جو ہم سے نہ ہو سکا

جو ہم سے نہ ہو سکا
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
چلیں ترقی یافتہ ملکوں کی دوڑ میں نہ سہی کم از کم ہم نعرے بازی میں تو تمام ملکوں سے سبقت لے گئے ہیں۔ ملک کے معرض وجود میں آنے کے بعد کوئی لمحہ نہیں آیا ہمارے تعلقات امریکہ سے خوشگوار نہ رہے ہوں۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں تو ہم نے امریکہ کے آگے آنکھیں فرش راہ بچھا دیں۔ روس کے خلاف جہاد کے نام پر امریکہ بہادر کو بھرپور ساتھ دیا۔ وہ روس جس نے اسٹیل ملز بنا کر دی جانے اور کون کون سے کام کئے فریق بن گئے۔ افغان جہاد کے نام پر لاکھوں مہاجرین نے پاکستان، ایران اور وسطی ایشیائی ملکوں کی طرف ہجرت کی۔ پھر اسی جہاد کے دوران کلاشنکوف اور منشیات کا تحفہ ہمیں ملا اور دہشت گردی ہمیں ورثے میں مل گئی۔ سوال ہے امریکہ کے ساتھ روس کے خلاف جہاد کرنے کے صلے میں ملک و قوم کو کیا ملا جس کا جواب آج تک کسی کے پاس نہیں ہے۔ پھر عقل مندوں نے افغان مہاجرین کو کیمپوں سے نکال کر شہروں میں رہنے کی اجازت دے دی جس کے بعد چالیس سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود ہم انہیں واپس بھیجنے میں ناکام رہے ہیں۔ جس ملک میں لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکی غیر قانونی طور پر قیام کئے ہوئے ہوں اور اسلحہ اور منشیات عام ہو ں کیا ایسے ملک ترقی کر سکتے ہیں؟ہم مارشل لاء کو برا بھلا کہتے ہیں آج تک جیتنے ڈیم تعمیر ہوئے ہیں، کس سیاسی جماعت نے تعمیر کئے ہیں وہ فوجی حکومتوں کے تعمیر کردہ ہیں۔ گوادر کی بندر گاہ کس سیاسی جماعت نے اقتدار میں رہ کر بنائی وہ بھی جنرل پرویز مشرف کا کارنامہ ہے۔ پاکستانی قوم کی ہم ستائش کئے بغیر نہیں رہ سکتے جس سیاسی رہنما نے ملک کو ایٹمی قوت بنانے میں اہم کردار ادا کیا وہ تختہ دار پر چڑھ گیا اور جس نے ایٹم بم بنایا اور دھماکے کرائے وہ نظر بندی کی موت مر گیا۔ واہ جی واہ پاکستانی قوم بھی کیسی ہے جو اپنے محسنوں کو بھول جاتی ہے۔ وہ تو بھلا ہو میر ظفر اللہ خان جمالی کا ورنہ ڈاکٹر قدیر خان بھی پنٹاگون کی قید میں دم دے دیتے۔ افغانوں کی تاریخ فتوحات سے لبریز ہے صدر ٹرمپ نے بگرام کا ایئر بیس واپس لینے کی دھمکی دی تو جواب ملا وہ بیس برس تک امریکہ کا مقابلہ کریں گے ایک انچ زمین نہیں دے گئے یہ ہوتی ہے ان قوموں کی شان جو اپنے وطن کی حفاظت کیسے کرتے ہیں۔ ملک کی دو سیاسی جماعتوں کے پاس کئی بار اقتدار آیا جو اب بھی اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں نہ ملک سے مہنگائی نہ ہی بے روزگار کا خاتمہ کر سکیں بلکہ صدق دل سے کوشش بھی نہ کی مگر دعویٰ عوام کی خدمت کا کرتے ہیں۔ حق تعالیٰ کا شکر ہے ہمارا دفاعی نظام بہت مضبوط ہے بھارت جیسے دشمن ملک کو جس طرح حالیہ پاک، بھارت جنگ کے دوران سبکی کا سامنا کرنا پڑا و ہ ملک کو ہمیں قرض دینے سے گریزاں تھے دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔ ہم یہاں صرف سعودی عرب کی بات کریں گے، سعودی کبھی مطلب کے بغیر دوستی نہیں رکھتے۔ دفاعی لحاظ سے وہ خواہ کچھ کر لیں وہ کسی کے ساتھ لڑنے کی پوزیشن میں نہیں، اور تو اور وہ یمن کے حوثیوں سے خائف رہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ہاتھ کیا ملایا خوشی کے مارے پھولے نہیں سما رہے ہیں۔ اللہ کے بندوں امریکہ کبھی مشکل وقت میں مسلمانوں کے کام آیا ہے؟۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے یہود و ہنود کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے، مگر ہم نے قرآنی تعلیمات کو یکسر بھلا دیا ہے۔ بھارت کے ساتھ لڑائی میں امریکہ کا بحری بیٹرہ بس آتا ہی رہا اور ہم راہ تکتے رہ گئے۔ جو ترقی ہم نے کی اسٹیل ملز بیل آئوٹ پیکیج پر چل رہی ہے ملازمین بغیر کام کئے تنخواہیں لے رہے ہیں۔ پی آئی اے جس سے دوسرے ملکوں کے لوگ تربیت لینے آیا کرتے تھے بیل آئوٹ پیکیج پر چل رہی ہے۔ انگریز نے ریلویز کا نظام دیا اس کا حشر سب کے سامنے ہے۔ راولپنڈی سے چکوال جانے والی ریل کی پٹری یار لوگوں نے فروخت کر دی ہے۔ برآمدات نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ آئی ایم ایف نے گردشی قرضے صفر کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے جس کے بعد عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار ہو جائے گی مگر ہم ترقی کر رہے ہیں۔ سرمایہ کاری آئے گی وہ سرمایہ کاری کہاں ہے الٹا سرمایہ کار ملک چھوڑ رہے ہیں۔ موٹر سائیکل بنانے والی کمپنی واپس چلی گئی ہے مگر ہم ترقی کر رہے ہیں۔ دنیا کے دیگر ملکوں میں کرپشن کرنے والوں کو سزائے موت یا پھر جیلوں میں رکھا جاتا ہے مگر پاکستان میں منی لانڈرنگ کرنے والوں کو اقتدار سونپ دیا جاتا ہے مگر ہمارا ملک ترقی کر رہا ہے۔ ایک بات ضرور ہوئی اللہ کی مہربانی سے ہمارا دفاع مضبوط ہے، جس کا امریکہ بھی معترف ہے۔ چین ہم سے بعد میں آزاد ہوا آج امریکہ کا ہم پلہ ہے۔ ہم ترقی کیوں نہیں کر سکتے اگر ہمارے ملک سے کرپشن کے ناسور کا خاتمہ ہوجائے تو ہمارے ملک کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں ہو سکتا ہے لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ اگر ہم ٹیکنالوجی کی بات کریں تو افغانستان کے پاس کون سی ٹیکنالوجی ہے ان کے پاس عزم و حوصلے کی ٹیکنالوجی ہے۔ میرے ایک دوست سنیئر صحافی مرحوم ایم طفیل خوست میں شیخ اسامہ بن لادن سی ملاقات کے لئے گئے۔ انہوں نے مجھے بتایا تھا اسامہ سے ملاقات تو نہ ہو سکی البتہ گورنر قندھار سے ملاقات ہوئی، جو ایک ٹانگ سے معذور تھے۔ آپ حیران ہوں گے صبح طفیل صاحب نے جو ناشتہ کیا وہ مٹی کے پیالے میں لسی اور سوکھی روٹی تھی اور وہی ناشتہ گورنر نے بھی کیا۔ قومیں لڑائی ایسے نہیں لڑتیں، آپ دیکھ لیں افغانوں نے امریکہ کو نکلنے پر مجبور کر دیا۔ ہمیں افسوس اس بات کا ہے ہمارے حکمرانوں کو جو ملک و قوم کے لئے کرنا تھا وہ اس میں ناکام رہے۔ ہمارے سیاسی رہنمائوں کا ایک مقصد ہوتا ہے وہ لوگوں کو بسوں کی سہولت دے کر ووٹ بینک بنا لیں، ملک ترقی کرے نہ کرے انہیں اس سے کچھ سروکار نہیں۔ بدقسمتی سے سیاست دانوں کو اقتدار میں رہ ملک و قوم کے لئے جو کرنا تھا وہ نہ کر سکے، البتہ نعروں میں دنیا میں سبقت لے چکے ہیں۔





