Column

پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کا لائبریرین شپ کے فروغ میں کردار ( حصہ سوم)

پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کا لائبریرین شپ کے فروغ میں کردار ( حصہ سوم)
تحریر : شیر افضل ملک
پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کی مطبوعات، جریدہ، رودادیں اور خبر نامے: علمی سرمائے کا ایک فکری جائزہ
دنیا بھر میں کسی بھی پیشہ ورانہ تنظیم (Professional Association)کی شناخت اور وقار کا انحصار محض اس کی تنظیمی سرگرمیوں پر نہیں ہوتا، بلکہ ان سرگرمیوں کو موثر اور دیرپا بنانے کے لیے اس تنظیم کی جانب سے مطبوعات (Publications) کی ترتیب و اشاعت کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ مطبوعات تنظیم کے علمی سرمایہ، فکری بالغ نظری، اور پیشہ ورانہ بصیرت کی آئینہ دار ہوتی ہیں، جن میں کتب، جرائد، ڈائریکٹریز، گائیڈ بکس، رپورٹس، رودادیں، سفارشات اور خبرنامے شامل ہوتے ہیں۔ یہ تمام طباعتی ذرائع کسی بھی ایسوسی ایشن کے استحکام، تسلسل، اور تحقیقی اہمیت کے ضامن ہوتے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن (PLA)نے اپنے قیام کے فوری بعد اس اہم ذمہ داری کو محسوس کیا اور نہایت سنجیدگی سے تحقیقی اور معلوماتی مطبوعات کی تیاری اور اشاعت کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنایا۔
سہ ماہی جریدہ:’’ پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن جرنل (PLA Journal)‘‘، پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن نے جولائی 1960ء میں ایک تحقیقی جریدے کی اشاعت کا آغاز کیا، جس کا نام ’’ پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن جرنل”‘‘(PLA Journal)رکھا گیا۔ یہ رسالہ سہ ماہی بنیادوں پر شائع کرنے کا منصوبہ تھا اور اس کا بنیادی مقصد ملک بھر میں لائبریری پروفیشن سے وابستہ اہلِ علم کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا جہاں وہ اپنی تحقیقی تحریریں، تجربات اور نظریات شیئر کر سکیں۔ اس جریدے کی اشاعت کا تسلسل ابتدا سے ہی مختلف رکاوٹوں کا شکار رہا۔ پہلے دو برسوں میں صرف تین شمارے منظر عام پر آ سکے، جس کے بعد رسالہ بند ہو گیا۔ 1968ء میں اشاعت کا عمل دوبارہ شروع ہوا لیکن محض دو شمارے شائع ہونے کے بعد یہ سلسلہ پھر منقطع ہو گیا اور تقریباً انیس برس تک جریدے کی اشاعت معطل رہی۔1987ء میں اس اشاعت کا سلسلہ ازسرِ نو شروع کیا گیا اور وقفے وقفے سے انیس (19)شمارے شائع کیے گئے، جن میں کئی اہم مضامین اور تحقیقی مقالات شامل تھے۔ جریدے کا آخری شمارہ اکتوبر 1997ء میں شائع ہوا، اس کے بعد یہ علمی روایت ایک بار پھر تعطل کا شکار ہو گئی۔ یوں 45برس (1960ء تا 2005ئ) کے دوران محض 25شمارے شائع ہو سکے، جن میں 193تحقیقی مضامین شامل تھے۔ ان تمام شماروں کا اشاریہ مرتب کیا گیا ہے، جو آئندہ تحقیقی کوششوں کے لیے ایک قیمتی حوالہ فراہم کرتا ہے۔ اس جریدے کی اشاعت میں تسلسل نہ رہنے کی بنیادی وجہ ایسوسی ایشن کے مرکزی دفتر کی عدم مستقل مزاجی تھی۔ چونکہ اس وقت ایسو سی ایشن کا مرکز منتخب سیکریٹری کی رہائش کے ساتھ تبدیل ہوتا تھا، اس لیے ادارتی ٹیم کے لیے کام کا تسلسل برقرار رکھنا مشکل ہوتا رہا۔ یہ مسئلہ صرف رسالے کی اشاعت ہی نہیں بلکہ دیگر تنظیمی معاملات میں بھی رکاوٹ کا باعث بنا۔
