عالمی یوم قلب
عالمی یوم قلب
تحریر : صفدر علی حیدر ی
پاکستان سمیت دنیا بھر میں انتیس ستمبر کو امراض قلب کا عالمی دن ( ورلڈ ہارٹ ڈے) منایا جاتا ہے ۔ یہ دن عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او) ورلڈ ہیلتھ فیڈریشن ( ڈبلیو ایچ ایف) اور یونیسکو کے باہمی اشتراک سے ہر سال عالمی سطح پر منایا جاتا ہے ۔ آج جب ٹیکنالوجی نے تو بہت ترقی کر لی ہے لیکن صحت کے بارے میں لوگ ابھی بھی بہت سی باتوں سے انجان ہیں ، خاص طور پر دل کی صحت کے حوالے سے محدود معلومات ہی دستیاب ہیں ۔ ملکی سطح پر بنائی گئی پالیسیاں ناکافی یا ناقص ہیں ۔ عالمی یومِ قلب منانے کے مقاصد میں دِل کی بڑھتی ہوئی بیماریوں سے بچنے کے لیے لوگوں میں شعور اجاگر کرنا ، احتیاطی تدابیر کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ، باقاعدگی سے دل کے چیک اپ کی حوصلہ افزائی کرنا ہے ۔ موزوں طرز زندگی اور صحت مند کھانے کی عادت کو فروغ دینا شامل ہے ۔ اِس سال ورلڈ ہارٹ ڈے کا تھیم ’’ یوز ہارٹ فار ایکشن ‘‘ تھا تاکہ نہ صرف انفرادی سطح پر دِل کی صحت کے بارے میں آگاہی دی جا سکے بلکہ عالمی رہنماں کو یہ باور کرایا جائے کہ دِل سے متعلق بیماریوں کو سنجیدگی سے لیں اور اس سلسلے میں ایک عالمی پلیٹ فارم کا قیام عمل میں لانے کے لئے کوشش کریں۔
ڈبلیو ایچ ایف نے پہلی مرتبہ 24سال قبل 24ستمبر 2000ء کو ڈبلیو ایچ او کے تعاون سے دل کی بیماری سے متعلق آگاہی پیدا کرنے اور بین الاقوامی کارروائی کو متحرک کرنے کے لیے ورلڈ ہارٹ ڈے منایا تھا، اس کے بعد سے ہر سال ستمبر کی آخری اتوار کو یہ دن منایا جاتا ہے ۔ بین الاقوامی میڈیا میں شائع ہونے والے ڈبلیو ایچ ایف کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں ہر سال دو کروڑ سے زائد افراد دِل کی مختلف بیماریوں کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ، اِن میں سے 85فیصد ہارٹ اٹیک اور سٹروک جبکہ 15فیصد دِل کی دیگر بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق کارڈیو ویسکولر ( دِل اور اْس کی شریانوں) بیماریاں عالمی سطح پر اموات کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ پاکستان دِل کی تکالیف سے اموات کے حوالے سے دنیا میں 30ویں نمبر پر ہے، عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے، یہاں امراضِ قلب میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے ۔ اس کے مطابق یہاں دِل کی بیماریوں میں مبتلا چار لاکھ افراد ہر سال اپنی جان گنوا دیتے ہیں جو مختلف بیماریوں کے باعث اِس دنیا سے رخصت ہونے والوں کا 29فیصد ہیں۔ قومی ادارہ برائے صحت ( این آئی ایچ) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر ایک گھنٹے میں 50سے زائد افراد دل کی بیماریوں سے مر جاتے ہیں جبکہ آج سے پانچ سال قبل ہر گھنٹے میں مرنے والوں کی تعداد صرف 12تھی ۔ امراض قلب سے مرنے والوں میں 50فیصد افراد کی عمریں 40سے 50سال کے درمیان ہوتی ہیں ۔ 30سے 40سال کی عمر کے افراد میں دل کے دورے اور امراض قلب کے سبب اموات میں تشویش ناک اضافہ ہو چکا ہے ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق روزانہ 30سال سے کم عمر کئی افراد دل کا دورہ پڑنے پر ہسپتال لائے جاتے ہیں۔ جوان اور نوجوان تو رہے ایک طرف، اِس بیماری سے تو اب پیدا ہونے والے بچے بھی محفوظ نہیں رہے، کراچی کے آغا خان ہسپتال کے مطابق صرف وہاں سالانہ 60ہزار ایسے بچے پیدا ہوتے ہیں جو دِل کے عارضے میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ ان میں سے 60فیصد بچے غیر معیاری علاج کی وجہ سے ابتدائی سالوں میں ہی وفات پا جاتے ہیں ۔ پنجاب میں بھی صورتحال مختلف نہیں ہے۔ وائس چانسلر یونیورسٹی آف چائلڈ ہیلتھ کے مطابق پنجاب میں پیدا ہونے والا 100میں سے ایک بچہ دِل کے مرض میں مبتلا ہوتا ہے ۔ اِس میں سے سالانہ اندازً پانچ ہزار بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔
پاکستان میں بیماری کے بڑھنے کی بڑی وجوہات میں غیر صحت مند طرز زندگی ، کھانے کی غیر معیاری اشیا کا استعمال، مضر صحت کھانے اور ورزش کا نہ کرنا شامل ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق یہاں 76فیصد خواتین بمشکل پھلوں کا استعمال کرتی ہیں، 91فیصد خواتین کسی بھی طرح کی جسمانی ورزش نہیں کرتیں ۔ تقریباً 30فیصد مرد اور 40 فیصد خواتین موٹاپے کا شکار ہیں۔ امریکہ میں کی گئی ایک حالیہ ریسرچ اسٹڈی کے نتائج میں محققین نے کہا کہ اگر بالغان روزانہ چھ سے نو ہزار قدم چلیں تو اْن میں دل کی بیماری کا خطرہ 40سے 50فیصد تک کم ہو جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ ایک اور بڑی وجہ تمباکو نوشی بھی ہے ۔ پاکستان میں شہری آبادی کا 11.84فیصد اور دیہی آبادی کا 19.7فیصد طبقہ تمباکو نوشی کی بد عادت میں مبتلا ہے ۔
یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ تمباکو نوشی، مرغن غذائیں، موٹاپا اور ہائی بلڈ پریشر امراضِ قلب کی بڑی وجوہات ہیں۔ ماڈرن زندگی نے جہاں انسانوں کے لیے بہت سی آسانیاں پیدا کی ہیں وہاں بہت سے نئے مسائل نے بھی جنم لے لیا ہے ۔ انسانوں کی پیدل چلنے کی صلاحیت کو کم کر دیا ہے، مرغن اور تلے ہوئے کھانوں کی طرف رجحان بڑھ گیا ہے، گھر کے کھانے کی بجائے بازاری کھانوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور آن لائن گیمز نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ متعلقہ حکام کو چاہئے کہ وہ روزانہ چہل قدمی اور ورزش کو معمول بنانے کے لیے قومی سطح پر مہم شروع کریں ۔ ہر عمر کے افراد اپنی صحت کا خاص خیال رکھیں، اپنی عمر کے حساب سے اور ماہرین کی ہدایت کے مطابق کھانے پینے کا معمول ترتیب دیں، چہل قدمی اور ورزش کو زندگی کا لازم جزو بنا لیں۔ یاد رکھیں کہ احتیاط علاج سے بہر حال بہتر ہے۔
دل صرف ایک حیاتیاتی عضو نہیں ہے جو جسم کے مختلف حصوں میں خون پمپ کرتا ہے بلکہ اس کا تعلق بے شمار احساسات اور جذبات سے بھی ہے۔ جوش ہو، اضطراب ہو، خوشی ہو، غم ہو یا غم، دل ایسے ہر جذبات کا ردِ عمل کرتا ہے، جواب دیتا ہے اور جواب دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دل کو ایک آئینہ سمجھا جاتا ہے جو پورے جسم کی سرگرمیوں اور کاموں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس طرح کی غیر معمولی فعالیت کی وجہ سے، دنیا بھر میں بہت سے لوگ دل کے مسائل کا شکار ہیں۔ بہتر تفہیم کے لیے یہاں دل کی 5بڑی بیماریوں، ان کی علامات، وجوہات اور خطرے کے عوامل کی فہرست ہے۔
