سیلاب کا نوحہ: پاکستان کی بربادی اور ہمارے المیے

سیلاب کا نوحہ: پاکستان کی بربادی اور ہمارے المیے
تحریر: ڈاکٹر اے اے جان
پاکستان کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی تو اس میں دو رنگ ہمیشہ غالب رہیں گے: ایک خون کا اور دوسرا پانی کا۔ خون دہشت گردی، ناانصافی اور طبقاتی جبر کی علامت ہے اور پانی سیلاب، بارشوں اور تباہ کاریوں کی۔ حالیہ برسوں میں پاکستان جس بڑے سیلابی المیے سے گزرا ہے، وہ محض ایک قدرتی آفت نہیں بلکہ ایک اجتماعی کوتاہی اور قومی بے حسی کا استعارہ ہے۔ اس کالم میں ہم نہ صرف سیلاب کی زمینی حقیقت بیان کریں گے بلکہ اس کی معاشی لاگت، سماجی و نفسیاتی اثرات، اور اس سانحے کے بعد کے المیہ پہلوئوں کو بھی اجاگر کریں گے ۔
سیلاب کا جغرافیہ اور تباہ کاریوں کی داستان: پاکستان کا جغرافیہ دریائوں، نہروں اور نالوں کا جال ہے۔ برف پوش پہاڑوں سے بہنے والا پانی جب بارشوں کے بوجھ تلے آتا ہے تو دریائوں کی گزرگاہیں تنگ پڑ جاتی ہیں۔ پھر وہ پانی اپنے پرانے راستے توڑ کر نئی زمینوں کو روند ڈالتا ہے۔ یہی ہوا جب پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا پر بارشوں اور سیلابی ریلوں نے دھاوا بولا۔ پنجاب میں کسان اپنی کھڑی فصلوں کو دیکھ کر مطمئن تھے کہ امسال محنت رنگ لائے گی۔ لیکن اچانک دریائے چناب اور جہلم کی لہریں شوریدہ ہوئیں اور ہزاروں ایکڑ زمین پر کھڑی کپاس اور گنے کی فصل لمحوں میں غائب ہوگئی۔ کھیت پانی میں ڈوب گئے، گائوں کی کچی دیواریں گر گئیں اور صدیوں سے آباد بستیاں کھنڈرات میں بدل گئیں۔ سندھ کی زمین جسے ہمیشہ دریائے سندھ کا پانی زرخیز کرتا رہا، وہی پانی اب قہر بن کر ٹوٹ پڑا۔ لاکھوں ایکڑ دھان اور گنے کی فصل تباہ ہوئی۔ دیہی سندھ کے مویشی، جو غریب خاندانوں کا سرمایہ تھے، ریلوں میں بہہ گئے۔ عورتیں اپنے بچوں کو بانہوں میں اٹھائے، گائوں کے ٹوٹے ہوئے مکانوں کے ملبے پر نوحہ کناں کھڑی تھیں۔خیبرپختونخوا میں دریائے کابل اور دریائے سوات نے تباہی مچا دی۔ چارسدہ، نوشہرہ اور سوات کے علاقے پانی میں غرق ہو گئے۔ باغات اجڑ گئے، پل ٹوٹ گئے اور لوگ پہاڑوں کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ وہ بچے جن کے ہاتھوں میں کتابیں ہونی چاہئے تھیں، وہ ریلیف کیمپوں میں خالی برتن تھامے کھڑے تھے۔ بلوچستان جو پہلے ہی پسماندگی کا شکار ہے، سیلابی ریلوں نے اسے مزید ویران کر دیا۔ لسبیلہ، جھل مگسی اور سبی میں زمین کے دھنسنے اور کچے مکانات گرنے سے سینکڑوں جانیں ضائع ہوئیں۔ وہ لوگ جو برسوں پانی کی بوند بوند کو ترستے تھے، اب پانی کے بے پناہ ریلوں کے آگے بے بس ہوگئے۔ یہ سیلاب پاکستان کی تاریخ کا سب سے مہنگا سانحہ ثابت ہوا۔ عالمی اداروں کے مطابق تباہی کی کل معاشی لاگت سے 35ارب ڈالر تک پہنچی، جو پاکستانی معیشت کے لیے ایک کمر توڑ بوجھ ہے۔
زراعت: 2کروڑ ایکڑ زمین متاثر ہوئی۔ کپاس، گندم، چاول، مکئی اور گنے کی فصلیں ملیا میٹ ہوگئیں۔ پاکستان کی برآمدات کا بڑا حصہ کپاس پر مشتمل ہے، اس کی تباہی نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بھی بحران میں ڈال دیا۔
انفراسٹرکچر: ہزاروں کلومیٹر سڑکیں، درجنوں پل اور ریلوے ٹریک بہہ گئے۔ کئی علاقے ملک سے کٹ گئے۔
مکانات: 20لاکھ گھر تباہ ہوئے۔ لاکھوں خاندان کھلے آسمان تلے آگئے۔
