پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کا لائبریرین شپ کے فروغ میں کردار ( حصہ اول)

پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کا لائبریرین شپ کے فروغ میں کردار ( حصہ اول)
تحریر: شیر افضل ملک
دنیا کا کوئی بھی پیشہ اس وقت تک مکمل اور باوقار نہیں بن سکتا جب تک اُس کے ساتھ ایک متحرک فعال، اور بصیرت افروز پیشہ ورانہ ایسوسی ایشن منسلک نہ ہو۔ پروفیشنز کی اجتماعی طاقت ہمیشہ ان کی نمائندہ تنظیموں کے ذریعے ہی اجاگر ہوتی ہے۔ وہ قومیں جنہوں نے اپنی پیشہ ورانہ ایسوسی ایشن کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا وہ نہ صرف علمی ترقی میں ممتاز رہیں بلکہ ان کے معاشرتی نظام میں بھی ان پیشوں کو عزت و افتخار کا مقام حاصل ہوا۔ پاکستان میں لائبریرین شپ کے ارتقائی سفر میں پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن PLAکا کردار بلاشبہ سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ مختلف ادوار میں یہ ایسوسی ایشن نشیب و فراز سے دوچار رہی، تاہم مجموعی طور پر اس کا کردار ہمہ وقت روشن، مثالی اور تاریخ ساز رہا ہے۔ پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کا قیام 1957ء میں عمل میں آیا، لیکن اس سے قبل بھی ملک میں مختلف النوع کی لائبریری تنظیمیں اپنے اپنے دائرہ کار میں سرگرمِ عمل تھیں۔ ان میں نمایاں نام پنجاب لائبریری ایسوسی ایشن کا ہے، جو مغربی پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کے نام سے 1948ء میں اپنی تنظیمی سرگرمیوں کا آغاز کر چکی تھی۔ اسی طرح کراچی لائبریری ایسوسی ایشن 1949ء میں قائم ہوئی، اور 1950ء میں پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ کی بنیاد رکھی گئی۔ لاہور کے بعد کراچی کو ہمیشہ لائبریری سرگرمیوں کا مرکز تصور کیا جاتا رہا۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس شہر میں لائبریری پروفیشن کے ایسے جلیل القدر نام موجود تھے جنہوں نے اس پیشے کی علمی اور تنظیمی سطح پر غیر معمولی خدمات انجام دیں۔ ان شخصیات میں ڈاکٹر عبدالمعید مرحوم، فضل الٰہی مرحوم، سید ولایت حسین شاہ مرحوم، محمد شفیع مرحوم، جمیل نقوی مرحوم، نور محمد خان مرحوم، قاضی حبیب الدین احمد، اختر ایچ صدیقی مرحوم اور ابن حسن قیصر مرحوم شامل ہیں، جنہوں نے کراچی لائبریری ایسوسی ایشن اور پاکستان ببلو۔ گرا فیکل ورکنگ گروپ کو نہ صرف استحکام بخشا بلکہ قومی سطح پر آواز اٹھانے کی بنیاد بھی فراہم کی۔ ان تمام سرگرمیوں اور کوششوں کے باوجود ایک ایسی نمائندہ قومی لائبریری ایسوسی ایشن کی شدید ضرورت محسوس کی جا رہی تھی جو پورے ملک کے لائبریری پروفیشنلز کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر سکے۔
