Column

سکیورٹی فورسز کے کامیاب آپریشنز، 34خوارج ہلاک

سکیورٹی فورسز کے کامیاب آپریشنز، 34خوارج ہلاک
پچھلے ساڑھے تین سال سے دہشت گردی کا عفریت ملک کے امن کے درپے ہے۔ سیکیورٹی فورسز اس کی راہ میں سب سے بڑی رُکاوٹ ہیں، جو اس کی مذموم کارروائیوں کو نہ صرف ناکام بناتی، بلکہ متواتر خوارج کے خاتمے کے مشن پر گامزن بھی رہتی ہیں۔ جنگِ مئی کی شکست کے بعد دشمن اپنے فتنوں کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے کی مذموم کوششوں میں ہے، آپریشن بُنیان مرصوص کی تاریخی شکست اُسے اب تک چَین نہیں لینے دے رہی ہے، اس لیے پاکستان میں وہ دہشت گردی کی کارروائیوں کو تیزی سے بڑھاوا دے رہا ہے، لیکن سیکیورٹی فورسز اُس کے مذموم مقاصد کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گی، وہ جلد خوارج کا مکمل خاتمہ کرنے میں سرخرو ہوں گی۔ پاکستان، پھر دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں اہم سنگِ میل عبور کررہا ہے۔ گزشتہ روز بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے کیے گئے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز میں مجموعی طور پر 34 خوارج کو جہنم واصل کیا گیا۔ یہ کارروائیاں اس بات کا واضح پیغام ہیں کہ پاکستان کی ریاست اور عوام دہشت گردوں کے کسی بھی مکروہ عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ان آپریشنز میں پاک فوج، اسپیشل سروسز گروپ، پولیس اور سی ٹی ڈی نے شانہ بشانہ حصہ لیا، جس سے اداروں کے باہمی تعاون، پیشہ ورانہ مہارت اور ملک کے دفاع سے وابستگی کا اظہار ہوتا ہے۔ بلوچستان کا علاقہ دریشک، جو جغرافیائی لحاظ سے ایک دشوار گزار اور پیچیدہ خطہ ہے، وہاں پر ہونے والا آپریشن دو روز تک جاری رہا۔ 17دہشت گرد ہلاک کیے گئے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ دریشک آپریشن میں مقامی آبادی نے سیکیورٹی اداروں کا بھرپور ساتھ دیا، اہلکاروں کی واپسی پر ان کا استقبال کیا اور کامیابی پر جشن منایا۔ یہ امر اس حقیقت کا غماز ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں عوام کا اعتماد ریاستی اداروں پر مکمل بحال ہو رہا ہے۔ خیبر پختونخوا کے ضلع کرک کے علاقے درشہ خیل میں بھی ایک بڑا انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا گیا۔ یہ علاقہ لکی مروت اور کرک کی سرحد پر واقع ہے، جہاں خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر 22 خوارج کے ایک گروہ کو گھیر کر کارروائی کی گئی۔ نتیجتاً 17خوارج ہلاک ہوئے جبکہ کئی زخمی ہو کر قریبی علاقوں میں فرار ہو گئے۔ ان زخمی دہشت گردوں کی تلاش کے لیے علاقے میں کرفیو نافذ کر کے سرچ آپریشن جاری ہے۔ ڈی پی او کی جانب سے عوام سے اپیل کی گئی کہ کسی مشکوک شخص کو اپنے گھروں میں پناہ نہ دیں اور سیکیورٹی فورسز سے مکمل تعاون کریں۔ اس آپریشن سے یہ واضح پیغام گیا کہ ریاست اب کسی بھی قسم کی نرمی برتنے کے موڈ میں نہیں اور دہشت گردی کے ہر نیٹ ورک کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم رکھتی ہے۔