Column

کامیابیوں کے سفر پر اک نظر

کامیابیوں کے سفر پر اک نظر
کالم:صورتحال
تحریر:سیدہ عنبرین
ملک کی اہم ترین شخصیات گاہے بہ گاہے اہل پاکستان کے علم میں یہ کہہ کر اضافہ کرتی رہتی ہیں کہ ملک نے گزشتہ دو، چار برس میں زبردست ترقی کی ہے، کسی نے کہا مہنگائی فقط پانچ فیصد رہ گئی ہے، جس نے زیادہ سچ بولا اس نے کہا مہنگائی ختم ہو گئی ہے، ترقی کا جائزہ لینے کیلئے امپورٹ، ایکسپورٹ، کرنسی کی قیمت، شرح نمو اور بہت سے فارمولے ہیں، لیکن دو میدانوں میں ترقی کا جائزہ لیں تو آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں، تازہ ترین ترقی کا شاہکار کرکٹ ہے۔ ہم عالمی چیمپئن رہے ہیں، ہم نے ایشیا کپ جیتا، ہم دیگر ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں سر فہرست رہے ہیں۔ ہماری خواتین کی کرکٹ ٹیم نے بھی شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن جو ترقی گزشتہ چند برس میں نظر آئی ہے وہ کبھی ماضی میں ہو سکی نہ مستقبل میں ہو سکے گی۔ شاندار ٹیم سلیکشن کے بعد شاندار شکست کارکردگی کا بہترین نمونہ ہے۔ اس ٹیم کے ساتھ اگر ایشیا کپ جیت جاتے تو الزام لگ سکتا تھا کہ فکسڈ میچ جیت کر آتے ہیں۔ وہ کھلاڑی اور سلیکٹر ز خاص طور پر مبارک کے مستحق ہیں جنہوں نے پاکستانی ٹیم پر یہ الزام نہیں لگنے دیا۔
کرکٹ کھیل کبھی ماضی میں ہوا تھا، کھیل میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے، اب کرکٹ کھیل کے سوا سب کچھ ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ انڈسٹری ہے، اس میں کاروباری افراد، ادارے ،مافیا اور بعض حکومتیں اہم کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔
کھیل کے میدانوں میں جوا کرکٹ کے میدانوں سے شروع ہوا۔ پاکستان اور بھارت نے جس طرح کرکٹ کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اسی طرح اس کار خیر میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے جسے جوا کہتے ہیں۔ جوئے کے بارے میں کبھی کہا جاتا تھا ’’ جوا جو کسی کا نہ ہوا‘‘ یہ پرانے زمانے کی کہاوت ہے، نئے دور کی کہاوت ہے لگانے والے کو ملے گا، پس یہاں سب کو ملتا ہے، کچھ تو ایسے بھی ہیں جنہیں بنا ایک دمڑی لگائے لاکھوں ملتے ہیں، یہ وہ ہیں جن کے بارے میں آپ سنتے ہیں اور پاکستان کے چوبیس کروڑ عوام میں سے کم از کم بارہ کروڑ اس پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں کہ کھیلو گے کودو گے بنو گے نواب، پڑھو گے لکھو گے تو ہو گے خراب، اس مقولے کی پذیرائی کا یہ عالم ہے کہ لاکھوں بچے تعلیم سے دور ہیں، ہر نوجوان بالخصوص زندگی کی دوڑ میں قدرے پیچھے رہ جانے والے علاقوں سے تعلق رکھنے والے وسائل سے محروم افراد اب سکول، کالجوں کی بجائے کرکٹ کے میدانوں کا رخ کرتے نظر آتے ہیں، ان کے سامنے مثالیں موجود ہیں، ڈاکٹر، انجینئر بن چکے ہیں، ڈگریاں بھی ہاتھوں میں ہیں لیکن نوکریاں دینے کی بجائے رکشوں اور ٹیکسیوں کی چابیاں تھما دی گئیں۔ ملکی ترقی کی داستانیں سنانے والے فخر سے یہ کہ سکتے ہیں ہمارے رکشہ، ٹیکسی چلانے والے بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ کرکٹ ٹیم کو اور سلیکٹر کو اعلیٰ کارکردگی پر قومی سطح کے ایوارڈز سے نوازنا چاہیے۔ ہلال امتیاز اور نشان پاکستان کے حقیقی حقدار یہی لوگ ہیں۔ انہوں نے ایک نئے انداز میں پاکستان کا نام روشن کیا ہے، آج وہ ہارے ہیں تو دنیا میں ہر کرکٹ کھیلنے والا اس سے دلچسپی رکھنے والا پاکستان کو یاد کر رہا ہے۔ دنیا کے ڈیڑھ ارب آبادی والے ملک بھارت میں پاکستان کا تذکرہ سب سے زیادہ ہو رہاہے۔ کارکردگی پر اعلیٰ ترین قومی اعزازات کے علاوہ جیتا ہوا میچ ہارنے پر ٹیم کو اسلام آباد میں پلاٹ بھی دینے ضروری ہیں۔ کرکٹ ٹیم کی قسمت خراب ’’ ملک صاحب ‘‘ ملک سے باہر جا چکے ہیں وہ ہوتے تو انہیں ایک فون کر کے ہر کھلاڑی اور سلیکٹر کو المشہور ’’ پانی والے تالاب‘‘ میں بنا بنایا گھر بھی دلوایا جاسکتا تھا۔ بنا بنایا گھر کھلاڑی کو مل جائے تو اس کا بڑا مسئلہ حل ہو جاتا ہے، دوسرا مسئلہ وہ خود حل کر لیتا ہے، یعنی گھر والی کچے دھاگے سے بندھی چلی آتی ہے۔
