متوقع دورہ پاکستان

متوقع دورہ پاکستان
محمد مبشر انوار
مثل مشہور ہے کہ کامیابی کے سیکڑوں باپ ہوتے ہیں اور ناکامی ہمیشہ یتیم ہوتی ہے، اس میں قطعا کوئی شک نہیں کہ دنیا ہمیشہ کامیاب لوگوں کے ساتھ چلنا ہی پسند کرتی ہے اور انہی کے ساتھ میل جول رکھنا پسند کرتی ہے۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال اس مثل کی بھرپور عکاسی کرتی ہے گو کہ پاکستان کی معاشی صورتحال اتنی قابل ستائش نہیں کہ اس کی بنیاد پر دنیا اس سے محبت کی پینگیں بڑھائے یا عالمی سطح پر اس کی بہت زیادہ پذیرائی کی جائے لیکن دفاعی معاملے میں ،جیسے ہی پاکستان کو ماضی کی نسبتا تھوڑی سے گنجائش ملی، پاکستان نے اپنی دفاعی صلاحیت و حیثیت و اہلیت و قابلیت کا اس قدر بھرپور اظہار کیا کہ دنیا انگشت بدنداں ہی نہیں رہی بلکہ اقوام عالم کی پاکستان کے ساتھ قربتوں کو جیسے پر لگ گئے ہوں اور اقوام عالم پاکستان پر نثار ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ غیر مسلم ممالک میں سب سے زیادہ قربت کا اظہار چین کی طرف سے ہے کہ درحقیقت پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کے عمل اظہار پر سب سے زیادہ خوشی اور فائدہ ریاست چین کو ہوا ہے، اس کی تفصیل میں جانے کی چنداں ضرورت اس لئے نہیں کہ اس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ کس طرح چین کی ٹیکنالوجی نے مغربی ٹیکنالوجی و دفاعی سبقت و غرور کو زمین بوس کیا ہے، اس میں پاکستانی ہوا بازوں کی لیاقت و ہنر مندی و جذبہ ایک انتہائی اہم جزو ہے۔ جب کہ دیگر مغربی ممالک کے لئے، پاکستان کی اہلیت و قابلیت کو ہضم کرنا اتنا آسان نہیں ہے لیکن اس کے باوجود، سفارتی آداب کہیں یا دہرا معیار کہیں کہ ان مغربی ممالک کے لئے پاکستان کی تعریف و توصیف کے علاوہ کوئی چارہ کار باقی نہیں کہ ان تمام ممالک کے نزدیک بھارت کے ساتھ پاکستانی موازنہ بنتا ہی نہیں اور اقوام عالم اپنے طور یہ تصور کئے بیٹھی تھی کہ پاکستان کسی بھی صورت بھارتی جارحیت کا مقابلہ نہیں کر سکتا کہ طاقت کا توازن کیا ہی نہیں جا سکتا۔ یہی وجہ تھی کہ ابتدائی چار دنوں میں بھارتی جارحیت پر اقوام عالم معنی خیز و شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ پاکستان کو تحمل و برداشت کا مشورہ دے رہی تھی جبکہ دوسری طرف درون خانہ بھارت کو مسلسل شہہ دی جارہی تھی کہ اسے ہر طرح کی جارحیت کی کھلی چھٹی ہے تاہم جیسے ہی امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے باقاعدہ اعلان ہوا کہ یہ دو ریاستوں کا باہمی معاملہ ہے، اس لئے امریکہ اس میں نہیں کودے گا، تو جیسے بلی کے بھاگوں چھیکا ٹوٹا اور پاکستان کو اپنے بازو کھولنے کا پروانہ ملا، دنیا نے پاکستان کا نیا روپ دیکھا۔ پاکستان کو بخوبی علم ہے کہ بھارت نے کبھی بھی پاکستان کو تسلیم نہیں کیا ،گو کہ اٹل بہاری واجپائی کی جانب سے دورہ پاکستان کے موقع پر اس امر کا اظہار کیا گیا لیکن بعد ازاں کارگل واقعہ نے اس حقیقت کو پھر پس پشت ڈال دیا جبکہ نریندر مودی کی سوچ روز اول سے ہی اکھنڈ بھارت کی رہی ہے، اور ہمیشہ پاکستانی سالمیت و بقاء کو گزند پہنچانے کے مواقع کی تلاش میں رہے ہیں بلکہ ایسے مواقع تراشنے میں بھی انہیں ملکہ حاصل رہا ہے ،خواہ ایف اے ٹی ایف ہو یا سرزمین پاکستان میں کھیلوں کے میدان سونے کرنے ہوں، وہ کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ کھیلوں کے میدان کے حوالے سے، ایک اور اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان بہرطور ایشیا کپ 2025کے فائنل میں پہنچ چکا ہے، جہاں اس کا مقابلہ آج پھر بھارت سے ہونے جا رہاہے، بھارتی کھلاڑیوں اور کپتان نے جس طرح کا رویہ کھیل کے میدان میں اپنایا ہے، اس سے ان کی اپنی ہی جگ ہنسائی ہوئی ہے تاہم باوجود یکہ بھارتی کرکٹ ٹیم اپنی سلیکشن میں اس وقت کرکٹ کے نقطہ نگاہ سے ایک بہترین ٹیم ہے لیکن میدان میں پھر بھی امپائر کے ساتھ ہی کھیلتی ہے، جس کی واضح مثال سپر فور میچ میں فخر زمان کا غلط آئوٹ ہے۔ بہرطور جو طوفان بدتمیزی اس وقت کرکٹ کے میدانوں میں بھارتی کرکٹ بورڈ اور اس کے کھلاڑیوں کے جانب سے جاری ہے، مجھے ایک بار پھر 2017ء کی چمپئنز ٹرافی کی یاد دلاتی ہے، جب بھارتی خود کو پاکستان کا باپ کہلاتے نہیں تھکتے تھے لیکن فائنل میں پاکستانی ٹیم نے وہ بھرکس نکالا تھا کہ ساری عمر یاد رکھا جائیگا۔ میری دانست میں آج بھی کرکٹ کے میدان میں وہی صورتحال ہو چکی ہے کہ بھارت جس طرح آپے سے باہر ہو رہا ہے اس کا جواب میدان میں بخوبی دینے کی اہلیت پاکستانی ٹیم ہمیشہ رکھتی ہے بشرطیکہ اس پر مصالحت یا مفاہمت یا دبائو نہ ہو، تو آج بھی پاکستان، بہترین بھارتی کرکٹ ٹیم کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ رہی بات پاکستان کرکٹ بورڈ کی تو ساری دنیا کو علم ہے کہ اس وقت پاکستانی بورڈ، پاکستانی کرکٹ کی نسبت ذاتی بغض و عناد و انا کا شکار ہے وگرنہ اس سے بہتر پاکستان ٹیم منتخب کی جاسکتی تھی، اس پر تفصیل سے لکھا جا سکتا ہے اور یہ بھی برسبیل تذکرہ، آج کے فائنل کی نسبت یہاں تحریر کیا ہے۔
بہرطور پاکستانی معیشت کے اشارئیے کئی دہائیوں سے انتہائی پریشان کن ہیں، خواہ حکومتیں جتنے بھی دعوے کرتی رہی کہ پاکستانی معیشت سنبھل چکی ہے یا حزب اختلاف کا دعوی کہ پاکستانی معیشت تنزلی کا شکار ہے، حقیقت یہ ہے کہ عالمی طاقتیں پاکستان کو ہمیشہ معاشی دباؤ میں رکھنا پسند کریں گی کہ یہی ان کی حکمت عملی ہے۔ آج کی صورتحال دیکھیں تو یہ حقیقت واضح ہے کہ مشرق وسطی کی مضبوط معاشی ریاستوں کی بہترین معیشت کے باوجود، ان کا ایک دفاع انتہاءی غیر محفوظ تصور ہوتا ہے گو کہ ان کے پاس دنیا کا بہترین اسلحہ موجود ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے دفاع کے لئے غیر مسلموں کے محتاج دکھائی دیتے ہیں۔ یہ صورتحال اس وقت اور تشویشناک ہو جاتی ہے کہ جب انہیں اپنے قرب میں ایک ناجائز اسرائیلی ریاست کا سامنا ہے، جس کی نظر میں نہ تو عالمی قوانین کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی اس کے نزدیک جنگی قوانین کا پاس اہم ہے، اسرائیل کے نزدیک صرف اور صرف ان کی ہٹ دھرمی اور ’’ گریٹر اسرائیل‘‘ اہم ہے، جس کی خاطر وہ کچھ بھی کر گزرنے کے لئے تیار ہے۔ دوسری طرف عرب ریاستیں، خوف کے عالم میں اسرائیلی دھمکیوں و جارحیت کے جواب میں صم بکم کی کیفیت کا شکار دکھائی دیتی ہیں کہ ایک طرف انہیں امریکی اجازت درکار ہے تو دوسری طرف ماضی کے خوف سے نہیں نکل پاتی۔ اس پس منظر میں پاک سعودی حالیہ ڈیفنس معاہدے کے بعد، کئی ایک منچلوں نے سوشل میڈیا پر خوش گمانیوں سے بھرپور بے شمار پوسٹس لگا رکھی ہیں، جس میں پوچھا گیا ہے کہ کیا اس معاہدے کے بعد پاکستانی قرض بھی سعودی عرب کا قرض شمار ہو گا؟ یا پاکستانی معیشت کو سعودی عرب بہتر کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے گا؟، ایسی بے شمار پوسٹ نظر سے گزریں اور افسوس ہوا کہ ہم بھی کیا لوگ ہیں کہ اپنا حلیہ بگاڑنے میں کسی تامل سے کام نہیں لیتے اور اس کی بہتری، جو ہمیں خود کرنی ہے، اس کے لئے بھی غیروں کی جانب دیکھتے ہیں۔ اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور یہاں کی حکومت واقعتا چاہتی ہے کہ ہم معاشی اعتبار سے مضبوط ہوں کہ ہماری ایٹمی صلاحیت دو آتش ہو سکتی ہے اگر ہم معاشی طور پر بھی مضبوط ہو جائیں لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ ہم معیشت میں روزبروز ترقی معکوس کا شکار ہیں،سعودی عرب اس ترقی معکوس کی وجوہات سے بخوبی واقف ہیں، جس کے باعث ممکنہ طور پر انہوں نے حکومتوں کی مدد کرنا کم کر رکھی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ دو سال قبل فیلڈ مارشل عاصم منیر کی جانب سے اٹھائے گئے اقدام پر امید پیدا ہوئی تھی کہ پاکستانی معیشت بہتر ہو گی، جب ڈالر کی قیمت تین سو سے تجاوز کر چکی تھی، ڈالرز مافیا کے خلاف اقدامات کئے گئے تھے لیکن وہ بھی چند دن چلے اور پھر کسی کو خبر نہیں کہ اس مہم کا کیا ہوا کہ تب یہ امید دلائی گئی تھی کہ ڈالر اپنی اصل قیمت، تقریبا دو سو تک ہو جائے گا مگر تاحال ڈالر کی قیمت تقریبا 283پر ہے، اس صورتحال میں ملکی معیشت کیسے پنپ سکتی ہے کہ پیداواری لاگت حد سے زیادہ ہے۔
بہرکیف شنید ہے کہ حالیہ معاہدے کے بعد، سعودی ولی عہد و وزیراعظم کا دورہ پاکستان بھی جلد متوقع ہے جہاں وہ سرمایہ کاری کا آغاز کرنے جارہے ہیں، جس میں بڑی سرمایہ کاری کے لئے آئل ریفائنری، جس کا اعلان و وعدہ وہ اپنے گزشتہ دورہ پاکستان میں کر چکے ہیں، کا منصوبہ ہے، جس سے یقینی طور پر پاکستان میں روزگار کے مواقع میسر آئیں گے لیکن کیا دس ارب ڈالر کی اس سرمایہ کاری سے پاکستانی معیشت اپنے پائوں پر کھڑ ی ہو جائیگی؟ پاکستانی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے لئے، کئی جہتوں پر، ہنگامی بنیادوں پر بیک وقت کام کرنے کے ضرورت ہے، جن میں اہم ترین پیداواری شعبہ کو سستی ترین بجلی کی فراہمی، ڈالر کی قیمت میں استحکام و کمی، شرح ٹیکس میں تسلسل و استحکام ضروری ہے، فقط سعودی ولی عہد و وزیراعظم کے متوقع دورہ پاکستان پر دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستانی معیشت کا علاج نہیں ہے۔





