Column

سب سے بڑا دہشت گرد بھارت

سب سے بڑا دہشت گرد بھارت
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس میں پاکستان کے سیکنڈ سیکریٹری محمد راشد کی جانب سے بھارت کے جھوٹے الزامات پر دیا گیا مدلل، جرأت مندانہ اور حقیقت پر مبنی جواب نہ صرف پاکستان کی سفارتی پختگی کا عکاس ہے، بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان اب عالمی فورمز پر کسی قسم کی الزام تراشی یا اشتعال انگیزی کو خاموشی سے برداشت کرنے والا ملک نہیں رہا۔ یہ بدلتا ہوا پاکستان ہے، ایک ایسا پاکستان جو دلیل، حقائق اور عالمی قوانین کی بنیاد پر اپنے دفاع کو مضبوطی سے پیش کرتا ہے۔ بھارت کی طرف سے بارہا پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگانا کوئی نئی بات نہیں۔ ہر بین الاقوامی فورم پر، خاص طور پر اقوام متحدہ میں، بھارت کی کوشش یہی رہتی ہے کہ پاکستان کو ایک دہشت گرد ریاست کے طور پر پیش کیا جائے، لیکن اس بار بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کی تقریر، جس میں انہوں نے بلاواسطہ پاکستان کو نشانہ بنایا، کو محمد راشد نے بھرپور انداز میں بے نقاب کیا۔ انہوں نے بھارت کے جھوٹے بیانیے کو محض جذباتی پروپیگنڈا قرار دیا جو نہ تو شواہد پر مبنی تھا اور نہ ہی کسی حقیقت سے ہم آہنگ۔ پاکستانی سیکنڈ سیکریٹری محمد راشد نی جوابی خطاب میں دوٹوک انداز میں واضح کیا کہ بھارت کی طرف سے لگائے گئے الزامات محض پروپیگنڈا ہیں، جن کا مقصد عالمی برادری کو گمراہ کرنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 90ہزار سے زائد جانوں کی قربانی دی ہے، جو عالمی سطح پر تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ پاکستان نہ صرف خطے بلکہ عالمی سطح پر امن کے لیے کوشاں ہے اور اس کا ثبوت وہ مسلسل سفارتی کاوشیں ہیں جو اسلام آباد، کابل اور اقوام متحدہ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔پاکستان کے مدلل جواب کے بعد بھارتی مندوب کا ہال چھوڑ کر جانا اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ بھارت کی جھوٹی کہانیوں کا پردہ چاک ہوچکا ہے۔ جب دلیل، منطق اور حقائق کے سامنے جذباتی اور پروپیگنڈا پر مبنی الزامات رکھے جاتے ہیں، تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ الزامات لگانے والا ملک اپنی ساکھ کھو دیتا ہے۔ بھارت کی یہی حالت اس اجلاس میں دیکھنے کو ملی۔ محمد راشد نے بھارت کی ریاستی دہشت گردی کو بے نقاب کرنے کے لیے کلبھوشن یادو کی مثال بھی پیش کی، جو ایک حاضر سروس بھارتی نیوی افسر اور را (RAW)کا ایجنٹ ہے۔ کلبھوشن کی گرفتاری اور اس کے اعترافی بیانات اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت پاکستان کے اندر دہشت گردی کو ہوا دیتا ہے۔ اس سے زیادہ واضح ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک خفیہ ایجنسی کا افسر دہشت گرد سرگرمیوں میں براہ راست ملوث پایا گیا؟ ہم اس بات کو نظرانداز نہیں کرسکتے کہ محمد راشد نے جس توجہ سے بھارت کے زیرِ تسلط جموں و کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کو اجاگر کیا، وہ قابلِ تحسین ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ کس طرح بھارت ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں، بلاجواز گرفتاریاں اور ریاستی جبر کے ذریعے کشمیری عوام کی آواز کو دبانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ تمام مظالم اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ بھارت ایک جمہوری ریاست کے بجائے قابض طاقت کے طور پر کام کر رہا ہے۔ پہلگام واقعے کو بنیاد بناکر بھارت نے پاکستان پر کھلی جارحیت کی، جس میں درجنوں معصوم شہری، بشمول خواتین اور بچے، شہید ہوئے۔ تاہم، بھارت کی طرف سے نہ تو کوئی شواہد فراہم کیے گئے، نہ ہی کسی آزاد تحقیقات کی حمایت کی گئی۔ پاکستان نے شفاف تحقیقات کی پیشکش کی، مگر اسے مسترد کر دیا گیا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کا مقصد صرف الزام تراشی تھا، نہ کہ حقیقت تک پہنچنا۔ یہ وقت ہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری بھارت کے اس غیر ذمے دارانہ رویے کا نوٹس لے۔ اگر ایک ملک بار بار بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے، انسانی حقوق کو پامال کرتا ہے اور ہمسایہ ممالک میں دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے، تو یہ نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی امن کے لیے بھی خطرہ بن جاتا ہے۔ اگر اقوام متحدہ کا ادارہ ایسے رویوں کو نظرانداز کرتا رہا تو یہ ادارہ اپنی ساکھ کھو دے گا۔ پاکستان کے سیکنڈ سیکریٹری محمد راشد نے نہایت نپے تلے انداز میں اس بات کو واضح کیا کہ پاکستان ایک ذمے دار ریاست ہے جو امن، ترقی، باہمی احترام اور سفارت کاری پر یقین رکھتا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ بات چیت اور تعاون کو ترجیح دی ہے، لیکن اپنی خودمختاری اور سلامتی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا۔ اگر بھارت واقعی خطے میں امن چاہتا ہے تو اسے الزام تراشی کے بجائے خود احتسابی کی راہ اپنانی ہوگی۔ اسے چاہیے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم کو بند کرے، پاکستان کے خلاف خفیہ آپریشنز روکے، اور خطے میں برابری کی بنیاد پر امن و استحکام کے لیے کام کرے۔ محمد راشد کا خطاب محض ایک سفارتی جواب نہیں تھا بلکہ پاکستان کی طرف سے عالمی برادری کو ایک پیغام تھا کہ پاکستان اب خاموش نہیں رہے گا۔ سچائی، حقائق، اور دلیل کی بنیاد پر پاکستان اپنے موقف کو دنیا کے سامنے رکھے گا، چاہے مخالف کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں۔ بھارت کو چاہیے کہ وہ اس جرأت مندانہ اور مدلل جواب سے سبق حاصل کرے اور بین الاقوامی سفارتی اقدار کے مطابق رویہ اپنائے۔ اگر جنوبی ایشیا میں امن مقصود ہے تو اس کے لیے جنگ، جارحیت اور پروپیگنڈے سے نہیں بلکہ مکالمے، تعاون اور باہمی احترام سے ہی راستہ نکلے گا۔
ڈیزل اسمگلنگ کی کوشش ناکام
پاکستان کی معیشت کو کئی دہائیوں سے جو چیلنجز درپیش ہیں، ان میں ایک اہم مسئلہ اسمگلنگ بھی ہے۔ خاص طور پر ایرانی ڈیزل، چینی، کپڑا، موبائل فونز اور دیگر اشیاء کی اسمگلنگ سے ملکی ریونیو کو اربوں روپے کا نقصان پہنچتا ہے ۔ ایسے حالات میں کراچی میں کسٹمز انفورسمنٹ کلکٹریٹ کے میرین یونٹ کی جانب سے 80لاکھ روپے مالیت کے ایرانی ڈیزل کی اسمگلنگ کی کوشش ناکام بنانا، یقیناً بڑی کامیابی ہے۔ محکمہ کسٹمز نے نہ صرف 29ہزار 272لٹر اسمگلڈ ڈیزل ضبط کیا، بلکہ اسمگلنگ میں استعمال ہونے والی دو لانچیں بھی اپنی تحویل میں لے لیں، جن کی مالیت قریباً 2کروڑ 50لاکھ روپے ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر 3کروڑ 20لاکھ روپے مالیت کا غیر قانونی سامان ضبط کیا گیا۔ یہ کامیابی نہ صرف ادارے کی مستعدی کا ثبوت ہے بلکہ ملک کے سرکاری خزانے کو نقصان سے بچانے کی ایک عملی مثال بھی ہے۔ ایرانی ڈیزل کی اسمگلنگ ایک عرصے سے بلوچستان اور کراچی کے ساحلی علاقوں میں جاری ہے۔ یہ نہ صرف مقامی آئل مارکیٹ کو متاثر کرتی، بلکہ قومی خزانے کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچاتی ہے۔ جب بغیر ٹیکس کے تیل مارکیٹ میں دستیاب ہو تو قانونی طریقے سے کاروبار کرنے والے ادارے غیر مسابقتی حالات میں دھکیل دئیے جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ٹیکس نیٹ متاثر ہوتا ہے اور حکومت کی آمدن کم ہوجاتی ہے، جو عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر اثرانداز ہوتی ہے۔ یہ بات قابلِ ستائش ہے کہ کسٹمز انفورسمنٹ کلکٹریٹ نے جدید انٹیلی جنس اور بروقت کارروائی کے ذریعے اس اسمگلنگ کی کوشش کو ناکام بنایا۔ بحیرہ عرب جیسی وسیع سمندری حدود میں اسمگلنگ کی نگرانی ایک مشکل اور پیچیدہ عمل ہے۔ ایسے میں 29ہزار لٹر سے زائد اسمگلڈ ڈیزل اور قیمتی لانچوں کو پکڑنا بڑی کامیابی ہے جس پر محکمہ کسٹمز داد کا مستحق ہے۔ ضروری ہے کہ اسمگلنگ کے مکمل خاتمے کے لیے بین الادارہ جاتی تعاون کو مزید موثر بنایا جائے۔ نیوی، کوسٹ گارڈ، ایف آئی اے اور کسٹمز کو مل کر ایک جامع حکمت عملی مرتب کرنی چاہیے تاکہ ملک کی سمندری سرحدوں پر نگرانی مزید سخت ہو۔ ساتھ ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد کار بڑھانے اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔ کراچی میں کسٹمز کی حالیہ کارروائی اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر سنجیدگی اور پیشہ ورانہ صلاحیت کے ساتھ اسمگلنگ کے خلاف کام کیا جائے تو اس ناسور پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسے افسران اور یونٹس کی حوصلہ افزائی کرے اور ان کی کامیابیوں کو پالیسی سطح پر سراہا جائے، تاکہ دیگر اداروں کو بھی رہنمائی اور تحریک ملے۔

جواب دیں

Back to top button