ایک طرف سیکیورٹی ادارے خوارج کے ٹھکانوں پر بھرپور کارروائیاں کر رہے ہیں، دوسری جانب بلوچستان کے ضلع نوشکی میں پولیس کی جانب سے کی گئی ایک معمول کی چیکنگ کے دوران دہشت گردوں نے ہینڈ گرینیڈ سے حملہ کردیا۔ اس حملے میں ایک شہری جاں بحق اور 5پولیس اہلکاروں سمیت 8افراد زخمی ہوئے۔ اگرچہ یہ حملہ ریاستی اداروں کو خوف زدہ کرنے کی کوشش تھی، مگر اس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوصلے پست نہیں ہوئے، بلکہ یہ مزید عزم و استقلال کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف اپنی ذمے داریاں نبھانے کے لیے پرعزم ہیں۔ صدر مملکت اور وزیراعظم نے خوارج کے خلاف کامیاب کارروائی پر سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاک فوج اور دیگر اداروں کی پیشہ ورانہ مہارت اور بروقت کارروائیوں نے دہشت گردوں کے مذموم عزائم کو خاک میں ملادیا۔ ان کا یہ کہنا کہ ’’دہشت گردی کے عفریت کو جلد جڑ سے اکھاڑ دیں گے’’ قوم کے لیے اطمینان اور امید کی نوید ہے۔ اس سے یہ پیغام ملتا ہے کہ ملک کی اعلیٰ قیادت سیکیورٹی اداروں کے ساتھ کھڑی ہے اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے سیاسی اور عسکری قیادت یکسو ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف ہتھیاروں یا آپریشنز سے نہیں جیتی جا سکتی، بلکہ عوام کا تعاون، اعتماد اور حمایت اس جنگ کی اصل طاقت ہے۔ مقامی افراد کی جانب سے سیکیورٹی اہلکاروں کا خیر مقدم، ان کی کامیابی پر جشن منانا اور آپریشن کے دوران مکمل تعاون یہ ظاہر کرتا ہے کہ اب قوم دشمن کی سازشوں کو پہچان چکی ہے۔ حالیہ کارروائیوں سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ریاست پاکستان نے خوارج کے ساتھ ’’نرم رویے’’ کی سیاست کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ اب صرف اور صرف ایک ہی زبان استعمال کی جارہی ہے، طاقت کی زبان، جو ان عناصر کے لیے سب سے موزوں ہے، جنہوں نے ہزاروں معصوم شہریوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کو شہید کیا، ملک کو نقصان پہنچایا اور عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔یہ بات اب روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ پاکستان کی ریاست، ادارے اور عوام ایک پیج پر ہیں۔ خوارج کے خلاف کی جانے والی حالیہ کارروائیاں نہ صرف عسکری کامیابیاں ہیں بلکہ قوم کے حوصلے کی علامت بھی ہیں۔ ان آپریشنز نے ثابت کردیا کہ چاہے دشمن پہاڑوں میں چھپا ہو یا شہری علاقوں میں، اس کو اب کہیں پناہ نہیں ملے گی۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستان نے ناقابلِ تردید کامیابیاں حاصل کی ہیں، مگر یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے جس میں ریاست، اداروں اور عوام کو مل کر اپنی اپنی ذمے داریاں نبھانا ہوں گی۔ یہ جو حالیہ کامیابیاں ہمیں حاصل ہورہی ہیں، وہ اُن شہداء کی قربانیوں کا نتیجہ ہیں جنہوں نے اس ملک کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں۔ ان کی قربانیوں کو رائیگاں جانے دینا نہ صرف ناانصافی ہوگی بلکہ ایک قومی جرم ہوگا۔ لہٰذا ہمیں بحیثیتِ قوم، اپنی یکجہتی، اعتماد اور حب الوطنی کو برقرار رکھتے ہوئے دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک یہ جنگ جاری رکھنی ہوگی۔
