بگرام ایئر بیس: خطے کی خودمختاری اور استحکام کا سوال

بگرام ایئر بیس: خطے کی خودمختاری اور استحکام کا سوال
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
افغانستان میں بگرام ایئر بیس کی ممکنہ امریکی واپسی کا معاملہ نے خطے کے کلیدی ممالک کو ایک مشترکہ موقف اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ مسئلہ صرف ایک فوجی اڈے کی بحالی کا نہیں بلکہ علاقائی استحکام، خودمختاری اور جغرافیائی توازن کا ہے۔ حالیہ دنوں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانیہ کے دورے کے دوران یہ بیان دیا کہ امریکہ بگرام کو واپس حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، کیونکہ یہ اڈہ چین کے جوہری تنصیبات کے قریب ہے اور اس کی اسٹریٹجک اہمیت ناقابل انکار ہے۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ اگر افغانستان یہ اڈہ واپس نہیں دیتا تو ’’ برے نتائج‘‘ سامنے آئیں گے۔ تاہم، افغان عبوری حکومت نے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں کسی بیرونی فوجی موجودگی کی اجازت نہیں دی جائے گی، اور یہ ملک کی خودمختاری کے خلاف ہے۔ یہ ردعمل نہ صرف افغان حکومت کا ہے بلکہ پڑوسی ممالک ایران، چین اور پاکستان نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے چین کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ چین، روس، ایران اور پاکستان نے مشترکہ طور پر افغانستان میں کسی بھی فوجی اڈی کی بحالی کی مخالفت کی ہے، کیونکہ یہ خطے کے امن کو متاثر کرے گی۔ یہ بیان اقوام متحدہ کے فورم پر بھی پیش کیا گیا، جہاں ان ممالک نے افغانستان کی سرحدی سالمیت اور خودمختاری کے احترام پر زور دیا۔
افغانستان کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے، بگرام کی واپسی کا خیال ایک پیچیدہ تاریخی تناظر میں جڑا ہوا ہے۔ 2001 ء میں امریکی افواج کی آمد کے بعد سے یہ اڈہ امریکہ کی افغان مہم کا مرکزی مرکز رہا، جہاں سے ڈرون حملے اور لاجسٹکس آپریشنز چلائے جاتے تھے۔ 2021ء میں امریکی انخلا کے بعد افغان طالبان نے اسے اپنے قبضے میں لے لیا، اور اب وہ اسے اپنی خودمختاری کا حصہ سمجھتے ہیں۔ طالبان کے چیف آف آرمی سٹاف نے حال ہی میں کہا کہ بگرام کی واپسی کا مطلب افغانستان پر دوبارہ حملہ ہوگا، اور وہ اس کی مزاحمت کریں گے۔ یہ موقف براہ راست افغان عوام کی آزادی اور استحکام سے جڑا ہے، کیونکہ ماضی کی امریکی موجودگی نے ملک میں اندرونی تنازعات کو ہوا دی تھی۔ نتیجتاً، کابل کی عبوری حکومت نے واشنگٹن کو واضح پیغام دیا ہے کہ بات چیت صرف غیر فوجی شعبوں میں ممکن ہے اور کسی بھی بیرونی مداخلت سے یہ عمل متاثر ہو سکتا ہے۔
ایران کا نقطہ نظر اس معاملے میں علاقائی طاقت کے توازن سے جڑا ہے۔ تہران نے ہمیشہ سے افغانستان کو اپنی مغربی سرحد کے تحفظ کے لیے اہم سمجھا ہے، اور امریکی واپسی کو ایک ممکنہ خطرہ قرار دیا ہے۔ ایران کی پارلیمنٹ کے نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے رکن ابوالفضل زوہریوند نے حال ہی میں کہا کہ اگر امریکہ بگرام پر قبضہ کرتا ہے تو یہ امریکی فوجیوں کے لیے قبرستان بن سکتا ہے، کیونکہ ایران، روس اور چین اس کی مخالفت میں متحد ہیں۔ یہ بیان ایران کی اسٹریٹجک تشویش کو ظاہر کرتا ہے، کیونکہ بگرام شمالی افغانستان میں ہے جو ایران کی سرحد سے قریب ہے۔ ماضی میں، 2001ء سے 2021ء تک کی امریکی موجودگی نے ایران کو امریکہ کے ساتھ تصادم کا سامنا کرایا، جہاں افغانستان میدان جنگ بنا۔ ایران کے وزیر خارجہ نے بھی اسے افغان خودمختاری پر حملہ قرار دیا ہے، اور کہا ہے کہ یہ انتہا پسندی کو ہوا دے گا۔ تہران ٹائمز نے لکھا ہے کہ یہ واپسی امریکہ کی طاقت کی نمائش ہے، جو ایران کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔ ایران کی پالیسی یہ ہے کہ وہ افغانستان میں استحکام چاہتا ہے تاکہ اس کی سرحدیں محفوظ رہیں اور اقتصادی روابط مضبوط ہوں۔