1۔ کورونری دل کی بیماری: کورونری دل کی بیماری سے مراد مریض کی وہ حالت ہے جہاں دل کی شریانوں کی اندرونی استر میں تختی بن جاتی ہے جو آکسیجن سے بھرپور خون دل تک لے جاتی ہے۔ اسے کورونری شریان کی بیماری یا ایتھروسکلروسیس بھی کہا جاتا ہے۔ عام طور پر طاعون ایک چپچپا مادہ ہے جو چربی کے ذخائر ( کولیسٹرول) اور دیگر سیلولر فضلہ سے بنتا ہے۔ طاعون خون کی نالیوں میں جمع ہو جاتا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ سخت ہو جاتا ہے اور کورونری شریانوں کو تنگ کر دیتا ہے جس سے خون کے بہائو میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ بالآخر، دل میں خون کے بہائو میں یہ رکاوٹ دل کو نقصان اور دیگر پیچیدگیوں کا سبب بن سکتی ہے ۔
2۔ دل کے والو کی بیماری: دل کے والوز بنیادی طور پر اٹیریا میں خون کے یک طرفہ بہائو کو برقرار رکھنے کے لیے کام کرتے ہیں، وینٹریکلز سے خون کی نالیوں تک جو پھیپھڑوں اور جسم سے دل سے جڑے ہوتے ہیں۔ کوئی ساختی تبدیلیاں جیسے کہ سٹیناسس ( سخت ہونا) اور طول و عرض اور والو کی ناکارہیاں دل کے والو کی بیماری کا باعث بن سکتی ہیں۔ عام خون کے بہا میں رکاوٹ، دل کے والوز پھیلے رہتے ہیں جس سے خون پیچھے کی طرف بہنے دیتا ہے۔ والوولر دل کی بیماری کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، وینٹریکلز سے ایٹریا میں یا خون کی نالیوں ( شہ رگ اور پلمونری شریان) سے وینٹریکلز میں خون کا واپس بہائو دل کی کارکردگی کو کم کرتا ہے۔
3۔ ریمیٹک دل کی بیماری: ریمیٹک دل کی بیماری مریض کی حالت کو نشان زد کرتی ہے جہاں ایک یا زیادہ دل کے والوز کو نقصان پہنچا ہے۔ یہ متواتر ریمیٹک بخار کی وجہ سے سوجن دل کا نتیجہ ہے۔ دل کی دیگر بیماریوں کے برعکس، بچوں کو رمیٹک دل کی بیماری کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ اگر ابتدائی مراحل میں پتہ چل جائے تو یہ 100فیصد قابل علاج ہے۔
4۔ اریتھمیاس:Arrhythmias دل کی حالت کا ایک گروپ ہے جو دل کی غیر معمولی تال کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ ایک نارمل دل ایک منٹ میں تقریباً 60سے 100بار دھڑکتا ہے اور یہاں تک کہ فیشن بھی۔ arrhythmiasمیں دل کی دھڑکن سست یا تیز یا بے قاعدہ رفتار سے ہوتی ہے۔ ایک شخص پھڑپھڑانا یا دھڑکن کو اچھالتا محسوس کر سکتا ہے۔ زیادہ تر، arrhythmiasبے ضرر ہوتے ہیں۔ صرف شدید اور دیرینہ اریتھمیا ہی جسم اور دل میں خون کے بہائو میں سمجھوتہ کر سکتا ہے۔
5۔ پیدائشی دل کی بیماری: عام طور پر حمل کے دوران انفیکشن کی وجہ سے، پیدائشی دل کی بیماری، جسے پیدائشی دل کی خرابی بھی کہا جاتا ہے، دل کی ساخت کا مسئلہ ہے جو پیدائش کے وقت موجود ہوتا ہے۔ نقائص کا تعلق دیواروں، دل کے والوز یا دل کے ارد گرد موجود شریانوں/رگوں سے ہو سکتا ہے۔ یہ خون کے عام بہائو کو بدل دیتا ہے اور غیر معمولی معاملات میں جسم کے اعضاء کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔
کسی ماہر قلب کا یہ قول یاد رکھنے کے قابل ہے کہ دل کی اوسط عمر سو سال ہے ۔ اگر کوئی اس سے قبل دل کے مریض کا شکار ہر کر جان کی بازی ہار جائے تو قصور اسی کا ہے۔
صفدر علی حیدری





