CM RizwanColumn

سیلاب زدگان کی امداد اور سیاسی تضاد

جگائے گا کون؟
سیلاب زدگان کی امداد اور سیاسی تضاد
تحریر: سی ایم رضوان
ناداں گر گیا سجدے میں جب وقت قیام آیا۔۔۔ کے مصداق ہمارے سیاستدانوں اور سیاسی نظام کا المیہ یہ ہے کہ جب ایمرجنسی کام اور ہنگامی نوعیت کی ذمہ داری نبھانے اور حکومتی فرض شناسی دکھانے کی ضرورت پڑتی ہے تو ہمارے حکمران سیاستدان باہمی جھگڑوں اور سیاست بازی میں الجھ جاتے ہیں یا پھر شاہد رائے عامہ کو الجھانے کے لئے سیاسی مخالفتوں اور عداوتوں کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں۔ نتیجتاً اصل کام کھٹائی میں پڑ جاتا ہے اور عوامی حقوق کھوہ کھاتے چلے جاتے ہیں۔ اس کے بعد کوئی دوسرا ایشو سامنے آ جاتا ہے اس میں بھی ایسی ہی کارروائی کی جاتی ہے اور عوام بیچارے رل جاتے ہیں۔ ہمارے ساتھ پچھلے 75سال سے یہی ہوتا آ رہا ہے اس معمول سے نوبت اب یہ آ گئی ہے کہ عوام کی اکثریت بھوک افلاس اور مسائل و مصائب میں مستقل طور پر گرفتار ہو گئے ہیں اور اشرافیہ موجیں کر رہے ہیں۔ اب سیلاب زدگان کی مدد کے معاملے کو ہی لے لیجئے کہ اس معاملے پر دو صوبوں اور دو مرکز میں اتحادیوں کے مابین بیاناتی سر پھٹول سامنے آ گئی ہے کہ گزشتہ دنوں ایک بار پھر چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے سیلاب زدگان کی مدد کا مطالبہ کیا تو پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے جمعرات کو ڈیرہ غازی خان میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی پر صوبے میں سیلاب کو سیاسی رنگ دینے کا الزام عائد کیا جس کے جواب میں بلاول بھٹو سمیت دیگر پی پی رہنماں نے بھی مخالفانہ اور طنزیہ بیانات دیئے حالانکہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے ( این ڈی ایم اے) کے مطابق پاکستان میں جون کے وسط سے شروع ہونے والی مون سون بارشوں اور بعد ازاں سیلابی ریلوں کے نتیجے میں ایک ہزار سے زائد افراد جان سے جا چکے ہیں اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہیں جبکہ مال مویشی اور املاک کا بھی کافی نقصان ہوا ہے۔ بہرحال پی پی رہنماں کے جواب میں مریم نواز نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ پیپلز پارٹی ہماری اتحادی ہے اور میں ان کا احترام کرتی ہوں لیکن بدقسمتی سے انہوں نے پنجاب میں سیلاب کو سیاسی بنایا۔ مجھے ان کے ایجنڈے کا علم نہیں، لیکن میں صدر آصف زرداری اور چیئرمین بلاول سے کہنا چاہتی ہوں کہ خدارا اپنی پارٹی کے ترجمانوں کو سمجھائیں کہ اگر خدا نخواستہ سندھ میں کوئی آفت آتی ہے تو پنجاب ان کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج کل بات کی جا رہی ہے کہ امداد بی آئی ایس پی کے ذریعے دی جائے۔ میں ان پر تنقید نہیں کرنا چاہتی لیکن وہ اس پروگرام کے تحت صرف 10ہزار روپے دیتے ہیں، جبکہ میں ( سیلاب متاثرین کو) 10لاکھ روپے دوں گی۔ انہوں نے سوال کیا کہ جو لوگ اپنے گھر، مویشی اور فصلیں کھو بیٹھے ہیں وہ محض 10ہزار روپے سے کیا کریں گے؟ انہوں نے کہا کہ وہ تباہ شدہ گھروں کو دوبارہ تعمیر کرنا اور فصلوں کا معاوضہ دینا چاہتی ہیں، لیکن بی آئی ایس پی اتنی رقم نہیں دیتا۔ بین الاقوامی امداد نہ لینے پر کی جانے والی تنقید پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ پاکستان کب تک عالمی برادری سے امداد کی بھیک مانگتا رہے گا؟
