Uncategorized

کیا عالمی برادری اسرائیل کو روک پائے گی؟

کیا عالمی برادری اسرائیل کو روک پائے گی؟
کالم نگار:امجد آفتاب
مستقل عنوان:عام آدمی
فلسطینی ریاست اُس وقت سے قائم ہے جب اسرائیل کا نام و نشان بھی نہیں تھا،بلکہ یہی فلسطینی ہی تھے جنہوں نے یہودیوں کو رہنے کیلئے جگہ دی لیکن ان کو کیا معلوم تھا کہ اُن کیلئے کی ان اپنی سرزمین پر ہی جگہ تنگ کر دی جائے گی ۔فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری کے بعد سے ہی یہودی جبر اور تسلط روز بروز بڑھتا گیا۔1967ء میں گولان کی پہاڑیوں سے لیکر مغربی کنارے تک یہودی قابض ہوتے چلے گئے ۔ فلسطینیوں کی ان کے علاقوں سے جبری بے دخلی کا سلسلہ اب تک جاری ہے اور اب یہ سلسلہ کرہ ارض پر مظالم کی نئی تاریخ رقم کر رہا ہے۔ جدید سفارتی تاریخ میں فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کی مہم 1988ء میں شروع ہوئی۔ چار فروری 1988ء کو ایران نے سب سے پہلے فلسطین کی بطور آزاد ریاست تسلیم کیا۔15نومبر 1988ء کو فلسطین لبرین آرگنائزیشن کے سربراہ یاسر عرفات نے آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کا اعلان کیا تو 13ممالک نے اُسی وقت جبکہ اگلے روز 16نومبر 1988ء کو پاکستان سمیت 12دیگر ممالک نے فلسطین کی خود مختاری تسلیم کر لی۔
اکتوبر 2023ء سے غزہ پر اسرائیلی وحشیانہ حملوں کے بعد سے 14دیگر ممالک نے بھی فلسطین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے۔ اس دوران برطانیہ جیسے اہم ملک نے فلسطین کا نقشہ بھی پیش کر دیا، جس میں اسرائیلی قابض علاقوں کو فلسطین کا حصہ دکھایا گیا۔ برطانیہ، آسٹریلیا، کینڈا، پُرتگال، ناروے، سپین اور فرانس جیسے اہم ملک سمیت اب تک 150 سے زائد ممالک فلسطین سے سفارتی تعلقات قائم کر چکے ہیں۔ اقوام متحدہ میں 193رکن ممالک میں سے فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنے والے ممالک کی تعداد 150سو سے زائد ہو چکی ہے ۔
حالیہ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے جاری 80ویں اجلاس میں رکن ممالک کے تقریبا تمام سربراہ شریک ہیں۔ ان تمام ممالک اور ان کے سربراہان کو جو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ فلسطین میں قیام امن کا ہے۔ اسی تناظر میں سعودی عرب اور فرانس کی قیادت میں مسئلہ فلسطین کیلئے اہم کانفرنس منعقد کی گئی، جس میں مشرق وسطیٰ کیلئے امن کی راہ ہموار کر دی۔ اس کانفرنس کے مرکزی خطاب میں فرانس کے صدر ایمانول میکرون نے واضح طور پر کہا کہ مزید انتظار نہیں کر سکتے۔ مسئلہ فلسطین کے پُر امن حل کا وقت آ گیا ہے اب غزہ میں مزید جنگ جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔ اسرائیل اور فلسطین پر امن سلامتی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ میں مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے سائیڈ لائن پر بھی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ دنوں نیویارک میں آٹھ مسلم ممالک کے سربراہان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کر کے مشرق وسطیٰ بالخصوص فلسطین کی صورتحال پر خصوصی تبادلہ خیال کیا۔ پاکستان، ترکیہ، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، مصر، اردان اور انڈونیشیا کے رہنمائوں نے غزہ جنگ بندی اور فلسطینی عوام کی مدد کیلئے امریکی صدر ٹرمپ سے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔ ملاقات کے بعد امریکی صدر ٹرمپ اور ترک صدر اردگان نے ملاقات کو نہایت مفید اور مثبت قرار دیا۔ ویسے ایک بات تو عیاں ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے جنرل اسمبلی سے کیے گئے خطاب اور دیگر بیانات سے یہ تاثر ضرور ملتا ہے کہ امریکہ جنگ بندی سے قبل اسرائیلی قیدیوں کی رہائی چاہتا ہے، حالانکہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی میں سب سے بڑی رکاوٹ خود اسرائیل ہے۔ جس کی واضح مثال رواں سال جنوری اور مارچ میں دوبار قیدیوں کی مرحلہ وار رہائی اور عارضی جنگ بندی کی اسرائیل نے خود خلاف ورزی کی ۔اسی طرح اسرائیل نے قطر میں اُس مذاکراتی ٹیم کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جو قیدیوں کی رہائی اور امن معاہدے کی بات چیت کر رہی تھی۔ ان حملوں سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ دہشت گرد ریاست اسرائیل کو اپنے مذموم مقاصد حاصل کیلئے خطے میں امن کسی صورت گورا نہیں۔ فلسطین میں امن قائم کرنے کی سب سے بڑی ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے کیونکہ بقول فرانسیسی صدر میکرون کہ غزہ میں اسرائیل کو لڑنے کیلئے اسلحہ امریکہ فراہم کرتا ہے، امریکی صدر کی ہدایت پر غزہ میں جنگ بندی کی قرار داد چھ بار ویٹو ہو چکی ہے لہذا امریکی صدر اگر واقعی نوبل امن انعام کی حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو انہیں غزہ میں ہر صورت جنگ بند کرانی چاہئے۔

جواب دیں

Back to top button