دنیا بھر میں پروفیشنل ایسوسی ایشنز اپنی کانفرنسوں، سیمینارز، ورکشاپس، اور میٹنگز کی رودادیں( Proceedings) باقاعدگی سے شائع کرتی ہیں، جو نہ صرف تنظیم کی کارکردگی کو دستاویزی شکل دیتی ہیں بلکہ تحقیقی ذخیرہ کا حصہ بھی بنتی ہیں۔ یہ رودادیں لائبریری سائنس کے محققین، طلباء اور ماہرین کے لیے ایک بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہیں۔پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن (PLA)اور انجمن فروغ و ترقی کتب خانہ جات (SPIL)ان اداروں میں شامل ہیں جنہوں نے اپنے اجلاسوں، سیمینارز، اور کانفرنسوں کی رودادیں شائع کیں۔ یہ رودادیں محض تنظیمی یادداشتیں نہیں بلکہ پاکستانی لائبریری تحریک کی تاریخ کا جُزِ لاینفک ہیں۔
پی ایل اے نے 1958ء سے 1997ء تک کل 16قومی کانفرنسیں منعقد کیں، جن میں سے 11کانفرنسوں کی رودادیں باقاعدہ طور پر شائع کی گئیں۔ یہ رودادیں پاکستان میں لائبریرین شپ کے علمی، پیشہ ورانہ اور فکری ارتقاء کی آئینہ دار ہیں اور آج بھی تحقیقی مقاصد کے لیے حوالہ جاتی اہمیت رکھتی ہیں۔ پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن نے اپنے جریدے کے علاوہ خبرناموں (Newsletters)کی اشاعت کو بھی نہایت اہمیت دی۔ ان خبرناموں کے ذریعے نہ صرف ایسوسی ایشن کی سرگرمیوں سے اراکین کو باخبر رکھا جاتا رہا بلکہ یہ ایک معلوماتی و تربیتی ذریعہ بھی بنے۔ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ نیوز لیٹر اور ریسرچ جرنل کا تسلسل نہ رہ سکا اس کی شاید ایک وجہ یہ تھی کہ پی ایل اے ہیڈ کوارٹر ہر دو سال بعد روٹیٹ ہوتا رہا اور جب ہیڈکوارٹر اگلے صوبہ میں سفٹ ہوا تو بدقسمتی سے بعض صوبوں کے عہدیدار ان نیوز لیٹر اور ریسرچ جرنل کو جاری و ساری نہ رکھ سکے۔ البتہ جب پنجاب میں مختلف ادوار میں ہیڈ کوارٹر شفٹ ہوا تو نیوز لیٹر اور ریسرچ جرنل پر قدرے بہتر کام ہوا۔ 2013ء جس میں ڈاکٹر ہارون ایدرس اور میڈم بشریٰ الماس جسوال کا نام نیوز لیٹر اور ریسرچ جرنل میں قابل ذکر ہیں ۔
مرکزی ایسوسی ایشن کے علاوہ اس کی ذیلی برانچ کونسلیں بھی اپنے اپنے خبرنامے شائع کرتی رہیں۔ خاص طور پر 1990ء کے بعد جب نیدرلینڈ لائبریری ڈویلپمنٹ پراجیکٹ (NLDP)پی ایل اے کے تحت چلایا جا رہا تھا، اس وقت پنجاب برانچ کونسل اور فیڈرل برانچ کونسل کے خبرنامے نیم رسالوں کی شکل اختیار کر گئے۔ ان میں نہ صرف خبروں بلکہ تحقیقی مضامین، انٹرویوز، اور تجزیوں کو بھی شامل کیا جاتا رہا۔ یہ ایک بہترین روایت تھی جو بدقسمتی سے NLDP کے اختتام کے ساتھ دم توڑ گئی۔1957ء میں ایسوسی ایشن نے ایک ماہانہ خبرنامہ اور 1960ء میں ایک سہ ماہی خبرنامہ جاری کیا، جو بالترتیب 1959ء اور 1961ء میں بند ہو گئے۔ اگرچہ یہ اشاعتیں مختصر عرصے کے لیے جاری رہیں، لیکن ان کے اثرات اور تاریخی حیثیت ناقابلِ انکار ہیں۔ پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کی مطبوعات، جریدہ، رودادیں اور خبرنامے نہ صرف اس کی تنظیمی فعالیت کا مظہر ہیں بلکہ یہ پاکستان میں لائبریرین شپ کی علمی و تحقیقی تاریخ کا بیش قیمت اثاثہ بھی ہیں۔ اگر ان اشاعتوں کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھا جاتا، تو نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا لائبریری پروفیشن ایک مضبوط علمی امیج کے ساتھ سامنے آتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کے ڈیجیٹل دور میں پی ایل اے ان اشاعتوں کو ڈیجیٹائز کرے اور جریدے کی اشاعت کو ازسرِ نو جدید تحقیقی معیار کے مطابق بحال کیا جائے، تاکہ یہ ادارہ اپنے فکری ورثے کو نہ صرف محفوظ رکھ سکے بلکہ آئندہ نسلوں کو اس سے مستفید ہونے کا موقع بھی دے سکے۔
شیر افضل ملک

جواب دیں

Back to top button