پاکستان کی دوسری بڑی کامیابی دیکھنا چاہتے ہیں تو اقوام متحدہ کے اہم ترین اجلاس کی کارروائی دیکھ لیں۔ مسلمان ممالک کے سربراہوں کی تقاریر پر نظر ڈالیں تو ایک بات سامنے آتی ہے۔ اردن کے بادشاہ حسن کی بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیل کے قریب ترین دوست ہیں۔ انہوں نے اسرائیلی خواہشات کے برعکس فلسطین میں ہونیوالے اسرائیلی ظلم کے پردے چاک کیے اور آزاد فلسطین کے حق میں دو ٹوک موقف اختیار کیا۔ ترکیہ کے جناب اردوان اپنے ساتھ کچھ تصاویر لیکر آئے تو انہوں سے اپنی تقریر کے دوران سامنے بیٹھے بعض مردہ ضمیروں کو دکھائیں مگر کیمرے کی آنکھ نے دکھایا یہ لوگ آنکھیں بند کیے خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے، ایرانی سربراہ مملکت کا موقف ہمیشہ کی طرح جاندار تھا انہوں نے بنا کوئی لگی لپٹی رکھے اسرائیل کی جارحیت کی مذمت اور فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کی ۔
کولمبیا کے صدر نے تو میلہ لوٹ لیا انہوں نے امریکہ کا اصل چہرہ دنیا کو دکھاتے ہوئے کہا امریکہ انسانی حقوق کی بات کرتا ہے، شخصی آزادیوں کی بات کرتا ہے لیکن درحقیقت وہ کسی کو بھی اس کی مرضی سے جینے نہیں دیتا، ان کے مطابق کولمبیا سے امریکہ آنیوالے افراد کی کشتیاں صرف اس لیے روکی جاتی ہیں کہ وہ اتنے گورے نہیں ہیں جتنے امریکی ہیں، کولمبین صدر نے الزام لگایا کہ امریکہ نے انہیں قتل کرانے کی کوششیں کیں، لیکن وہ اللہ کی مہربانی سے ان کے قاتلانہ حملوں میں محفوظ رہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے باشندوں پر منشیات سمگلنگ کا الزام لگا کر ان پر عرصہ حیات تنگ کیا جاتا ہے، جبکہ امریکہ کا اپنا مکروہ کردار یہ ہے کہ وہ فلسطین میں ہونیوالی مسلمانوں کی نسل کشی کا سب سے زیادہ ذمہ دار ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ نسل پرست ہیں، کولمبین صدر کے اجلاس سے خطاب کے دوران امریکی وفد بے چینی سے اپنی کرسیوں پر پہلو بدلتا رہا، جب کولمبیا کے صدر نے امریکی جرائم کی طویل فہرست شرکائے اجلاس کے سامنے رکھی تو امریکی وفد اجلاس چھوڑ کر باہر چلا گیا، امریکی وفد کا بائیکاٹ دراصل ان کا حقیقی چہرہ ہے، وہ اپنی مرضی کے خلاف، اپنی پالیسی کے خلاف ایک لفظ بھی سننا پسند نہیں کرتے، جبکہ دنیا کو تحمل اور برداشت کے سبق پڑھاتے ہیں، امریکی وفد نے مجموعی طور پر فقط پانچ منٹ کولمبین صدر کا خطاب سنا، وہ مزید اس کی تاب نہ لا سکے۔ دوسری طرف امریکی صدر خطاب کیلئے آئے تو انہوں نے اقوام متحدہ پر تنقید سے بات گفتگو شروع کی اور اسے خوب لتاڑا، پھر وہ یورپی ممالک کو عقل سے عاری اور احمق ثابت کرنے پر تلے رہے، ان کی تقریر کا ایک حصہ خود ستائی پر مشتمل تھا، جس میں وہ ہسٹیریا کے مریض کی طرح دنیا میں تباہی پھیلانے والی سات جنگیں بند کرانے کی کارنامے کا ذکر کرتے پائے گئے۔
ہمارے راج دلارے، ہماری آنکھوں کے کم اور راولپنڈی کی آنکھوں کے تارے بھی ہماری نمائندگی کیلئے موجود تھے، جنہوں نے پاکستان کو روشن چیلنجز کا دل دوز انداز میں ذکر کیا، انہوں نے تمام چیلنجز سے نمٹنے کا عزم ظاہر کیا اور پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے چھپی طاقتوں، ان کے آلہ کاروں کا نام لئے بغیر ان کی بھرپور مذمت کی۔ اقوام متحدہ کے اجلاس سے قبل ہم نے بھارتی وزیراعظم کو سالگرہ کی مبارک بھجوا کر وسیع القلبی کا ثبوت دیا، مودی ہمارا ہمسایہ ہی نہیں مودی ہمارا یار ہے، اس کی خوشیوں میں شریک ہونا ہمارا فرض اور پاکستان پر حملہ کرنا اس کا فرض ہے۔

جواب دیں

Back to top button