چین کا ردعمل اقتصادی اور جیو پولیٹیکل دونوں پہلوں سے اہم ہے۔ بیجنگ نے افغانستان کو اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا کلیدی حصہ سمجھا ہے، جو مغربی چین سے بحر عمان تک پھیلا ہوا ہے۔ ٹرمپ کے بیان پر چین کی وزارت خارجہ نے کہا کہ بگرام کی واپسی کا فیصلہ افغانستان پر چھوڑا جائے، لیکن یہ خطے میں تنائو بڑھائے گی اور عوام کی امن کی خواہشات کو نقصان پہنچائے گی۔ چین نے یہ بھی خبردار کیا کہ امریکی موجودگی سنکیانگ کی جوہری تنصیبات کے قریب ہونے کی وجہ سے ایک نئی کشیدگی کا باعث بن سکتی ہے۔ حالیہ دنوں میں، چین نے افغان عبوری حکومت کے ساتھ اقتصادی تعلقات بڑھائے ہیں، جیسے کان کنی اور انفراسٹرکچر پراجیکٹس، اور امریکی واپسی ان کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ چین نے روس، ایران اور پاکستان کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ افغانستان میں فوجی اڈوں کی بحالی خطے کے استحکام کو ختم کر دے گی۔ یہ موقف چین کی گلوبل اسٹریٹجی کا حصہ ہے، جہاں وہ امریکی اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
پاکستان، جو افغانستان کا قریبی ہمسایہ ہے، اس معاملے میں سرحدی سیکورٹی اور اندرونی استحکام کو ترجیح دے رہا ہے۔ سرحدی تنازعات اور قبائلی روابط کی وجہ سے پاکستان ہمیشہ افغان معاملات میں شامل رہا ہے۔ پاکستان نے مشترکہ بیان میں شامل ہو کر واضح کیا ہے کہ وہ افغانستان میں کسی بھی بیرونی فوجی اڈے کی بحالی کی مخالفت کرتا ہے، کیونکہ یہ سیکیورٹی خدشات کو بڑھائے گی۔ پاکستان کی فوج کے سربراہ نے بھی اسے علاقائی امن کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ حالیہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنا رہا ہے، لیکن اسلام آباد نے واضح کیا ہے کہ وہ کسی فوجی مداخلت کا حصہ نہیں بنے گا۔ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ افغانستان میں امن اس کی اپنی سیکیورٹی سے جڑا ہے، اور امریکی واپسی سے سرحد پار مسائل بڑھ سکتے ہیں۔
ان چاروں ممالک کے مواقف کا تقابلی جائزہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ افغانستان کا ردعمل سب سے براہ راست ہے، کیونکہ یہ اس کی خودمختاری کا معاملہ ہے۔ ایران اور چین نے اسے وسیع تر عالمی تناظر میں دیکھا، جہاں طاقت کا توازن اور اقتصادی مفادات شامل ہیں۔ پاکستان نے سرحدی اور اندرونی سیکورٹی پر توجہ مرکوز کی۔ تاہم، سب نے ایک بات پر اتفاق کیا: امریکی فوجی واپسی خطے میں تنائو بڑھائے گی۔ ماضی کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ 20سالہ امریکی موجودگی نے نہ صرف افغانستان کو تقسیم کیا بلکہ پڑوسیوں کو بھی متاثر کیا۔ پاکستان میں قبائلی علاقوں کی بگاڑ، ایران کی سرحدی کشیدگی اور چین کے اقتصادی خدشات اس کی مثالیں ہیں۔ سفارتی سطح پر، یہ مسئلہ مکالمے سے حل ہو سکتا ہے۔ افغانستان کو اپنے تحفظات بیان کرنے چاہئیں، اور امریکہ کو غیر فوجی شعبوں میں تعاون کی دعوت دینی چاہیے۔ یہ نہ صرف اعتماد بحال کرے گا بلکہ خطے میں نئی شراکت کا آغاز کر سکتا ہے۔ بگرام کا معاملہ تاریخ اور امن کا سوال ہے، اور اسے حقائق کی روشنی میں دیکھنا ضروری ہے۔





