مائیکرو فنانس بینکنگ: فلاح کا مقصد لیے ایک تجارتی وظیفہ

مائیکرو فنانس بینکنگ: فلاح کا مقصد لیے ایک تجارتی وظیفہ
تحریر: کاشف حسن
مائیکرو فنانس بینکنگ کی اصطلاح سننے میں آج شاید بہت عام لگتی ہے، لیکن اس کے پس منظر میں ایک پوری جدوجہد، ایک طویل فکری و عملی ارتقاء اور سماج کی معیشت کے اندر ایک بڑی خاموش تبدیلی کی کہانی پوشیدہ ہے۔ یہ کہانی صرف بینکنگ کے طریقہ کار یا مالیاتی نظام کے پھیلائو کی نہیں بلکہ انسانی فلاح، غربت کے خاتمے، خواتین کو بااختیار بنانے، اور کمزور طبقوں کو مالی خدمات تک رسائی دلانے کی ہے۔ مائیکرو فنانس بینکنگ کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم جانیں کہ یہ روایتی بینکنگ سے کس طرح مختلف ہے، اس کا مقصد محض منافع کمانا ہے یا انسانی فلاح کے اہداف بھی اس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، یہ تحریک کب اور کہاں سے شروع ہوئی، پاکستان میں اس کا سفر کن مرحلوں سے گزرا، اور آج کے دور میں یہ کہاں کھڑی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ مستقبل میں اس کے کیا امکانات ہیں، کون سے چیلنجز اس کے راستے میں ہیں اور اب تک اس سے معاشرے کو کیا فائدے حاصل ہوئے۔
مائیکرو فنانس بینکنگ کیا ہے؟
سادہ لفظوں میں مائیکرو فنانس بینکنگ وہ مالیاتی خدمات ہیں جو معاشرے کے غریب اور پسماندہ طبقات کو فراہم کی جاتی ہیں۔ ایسے طبقات جو روایتی بینکنگ کے دائرے میں نہیں آ پاتے کیونکہ ان کے پاس بڑی ضمانتیں، جائیداد، کریڈٹ ہسٹری یا مالی ریکارڈ موجود نہیں ہوتا۔ مائیکرو فنانس بینک ان افراد کو چھوٹے قرضے دیتے ہیں، بچت کی سہولت فراہم کرتے ہیں، مائیکرو انشورنس مہیا کرتے ہیں اور ادائیگی یا رقوم منتقل کرنے کے ذرائع مہیا کرتے ہیں۔ یہ سہولت خاص طور پر چھوٹے کاروباری افراد، دیہی خواتین، مزدوروں اور غیر رسمی شعبے کے کارکنوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی۔
روایتی بینکنگ اور مائیکرو فنانس بینکنگ کا فرق
روایتی بینکنگ اور مائیکرو فنانس بینکنگ کے درمیان بنیادی فرق یہی ہے کہ پہلا ماڈل بڑے سرمائے، بڑی کمپنیوں اور مڈل یا اپر کلاس صارفین پر فوکس کرتا ہے، جبکہ دوسرا ماڈل ان لوگوں تک رسائی حاصل کرتا ہے جنہیں عموماً ’’ بینک ایبل‘‘ نہیں سمجھا جاتا۔ روایتی بینک قرضہ دینے کے لیے جائیداد یا کسی قیمتی اثاثے کو ضمانت کے طور پر مانگتے ہیں، جبکہ مائیکرو فنانس ادارے گروپ گارنٹی، کمیونٹی نیٹ ورک یا چھوٹی قسطوں پر بھروسہ کرتے ہیں۔ روایتی بینک اپنے صارف کو صرف مالی خدمت دیتے ہیں، لیکن مائیکرو فنانس ادارے اکثر فنانشل لٹریسی، کاروباری تربیت اور خواتین کے لیے خصوصی پروگرام بھی ساتھ چلاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مائیکرو فنانس کا تعلق محض بینکنگ سے نہیں بلکہ سماجی بہبود سے بھی ہے۔
انسانی فلاح اور تجارتی مقاصد کا تناسب