تعلیم و صحت: 18ہزار اسکول اور درجنوں اسپتال پانی میں بہہ گئے یا زمین بوس ہوگئے۔
مویشی: 10لاکھ سے زائد مویشی ضائع ہوگئے۔ دیہی معیشت میں یہ اتنا ہی بڑا نقصان ہے جتنا زرعی زمین کی تباہی۔یہ صرف ابتدائی تخمینہ ہے۔ اصل نقصان آنے والے برسوں میں زرعی پیداوار کی کمی، برآمدات میں کمی اور درآمدات کے بڑھنے کی صورت میں مزید بڑھتا جائے گا۔ قدرتی آفات کے اثرات محض مادی نہیں ہوتے، یہ انسانی روح کو بھی زخمی کرتے ہیں۔
بے گھری: لاکھوں خاندانوں نے اپنے آبائی گھر کھو دیے۔ وہ خیموں اور کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔
نفسیاتی صدمات : بچوں کے ذہنوں میں پانی کے ریلے اور ٹوٹے ہوئے مکانوں کی تصویریں مستقل نقوش چھوڑ گئیں۔ بڑے افراد میں ڈپریشن، بے چینی اور خودکشی کے رجحانات میں اضافہ ہوا۔
غربت: کسان مزدوری پر مجبور ہوگئے، دیہات سے شہروں کی طرف ہجرت بڑھی۔
تعلیمی بحران: لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہو گئے۔ سکول بند اور کتابیں پانی میں بہہ گئیں۔
سیاسی بدحالی: ریلیف فنڈز کی تقسیم میں بدعنوانی نے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکا۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر الزام تراشی میں مصروف رہیں جبکہ عوام مدد کو ترستے رہے۔ وہ ماں جو اپنے بچے کو سیلاب کے تیز بہائو سے بچانے کے لیے سینے سے لگائے کھڑی تھی، لمحہ بھر میں پانی کے طوفان نے اسے جدا کر دیا۔ وہ ملبے پر بیٹھی رو رہی تھی: ’’ اے دریائے سندھ! تو ہمارا سہارا تھا، مگر آج تو نے ہمارا سب کچھ چھین لیا‘‘۔ وہ کسان جو دن رات محنت کر کے کھیتوں میں خوشبو بھرتا تھا، اب کھلے آسمان تلے بیٹھا ہے۔ اس کے سامنے کھیت اجڑے پڑے ہیں۔ وہ آسمان کی طرف دیکھ کر کہتا ہے: ’’ یہی زمین ہماری زندگی تھی، یہی ہمارا پیٹ پالتا تھا۔ اب ہم کس کے در پر جائیں؟‘‘۔ وہ بچہ جو اسکول کا خواب دیکھتا تھا، اب خالی برتن تھامے ریلیف کی قطار میں کھڑا ہے۔ اس کی آنکھوں میں سوال ہے: ’’ میرا قلم کہاں گیا؟ میری کتاب کہاں گئی؟‘‘۔
یہ سب منظر ایک اجتماعی نوحہ ہیں۔ ایک ایسا نوحہ جسے سننے والا ہر شخص سوگوار ہو جاتا ہے۔ یہ سیلاب صرف ایک وقتی المیہ نہیں، بلکہ آنے والے کل کی خبر بھی ہے۔ گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان کے دریائوں اور بارشوں کا نظام مزید غیر متوازن ہو رہا ہے۔ اگر ہم نے ابھی ڈیمز، واٹر اسٹوریج سسٹمز، فلڈ مینجمنٹ اور شہروں میں نکاسی آب کے جدید نظام پر کام نہ کیا تو اگلے سیلاب مزید ہولناک ہوں گے۔
ہماری سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ہر سانحے کے بعد ہم وقتی جوش دکھاتے ہیں مگر پھر بھول جاتے ہیں۔ ریلیف فنڈز میں بدعنوانی اور ناقص منصوبہ بندی نے ہمیں مزید کمزور کر دیا ہے۔
پاکستانی سیلاب کی تباہی ایک ایسی چیخ ہے جو پتھروں تک کو ہلا دیتی ہے۔ یہ آفت محض پانی کی نہیں بلکہ ہماری نااہلی اور غفلت کی بھی داستان ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اجتماعی طور پر اپنی پالیسیوں، اپنے رویوں اور اپنی ترجیحات کو بدلیں۔ ورنہ آنے والے برسوں میں تاریخ ہمیں صرف ایک نوحہ کی صورت میں یاد رکھے گی۔
یہ پانی ہمیں زندہ رکھنے کیلئے آتا تھا
مگر آج یہ ہمیں مرنے کیلئے بہا لے گیا
ڈاکٹر اے اے جان





