Column

پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کا لائبریرین شپ کے فروغ میں کردار ( حصہ دوم)

پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کا لائبریرین شپ کے فروغ میں کردار ( حصہ دوم)
تحریر: شیر افضل ملک
پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن (PLA)کے قیام کے بعد تنظیمی استحکام کی جانب ایک اہم پیش رفت اُس وقت ممکن ہوئی جب رکنیت سازی کا مرحلہ کامیابی سے مکمل کر لیا گیا، اور اس کے بعد باقاعدہ انتخابات کا انعقاد عمل میں آیا۔ ان انتخابات کی نگرانی اور سربراہی ایک عظیم علمی شخصیت، ڈاکٹر محمود حسین مرحوم نے فرمائی، جن کی قیادت میں پاکستان بھر کے جید لائبریری ماہرین نے جمہوری طور پر عہدیداران منتخب کیے۔ اس پہلے انتخاب کے نتیجے میں جو قیادت منصہ شہود پر آئی، اس میں وہ افراد شامل تھے جنہوں نے نہ صرف لائبریری سائنس میں نمایاں علمی خدمات انجام دیں بلکہ عملی سطح پر لائبریری تحریک کو زندگی بخشی۔ منتخب قیادت درج ذیل پر مشتمل تھی، صدر: ڈاکٹر محمود حسین ( متفقہ طور پر منتخب)، نائب صدور: قاضی حبیب الدین احمد ( کراچی)، اے رحیم خان ( لاہور)، محمد صدیق خان ( ڈھاکہ)، سیکرٹری جنرل: ڈاکٹر عبدالمعید، اسسٹنٹ سیکرٹری: اختر ایچ صدیقی، خازن: عبیداللہ سیفی، مجلس عاملہ کے اراکین: خواجہ نور الٰہی، احمد حسین، ڈبلیو اے جعفری، ابن حسن قیصر، عبدالصبوح قاسمی۔ ان میں سے ہر فرد اپنے شعبے کا منجھا ہوا ماہر، علم دوست، نظریاتی بنیادوں پر قائم، اور لائبریری تحریک سے قلبی وابستگی رکھنے والا فرد تھا۔ خواجہ نور الٰہی مرحوم کے بارے میں معروف ماہرِ تعلیم ڈاکٹر حیدر لکھتے ہیں: خواجہ صاحب اس مملکتِ خداداد میں لائبریری تحریک کی بنیاد رکھنے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ اس تحریک کے ہر اول دستے کے سالار تھے، جنہوں نے علمی و تنظیمی سطح پر شاندار خدمات انجام دے کر آنے والی نسلوں کے لیے مثال قائم کی۔ ایسو سی ایشن کے آئین کے مطابق ابتدا میں اس کا صدر دفتر منتخب سیکرٹری کی رہائش گاہ پر قائم ہوتا تھا۔ تاہم جب بھی سیکرٹری اپنی ملازمت کے سبب شہر تبدیل کرتا، تو مرکز بھی ساتھ منتقل ہو جاتا، جس سے کئی تنظیمی مسائل جنم لیتے۔اسی پس منظر میں لاہور میں منعقدہ چوتھی سالانہ کانفرنس (26تا 29دسمبر 1961ئ) میں اصولی طور پر طے کیا گیا کہ مرکز ہر دو سال بعد مستقل بنیادوں پر کراچی، ڈھاکہ اور لاہور کے درمیان گردش کرے گا۔ لیکن 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد یہ نظام غیر موثر ہو گیا، جس کے نتیجے میں آئینی ترامیم ناگزیر ہو گئیں۔1973ء میں سوات میں منعقدہ نویں سالانہ کانفرنس (4۔5اگست 1973ئ) میں آئینی ترمیم کے ذریعے ڈھاکہ کی جگہ اسلام آباد کو مرکز قرار دینے، اور ساتھ ساتھ بلوچستان اور صوبہ سرحد ( موجودہ خیبر پختونخوا) کو تنظیمی ڈھانچے میں شامل کرنے کی تجویز پیش کی گئی۔