یہاں ایک بنیادی سوال اٹھتا ہے کہ مائیکرو فنانس کا مقصد کیا ہے؟ کیا یہ صرف انسانیت کی خدمت ہے یا اس کی پیچھے تجارتی پہلو بھی موجود ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ مائیکرو فنانس کی دنیا میں دونوں رجحانات پائے جاتے ہیں۔ کچھ ادارے، جیسے پاکستان کا اخوت، بغیر سود کے قرضے فراہم کرتے ہیں اور صرف انسانی فلاح کو مقصد بناتے ہیں۔ دوسری طرف ایسے ادارے بھی ہیں جو مائیکرو فنانس کو ایک پائیدار کاروباری ماڈل کے طور پر چلاتے ہیں تاکہ خود کفالت حاصل ہو اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک خدمات پہنچائی جا سکیں۔ اس طرح ایک ’’ ڈبل باٹم لائن‘‘ وجود میں آتی ہے، جہاں ایک طرف سماجی اثر ہے اور دوسری طرف مالی پائیداری۔ اصل کامیابی اسی میں سمجھی جاتی ہی کہ یہ دونوں پہلو متوازن رہیں۔
دنیا میں آغاز اور ارتقاء
اگرچہ چھوٹے قرضے اور کمیونٹی بچت کی روایات صدیوں پرانی ہیں، لیکن جدید مائیکرو فنانس کی بنیاد بیسویں صدی کے وسط میں پڑی۔ 1974ء میں بھارت میں SEWAبینک قائم ہوا، جس نے خواتین مزدوروں کو چھوٹے قرضے دینا شروع کیے۔ 1976ء میں بنگلہ دیش میں محمد یونس نے غریب خواتین کو معمولی قرضے دئیے تاکہ وہ چھوٹے کاروبار شروع کر سکیں۔ اس تجربے نے دنیا کو چونکا دیا اور چند ہی سالوں میں یہ ’’ گرامین ماڈل‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ 1983ء میں گرامین بینک کو قانونی حیثیت ملی اور یوں ایک عالمی تحریک کا آغاز ہوا، جس نے دنیا بھر میں غریبوں کو مالیاتی نظام سے جوڑنے کی راہ ہموار کی۔
برصغیر میں ارتقاء
برصغیر میں مائیکرو فنانس کا تصور بھارت اور بنگلہ دیش سے شروع ہوا اور پھر خطے میں پھیلتا چلا گیا۔ اس خطے میں غربت اور بے روزگاری کی شرح بلند تھی، خواتین غیر رسمی شعبے میں کام کر رہی تھیں اور مالیاتی اداروں تک ان کی رسائی نہ ہونے کے برابر تھی۔ ایسے میں مائیکرو فنانس نے انہیں ایک نئی امید دی۔
پاکستان میں مائیکرو فنانس کا سفر
پاکستان میں مائیکرو فنانس کا باقاعدہ آغاز 1990ء کی دہائی کے وسط میں ہوا۔1996: کشف فائونڈیشن قائم ہوئی، جو پاکستان کی پہلی تنظیموں میں سے تھی جس نے گرامین ماڈل کو اپنایا اور غریب خواتین کو چھوٹے قرضے دینا شروع کیے۔2000: خوشحالی بینک قائم ہوا، جو ریاستی سطح پر مائیکرو فنانس بینکنگ کا پہلا بڑا ادارہ تھا۔2001: مائیکرو فنانس انسٹی ٹیوشنز آرڈیننس جاری ہوا، جس نے اس سیکٹر کے لیے باضابطہ قانونی فریم ورک فراہم کیا۔2000 کی دہائی: متعدد این جی اوز نے بینکنگ لائسنس حاصل کیے اور مائیکرو فنانس بینکوں میں تبدیل ہو گئیں، مثلاً فرسٹ مائیکرو فنانس بینک۔ پاکستان پاورٹی ایلیوی ایشن فنڈ نے بڑے پیمانے پر فنڈنگ فراہم کی اور سیکٹر کی ریچ بڑھائی۔2010کی دہائی: ڈیجیٹل فنانس، موبائل بینکنگ اور خواتین کے لیے خصوصی پالیسیوں نے اس شعبے کو نئی سمت دی۔2020کی دہائی: اسٹیٹ بینک نے متناسب ضوابط جاری کیے اور ماحولیاتی و معاشی چیلنجز کے باوجود سیکٹر آگے بڑھتا رہا۔