انسانی اسمگلرز کا گھیرا تنگ کیا جائے
انسانی اسمگلنگ نہایت سنجیدہ اور دیرینہ مسئلہ ہے، جو نہ صرف بے شمار معصوم زندگیوں کو خطرے میں ڈال چکا بلکہ ملکی ساکھ کو بھی بین الاقوامی سطح پر شدید نقصان پہنچاچکا ہے۔ حالیہ دنوں میں ایف آئی اے کی جانب سے یونان کشتی حادثے سمیت متعدد دیگر کیسز میں ملوث انسانی اسمگلرز کے خلاف کامیاب کارروائیاں یقیناً قابلِ تحسین اقدام ہے، جو اس پیچیدہ اور خطرناک جرم کے خلاف ریاست کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل رفعت مختار راجا کی ہدایت پر کی گئی اس کارروائی کے نتیجے میں ایک ریڈ بک میں شامل انتہائی مطلوب انسانی اسمگلر سمیت پانچ افراد کو گرفتار کیا گیا، جن میں ایک خاتون سمیت کئی اشتہاری اور بیرونِ ملک اغوا و تشدد میں ملوث افراد بھی شامل ہیں۔ ان تمام افراد نے مختلف متاثرین کو بیرون ملک روزگار یا بہتر مستقبل کے خواب دکھا کر بھاری رقوم بٹوریں اور بعدازاں انہیں غیر قانونی، غیر انسانی اور خطرناک راستوں سے بیرون ملک بھیجنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں کئی افراد جان کی بازی ہار گئے۔ سب سے افسوسناک اور دل دہلا دینے والا واقعہ یونان کشتی حادثہ ہے، جس میں سیکڑوں پاکستانی شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس واقعے میں ملوث محمد اشرف عرف اشرف سلیمی کی گرفتاری، جس نے فی کس 25لاکھ روپے کے عوض شہریوں کو سمندری راستے سے یونان پہنچانے کی کوشش کی، ایف آئی اے کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر ملزمان جیسے کہ وکی گھمن، خدیجہ، سہیل فاروق اور شاہد فاروق نے بھی متاثرین سے لاکھوں روپے بٹور کر انہیں بیرون ملک بھیجنے کے جھوٹے وعدے کیے اور بعد ازاں روپوش ہوگئے۔ ایف آئی اے کی یہ کارروائی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ اگر ادارے اپنی ذمے داریاں سنجیدگی سے ادا کریں، تو انسانی اسمگلنگ جیسے بین الاقوامی جرائم کے خلاف موثر طور پر کام کیا جاسکتا ہے۔ تاہم، یہ محض ایک آغاز ہے۔ انسانی اسمگلنگ کی جڑیں گہری ہیں، جو نہ صرف مقامی سطح پر ایجنٹوں اور بروکرز کے نیٹ ورکس پر مشتمل ہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر جرائم پیشہ گروہوں سے بھی جُڑی ہوئی ہیں۔ ضروری ہے کہ ایف آئی اے اور دیگر متعلقہ ادارے ان نیٹ ورکس کے خلاف مسلسل کارروائیاں جاری رکھیں۔ علاوہ ازیں، عوامی شعور کی بیداری بھی نہایت ضروری ہے۔ نوجوانوں کو یہ باور کرانا ہوگا کہ ’’غیر قانونی طریقے’’ نہ صرف خطرناک بلکہ اکثر ان کے انجام موت یا جیل کی صورت نکلتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ بیرون ملک روزگار کے لیے محفوظ، قانونی اور شفاف راستے مہیا کرے تاکہ لوگ اسمگلرز کے ہاتھوں لٹنے پر مجبور نہ ہوں۔ ایف آئی اے کی جانب سے کی گئی حالیہ گرفتاریاں ایک امید کی کرن ہیں۔ اگر یہی تسلسل جاری رہا، تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان انسانی اسمگلنگ کے اس ناسور سے چھٹکارا پا سکے گا۔

جواب دیں

Back to top button