ان سفارشات کی روشنی میں آئینی ترامیم کی منظوری دسویں سالانہ کانفرنس (31اگست تا 3ستمبر 1975ئ، لاہور) میں دی گئی۔ آئین کے آرٹیکل نمبر 2کے تحت فیصلہ کیا گیا کہ ایسوسی ایشن کا ہیڈکوارٹر اب ہر دو سال بعد اسلام آباد، لاہور، کراچی، کوئٹہ اور پشاور کے درمیان باری باری منتقل ہو گا، تاکہ قومی توازن اور اشتراک کو فروغ مل سکے۔ پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن نے سالانہ قومی کانفرنسوں کے انعقاد کو اپنا مرکزی ہدف قرار دیا۔ تاہم، مختلف وجوہات کی بنا پر یہ تسلسل برقرار نہ رہ سکا اور 1957ء سے 2012ء کے درمیان صرف 18قومی کانفرنسیں منعقد ہو سکیں۔
پہلی قومی کانفرنس 12جنوری 1958ء کو منعقد ہوئی، جس کا افتتاح اُس وقت کے صدرِ مملکت میجر جنرل اسکندر مرزا نے فرمایا، جبکہ صدارت ڈاکٹر محمود حسین نے کی۔ اس تاریخی موقع نے نہ صرف لائبریری پروفیشن کی عزت و توقیر میں اضافہ کیا بلکہ اسے پہلی مرتبہ عوامی اور حکومتی حلقوں میں شناسائی حاصل ہوئی۔ اخبارات، رسائل، اور علمی اداروں نے اس موقع پر لائبریری سائنس کے مقام کو تسلیم کیا۔ پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کی ان کانفرنسوں نے لائبریری سائنس کے فروغ، پالیسی سازی، اور پیشہ ورانہ مسائل کے حل میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کانفرنسوں میں:مقالہ جات نے لائبریری لٹریچر میں گراں قدر اضافہ کیا قراردادوں نے لائبریری پروفیشن کے لیے جہتیں متعین کیں، تجاویز کو حکومتی پالیسی میں شامل کیا گیا، لائبریری قانون کے نفاذ کے لیے کوششیں کی گئیں، لائبریری تعلیم، ملازمتوں، اور سروس اسٹرکچر کی بہتری پر اثر ڈالا گیا، اگرچہ لائبریری قانون کے نفاذ کی کوششیں تاحال مکمل کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکیں، تاہم اس ضمن میں ایسوسی ایشن کی جدوجہد اور عزم قابلِ تعریف ہے۔ ایسوسی ایشن کی کوششوں سے جن نمایاں اقدامات کا آغاز ممکن ہوا، ان میں شامل ہیں:قومی کتب خانہ کا قیام، ٹیکنیکل ورکنگ گروپ کی تشکیل، لائبریری تعلیم کے فروغ کے لیے اداروں کا قیام، پیشہ ورانہ ملازمتوں کے بہتر مواقع اور تنخواہوں میں بہتری، قومی سطح پر علمی سرگرمیاں، پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن نے نہ صرف قومی کانفرنسوں کا انعقاد کیا بلکہ متعدد سیمینارز، ورکشاپس، لائبریری ویک، تربیتی کورسز بھی ملک کے مختلف شہروں میں منعقد کیے، جو لائبریرینز کے پیشہ ورانہ ارتقائ، فکری بیداری، اور قومی سطح پر ہم آہنگی کے فروغ کا باعث بنے۔ پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کا سفر اگرچہ چیلنجز سے عبارت رہا، لیکن یہ بات بہرحال تسلیم شدہ ہے کہ اس ادارے نے لائبریری سائنس، پیشہ ورانہ ہم آہنگی، اور قومی تعلیمی پالیسی سازی میں جو کردار ادا کیا، وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔

جواب دیں

Back to top button