یاد رہے کہ اس سے قبل بلاول بھٹو زرداری نے ایک پریس کانفرنس میں ایک بار پھر کراچی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ متاثرین کی مدد کو انا کا مسئلہ کیوں بنا لیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ بلاول کا یہ مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حکومت ملک میں حالیہ بارشوں اور سیلاب سے ہونے والے شدید نقصانات سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بلاول نے کہا ک وفاق اپنی پالیسی پر نظر ثانی کر کے سیلاب متاثرین کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے مدد فراہم کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ حکومت کسانوں کو جو پیکیج دے رہی ہے، اگر اس میں وفاق سپورٹ کرتا ہے تو ہم مزید چیزیں بھی کور کر لیں گے۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ سیلاب سے نقصان صرف پنجاب میں نہیں ہوا۔ ہم خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کو بھی نہیں بھول سکتے، اس لئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام وہ واحد طریقہ ہے جس سے وفاقی حکومت متاثرین کو فوری طور پر مدد پہنچا سکتی ہے۔ صرف بلاول ہی نہیں بلکہ ان کی بہن آصفہ بھٹو کا بھی یہی کہنا اور ماننا ہے کہ بینظیر انکم سپورٹ امداد پہنچانے کا سب سے تیز اور موثر طریقہ ہے۔ آصفہ بھٹو نے بدھ کو ایکس پر لکھا کہ 40لاکھ سے زائد لوگ پنجاب میں سیلاب سے متاثر ہوئے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام امداد تقسیم کرنے کا سب سے تیز اور موثر طریقہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کے اہم اداروں سے فائدہ نہ اٹھانا جن کے پاس ڈیٹا بھی ہے اور امداد پہنچانے کی صلاحیت بھی ہے، غیر دمہ دارانہ ہو گا۔
دوسری جانب وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ سیلاب زدگان کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے مدد فراہم نہیں کی جا سکتی کیونکہ جو ببنظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ ہی نہیں انہیں امداد کیسے دی جائے؟ عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پنجاب میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب آیا، حکومتِ پنجاب اپنے وسائل سے سیلاب متاثرین کی مدد کر رہی ہے، ہمیں بیرونی امداد کا انتظار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کا ریلیف کارڈ بنے گا تاکہ کسی کو لائن پر نہ لگنا پڑے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ایک قانون کے تحت بنا تھا، ہر چیز پر سیاست اچھی نہیں ہوتی۔
