نے اپنی پارٹی کو سیلاب متاثرین کے لیے بالکل بھی متحرک نہیں کیا۔ گزشتہ2022ء کے سیلاب میں بھی جب پنجاب ڈوب رہا تھا تو بلاول بھٹو یکسر لاتعلق رہے تھے۔ انہوں نے نامعلوم مقام سے اس وقت سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے ہدایت جاری کی تھی جب سیلاب سے احمد پور شرقیہ متاثر ہوا تھا۔ کیونکہ اس سے آگے سندھ شروع ہو جاتا ہے۔ سیلاب کے دنوں میں ڈوبنے والوں کو بے سہارا چھوڑنے کے بعد اب بحالی کی سرگرمیوں میں تنقید کر کے پیپلز پارٹی کی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کسی طور مناسب نہیں۔