آج مائیکرو فنانس کہاں کھڑی ہے؟
آج پاکستان میں مائیکرو فنانس کے صارفین کی تعداد ایک کروڑ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ سیکٹر کا کل پورٹ فولیو سیکڑوں ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ خواتین، کسانوں، چھوٹے کاروباری افراد اور مزدوروں کی بڑی تعداد اس سے مستفید ہو رہی ہے۔ البتہ معاشی بحران، مہنگائی اور سیلاب جیسے قدرتی آفات کی وجہ سے قرضوں کی واپسی کے مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں اور نان پرفارمنگ لونز کی شرح بڑھی ہے۔ اس کے باوجود یہ سیکٹر مالی شمولیت کے فروغ میں سب سے آگے ہے۔
مستقبل اور اسکوپ
پاکستان میں اب بھی بڑی تعداد میں افراد ایسے ہیں جو بینکنگ نیٹ ورک سے باہر ہیں۔ دیہی خواتین، غیر رسمی مزدور اور چھوٹے کسان مائیکرو فنانس کے سب سے بڑے ممکنہ صارف ہیں۔ ڈیجیٹل فنانس، موبائل والٹس اور بایومیٹرک سسٹمز نے رسائی کو مزید آسان بنایا ہے۔ مستقبل میں اگر پالیسیاں متوازن رہیں، شرح سود مناسب سطح پر رکھی جائے اور ادارے سماجی مقصد کو پس پشت نہ ڈالیں تو یہ شعبہ پاکستان میں غربت کے خاتمے، مالی شمولیت اور خواتین کے بااختیار بنانے میں ریڑھ کی ہڈی بن سکتا ہے۔
چیلنجز
اس شعبے کے بڑے چیلنجز میں آپریشنل اخراجات کی زیادتی، قرضوں کی واپسی کا خطرہ، ماحولیاتی آفات، ڈیجیٹل سہولت تک رسائی کا فرق اور سماجی مقصد کے بجائے صرف منافع پر توجہ دینے کا خطرہ شامل ہیں۔ بعض اوقات شرح سود زیادہ ہونے کی وجہ سے عوامی تنقید بھی سامنے آتی ہے، کیونکہ غریب افراد کے لیے یہ بوجھ بن جاتا ہے۔
حاصل شدہ ثمرات
اس کے باوجود مائیکرو فنانس نے پاکستان میں لاکھوں گھرانوں کی زندگی بدلی ہے۔ خواتین نے چھوٹے کاروبار شروع کیے، تعلیم و صحت پر خرچ کیا اور خود کفیل ہوئیں۔ کسانوں نے بیج اور کھاد خریدنے کے لیے سرمایہ حاصل کیا۔ مزدوروں نے ہنر سیکھنے یا چھوٹے پیمانے پر دکانیں کھولنے کے مواقع حاصل کیے۔ سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ معاشرے کے ایسے طبقے، جو پہلے بینکوں کے لیے ’’ نظر نہ آنے والے‘‘ تھے، آج مالیاتی نظام کا حصہ ہیں۔
حرف آخر
مائیکرو فنانس بینکنگ ایک ایسا سنگم ہے جہاں انسانی فلاح اور معیشت کے تقاضے آپس میں ملتے ہیں۔ اگر یہ صرف کاروبار رہ جائے تو غریب کے لیے سودی جکڑن بڑھ سکتی ہے، اور اگر صرف خیرات رہے تو پائیداری کھو بیٹھے گا۔ اصل کامیابی اسی میں ہے کہ دونوں کو توازن کے ساتھ چلایا جائے۔ پاکستان کا سفر ابھی جاری ہے اور مستقبل میں یہ شعبہ غربت کم کرنے، خواتین کو بااختیار بنانے اور مالی شمولیت کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔
کاشف حسن