دوسری جانب حالیہ شدید سیلاب کے بعد پنجاب میں بڑے پیمانے پر متاثر ہونے والے افراد کے ریسکیو اور ریلیف کا کام پنجاب حکومت کر رہی ہے، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی بڑی جماعت ہونے کے باوجود پنجاب میں سیلاب سے تباہ کاری کے بعد ریلیف اور ریسکیو میں حصہ لیتی نظر نہیں آتی۔ ایسے میں اپنی جماعت کی فیس سیونگ کے لئے اور اس تاثر کو حاصل کرنے کے لئے کہ پیپلز پارٹی نے مشکلات میں پنجاب کے لوگوں کے لئے بار بار مطالبہ کیا۔ اس لئے بلاول بھٹو بار بار یہ مطالبہ کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس نوعیت کا مطالبہ کرنے سے ایک تو پنجاب کے عوام میں یہ تاثر جائے گا کہ بلاول نے ان کے لئے آواز بلند کی اور دوسرا کیونکہ اس انکم سپورٹ کارڈ کا نام بینظیر بھٹو کے نام سے ہے تو عوام میں یہ تاثر جائے گا کہ یہ امداد پیپلز پارٹی نے دی ہے۔ دوسرا یہ کہ بینظیر انکم سپورٹ کے ذریعے مالی امداد وفاقی حکومت نے کرنی ہے تو بلاول پنجاب کے متاثرین کی اس کارڈ سے مالی امداد کے ساتھ سندھ کے لئے بھی امداد لینا چاہتے ہیں، جہاں صوبائی حکومت ان کی جماعت کی ہے۔
لہٰذا جب بلاول بھٹو کے اس نوعیت کے مطالبے بڑھ گئے تو وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی سیلاب پر سیاست کر رہی ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ دنیا کے آگے ہاتھ پھیلاو?، حالانکہ کوئی خوددار شخص یہ بات کیسے کر سکتا ہے؟، انہوں نے کہا کہ ہم پنجاب کو سنبھال لیں گے آپ اپنا مشورہ اپنے پاس رکھیں، میں نواز شریف کی بیٹی ہوں، امداد کیلئے ہاتھ کبھی نہیں پھیلائوں گی، بی آئی ایس پی پر بھی کوئی تنقید نہیں کرنا چاہتی، لیکن جس کا لاکھوں کا نقصان ہوا اس کا 10ہزار روپے سے کیا ہوگا۔ ہم 10لاکھ روپے دیں گے، انہوں نے کہا کہ آصف زرداری میرے بزرگ، بلاول چھوٹا بھائی ہے۔ وہ اپنے ترجمانوں کو سمجھائیں۔ سندھ میں کیا حال ہے، اس پر بات نہیں کرنا چاہتی، شدید الفاظ استعمال کرتے ہوئے انہوں یہ بھی کہا کہ پنجاب کی طرف اٹھنے والی انگلی توڑ دوں گی۔ یہ بھی کہا کہ جنوبی پنجاب کی لکیر کھینچنے والوں کو صرف اقتدار سے غرض ہے، یہ ہم میں سے نہیں۔
پچھلے دنوں پاکستان کے طول و عرض میں آنے والے سیلاب نے جس طرح تباہی مچائی ہے اسے اگر ایک انسانی المیہ کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا۔ گو کہ اب پانی اتر گیا ہے۔ متاثرین اپنے علاقوں میں واپس آ گئے ہیں مگر ان کے گھر مسمار ہو چکے ہیں۔ مال و متاع لٹ چکا ہے۔ متعدد متاثرین کے کئی پیارے ڈوب کر اگلے جہان جا چکے ہیں۔ ان حالات میں شدید ضرورت تو اس امر کی ہے کہ جیسے بھی ہو سکے، جس ذریعہ سے بھی ہو سکے ان متاثرین کی فوری، موثر اور مستقل نوعیت کی امداد، بحالی اور آبادکاری ہو جائے مگر معاملہ اس کے برعکس یہ ہو گیا ہے کہ دو بڑے متاثرہ صوبوں کے حکمرانوں بلکہ وفاق کے دو بڑے اتحادیوں کے متضاد بیانات کے بعد یہ سوال پیدا ہو رہے ہیں کہ متاثرین کی امداد کیسے اور کون کرے گا جبکہ متاثرین بے یارو مددگار کھلے آسمان تلے بھوکے پیاسے پڑے ہوئے ہیں۔ ایسے میں سیلاب زدگان کی مدد کے حوالے سے اس بڑے تضاد کو دو بڑے ذمہ داران کی مجرمانہ غفلت اور غیر ذمہ دارانہ انداز حکمرانی ہی کہنا چاہئے۔ ضرورت اس امر کی کہ دونوں صوبوں کے یہ نوخیز حکمران ہوش کے ناخن لیں اور اپنے اپنے صوبہ میں مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کو ترجیح دیں نہ کہ روایتی مخالفانہ سیاست کو۔

جواب دیں

Back to top button