Column

وزیراعظم کی بھارت کو مذاکرات کی دعوت

وزیراعظم کی بھارت
کو مذاکرات کی دعوت
وزیرِاعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں نہ صرف پاکستان کا موقف عالمی برادری کے سامنے واضح انداز میں پیش کیا، بلکہ عالمی سیاست، امن، انصاف اور انسانیت کے بنیادی اصولوں کو اجاگر کرتے ہوئے ایک ایسا بیانیہ ترتیب دیا جو تاریخ میں ایک جرأت مند اور مدلل خطاب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر کا آغاز قرآن مجید کی ایک آیت سے کرتے ہوئے اسلامی اقدار اور انصاف کے پیغام کو بنیاد بنایا۔ انہوں نے فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیل کی حالیہ جارحیت کو نہ صرف بے نقاب کیا، بلکہ اسے عالمی ضمیر پر ایک بدنما داغ قرار دیا۔ غزہ پر جاری اسرائیلی حملوں کو بے نقاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اس ظلم و بربریت کے خلاف عملی اقدامات کرے، محض بیانات اور قراردادیں اب کافی نہیں۔ وزیراعظم نے مئی میں بھارتی جارحیت کا تفصیل سے تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51کے تحت اپنا حقِ دفاع استعمال کیا۔ انہوں نے آپریشن ’’بنیان مرصوص’’ کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان نے دشمن کو فیصلہ کن اور تاریخی جواب دیا، جسے آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ہم جنگ جیت چکے، بھارت کے ساتھ جامع اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ وزیراعظم نے اس موقع پر پاک افواج، خصوصاً فیلڈ مارشل عاصم منیر اور ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر کی قیادت میں مسلح افواج کی بہادری، پیشہ ورانہ صلاحیت اور حب الوطنی کو سراہا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جنرل اسمبلی کے ہال میں ’’ پاکستان زندہ باد’’ کے نعرے گونج اٹھے، ایک تاریخی لمحہ جو نہ صرف پاکستان کے وقار کا اظہار تھا بلکہ عالمی برادری کو یہ پیغام بھی کہ پاکستان اپنے دفاع میں ہر حد تک جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں شہداء اور ان کے لواحقین کو خصوصی خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ شہداء کے لہو سے قوم کا مستقبل روشن ہوا ہے اور ان کی مائوں کا حوصلہ ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ یہ جذباتی اور پر اثر پیغام اس امر کا ثبوت ہے کہ پاکستان کی قیادت اپنے ان سپوتوں کو نہیں بھولی جو مادرِ وطن کی خاطر قربان ہوئے۔ شہباز شریف نے بھارت کی طرف سے شہری علاقوں پر حملے، سرحدوں کی خلاف ورزی اور سندھ طاس معاہدہ کی معطلی جیسے اقدامات کو بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت طاقت کے نشے میں اندھا ہوچکا، لیکن پاکستان نے ہر فورم پر صبر، برداشت اور امن کی پالیسی کو ترجیح دی ہے۔ تاہم، پاکستان نے اپنے دفاع کا حق استعمال کیا اور عالمی برادری کو بتایا کہ صبر کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ وزیراعظم نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تمام تنازعات، بشمول مسئلہ کشمیر پر، جامع اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ لیکن ان مذاکرات کی شرط باہمی احترام اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں انصاف پر مبنی حل ہے۔ انہوں نے کشمیر کو جنوبی ایشیا کے لیے فلیش پوائنٹ قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ بھارت کے ظلم و ستم کا خاتمہ جلد ہوگا اور کشمیریوں کو ان کا حقِ خودارادیت ضرور ملے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے غزہ پر اسرائیلی حملوں، فلسطینی عوام کے خلاف ہونے والی بربریت اور مغربی کنارے میں دہشت گرد یہودی آبادکاروں کی سرگرمیوں کی کھل کر مذمت کی۔ انہوں نے فلسطین کے مسئلے کو دورِ حاضر کا سب سے بڑا انسانی سانحہ قرار دیا اور کہا کہ پاکستان ان اولین ممالک میں شامل ہے، جنہوں نے فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ 1967ء سے پہلے کی سرحدوں کے مطابق ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم کی جائے، جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔ شہباز شریف کا یہ دوٹوک موقف دنیا کو یہ یاد دلاتا ہے کہ پاکستان عالمی انصاف، انسانی حقوق اور آزادی کے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ وزیراعظم نے بلوچستان میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملوں، خصوصاً جعفر ایکسپریس حملے کا ذکر کرتے ہوئے، بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کے کردار کو بے نقاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’فتنہ الہندوستان’’ کے ہرکارے، بشمول بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کو افغانستان سے پناہ اور تعاون حاصل ہے، جو پاکستان کی خودمختاری پر ایک حملہ ہے۔ شہباز شریف نے واضح کیا کہ پاکستان ایک پُرامن، مستحکم اور خوشحال افغانستان کا خواہاں ہے، لیکن پاکستان اپنی قومی سلامتی پر کسی قیمت پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ وزیراعظم کا خطاب صرف علاقائی یا قومی مسائل تک محدود نہ تھا، بلکہ انہوں نے عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے تنازعات، قوانین کی خلاف ورزی، دہشت گردی اور جعلی خبروں جیسے جدید خطرات پر بھی روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا آج ایک سنگین دوراہے پر کھڑی ہے، جہاں انصاف، سچائی اور امن کو نئے خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بروقت مداخلت سے جنگ بندی کے قیام پر ان کا شکریہ ادا کیا اور تجویز دی کہ ٹرمپ کے کردار پر انہیں نوبل انعام دیا جائے۔ یہ ایک سفارتی قدم بھی تھا اور امریکا کے ساتھ تعلقات کی اہمیت کا اظہار بھی۔ وزیراعظم شہباز شریف کا یہ خطاب پاکستان کے عالمی بیانیے کی ایک نئی اور جرأت مند تشکیل ہے۔ اس میں ایک طرف عالمی برادری کو انصاف، امن اور انسانیت کے تحفظ کا پیغام دیا گیا، تو دوسری جانب پاکستان کے دشمنوں کو صاف الفاظ میں باور کرایا گیا کہ پاکستان دفاعی طور پر تیار، سفارتی طور پر مضبوط اور اصولی موقف میں غیر متزلزل ہے۔ شہباز شریف نے اپنی تقریر سے واضح کردیا کہ پاکستان ایک پُرامن مگر باوقار قوم ہے، جو دشمن کی ہر سازش کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے اور دنیا کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ شراکت دار ہے۔
ایشیا کپ: پاکستان، بھارت
آج فائنل میں مدمقابل
ایشیا کپ 2025کا فائنل آج پاکستان اور بھارت کے درمیان تاریخی مقابلے کی صورت اختیار کرنے جارہا ہے۔ ایشیا کپ کی 41سالہ تاریخ میں روایتی حریف پہلی بار فائنل میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گے۔ یہ محض ایک کرکٹ میچ نہیں، بلکہ کروڑوں دلوں کی دھڑکن، قوم کے جذبے اور کھلاڑیوں کی محنت کا امتحان ہے۔ جہاں میدان میں 11کھلاڑی اتریں گے، وہیں پوری قوم ان کے پیچھے دیوار کی طرح کھڑی ہوگی۔ پاکستانی ٹیم نے اس ٹورنامنٹ میں کئی نشیب و فراز دیکھے۔ کہیں فتوحات کا جشن منایا، تو کہیں غلطیوں اور بھارت سے دو مقابلوں میں شکست نے مایوسی پیدا کی، مگر یہی کھیل کا حسن ہے۔ جیت اور ہار تو کھیل کا حصہ ہیں، اصل چیز یہ ہے کہ کھلاڑی اپنی غلطیوں سے سیکھیں، خود پر اعتماد قائم رکھیں اور فائنل جیسے دبائو والے میچ میں اپنے اعصاب پر قابو رکھتے ہوئے بہترین کارکردگی دکھائیں۔ کپتان سلمان آغا، فخر زمان، صاحبزادہ فرحان، حارث رئوف، محمد نواز، صائم ایوب، شاہین آفریدی اور باقی تمام کھلاڑیوں سے قوم کو یہی امید ہے کہ وہ خود پر یقین رکھیں گے، اپنی ذمے داری کو سمجھیں گے اور ٹیم کے لیے کھیلیں گے۔ ماضی میں کی گئی چھوٹی چھوٹی غلطیاں جیسے کیچ چھوڑنا، غیر ضروری شاٹس یہ سب سبق ہیں، جن سے سیکھ کر ٹیم ایک بہتر اور متوازن کارکردگی پیش کرسکتی ہے۔بھارت کے خلاف کھیلنے کے دوران ہمیشہ ایک الگ دباؤ ہوتا ہے۔ دونوں ملکوں کی تاریخ، سیاست اور عوامی جذبات اس مقابلے کو عام میچ سے کہیں زیادہ بڑھا دیتے ہیں، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان نے کئی بار بھارتی ٹیم کو بڑے مواقع پر شکست دے کر دنیا کو حیران کیا ہے، 2017ء چیمپئنز ٹرافی کا فائنل ہو یا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2021 ء میں بھارت کے خلاف تاریخی 10وکٹوں کی فتح، ان مثالوں نے ثابت کیا کہ اگر نیت، محنت اور یقین ہو، تو کوئی حریف ناقابلِ شکست نہیں۔ اس موقع پر ٹیم کو اپنے کھیل پر توجہ مرکوز رکھنی ہوگی۔ کوچز، مینجمنٹ اور سینئر کھلاڑیوں کا فرض ہے کہ وہ نوجوان کھلاڑیوں کی رہنمائی کریں، انہیں پُرسکون رکھیں اور ٹیم کے اندر یکجہتی کو برقرار رکھیں۔ ہر کھلاڑی کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ وہ صرف ایک ٹیم کے لیے نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے کھیل رہا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ چاہے نتیجہ کچھ بھی ہو، ہماری ٹیم دل سے کھیلے گی، جم کر کھیلے گی اور وہ عزت کمائے گی جو صرف میدان میں دیانت داری اور لگن سے کھیلنے سے ملتی ہے۔ آئیے، بطور قوم ہم سب اپنی ٹیم کا حوصلہ بڑھائیں، ان پر تنقید کے بجائے اعتماد کریں اور دعا کریں کہ وہ اس فائنل میں ایک نئی تاریخ رقم کرے گی۔

جواب دیں

Back to top button