ڈاکٹر عبدالمعید کے مطابق پاکستان کی سطح پر قومی انجمن کے قیام کی ضرورت 1950ء ہی سے محسوس کی جانے لگی تھی، جب کراچی لائبریری ایسوسی ایشن نے ’’ پاکستان لائبریری کنونشن‘‘ منعقد کرنے کی اپیل کی، مگر یہ کوشش عملی جامہ نہ پہن سکی۔1954ء میں پاکستان ببلوگرافیل ورکنگ گروپ نے عبدالمعید اور اختر صدیقی کی تجویز پر ایک مشاورتی کمیٹی تشکیل دی جس کی سربراہی ایچ اے قاضی کو سونپی گئی۔ اس کمیٹی کا مقصد یہ تھا کہ ملک بھر کے لائبریری ماہرین سے رائے لے کر قومی ایسوسی ایشن کے قیام کی راہ ہموار کی جا سکے۔ ڈاکٹر انیس خورشید اپنے تحریری بیان میں واضح کرتے ہیں کہ جولائی 1954ء میں پاکستان ببلوگرا فیل ورکنگ گروپ کی ایک اہم میٹنگ میں قاضی حبیب الدین احمد کی قیادت میں ایک ایڈہاک کمیٹی قائم کی گئی، تاکہ ایک قومی لائبریری ایسوسی ایشن کے قیام کو عملی شکل دی جا سکے۔ بعد ازاں، 10جنوری 1955ء کوایک فیصلہ کن اجلاس سینٹرل سیکرٹریٹ لائبریری میں منعقد ہوا، جس کی صدارت ڈاکٹر امداد حسین نے کی۔ اسی اجلاس میں ایک دوسری ایڈہاک کمیٹی بھی قائم ہوئی، جس کے چیئرمین قاضی حبیب الدین احمد بنائے گئے، اختر ایچ صدیقی جو پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کے بانی اراکین میں سے تھے، انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ پاکستان کے قیام کے دس سال بعد، یعنی 1957ء میں لائبریری تحریک کا تیسرا دور کراچی سے شروع ہوا جولائی 1954ء کی قرارداد میں واضح کیا گیا کہ اب وقت آ چکا ہے کہ قومی سطح پر ایک متحدہ لائبریری ایسوسی ایشن قائم کی جائے۔ ڈاکٹر عبدالمعید کی امریکہ سے واپسی پر انہیں بھی ایڈہاک کمیٹی میں شامل کیا گیا۔ دیگر اراکین میں ابن حسن قیصر، عبیداللہ سیفی حامد حسن رضوی اور وکیل احمد جعفری شامل تھے۔ بعد ازاں، رکنیت سازی کا عمل شروع کیا گیا اور 1957ء میں پوسٹل بیلٹ کے ذریعے انتخابات منعقد ہوئے۔ پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کے قیام میں جن شخصیات نے نمایاں کردار ادا کیا ان میں قابلِ ذکر نام درج ذیل ہیں ڈاکٹر عبدالمعید مرحوم، قاضی حبیب الدین احمد، اختر صدیقی، خواجہ نور الٰہی مرحوم ( لاہور)، عبدالصبوح قاسمی مرحوم ( پشاور)، ڈاکٹر محمد علی قاضی مرحوم ( حیدرآباد)، ابن حسن قیصر مرحوم، حامد حسن رضوی مرحوم ( کراچی)، عبیداللہ سیفی ( کراچی)، محمد صدیق خان ( مشرقی پاکستان)، احمد حسین ( ڈھاکہ)، مطاہر علی خان ( ڈھاکہ)، حمایت علی، اختر صدیقی کے مطابق جب پی ایل اے قائم ہوئی تو ابتدائی طور پر پورے ملک سے صرف چالیس لائبریری پروفیشنلز نے اس کی رکنیت حاصل کی۔ اس وقت سالانہ چندہ پانچ روپے مقرر کیا گیا تھا، اور مجموعی طور پر صرف دو سو روپے جمع ہوئے۔ ظاہر ہے کہ یہ رقم نہ صرف انتخابات بلکہ دیگر انتظامی امور کیلئے بھی ناکافی تھی۔ اس نازک مرحلے پر مقامی بک سیلرز نے مالی تعاون فراہم کیا، جس سے ایسوسی کے ابتدائی مراحل مکمل کیے جا سکے۔ پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھنے والے یہ عظیم دماغ، محنت کش دل اور بیدار ذہن افراد تاریخِ لائبریرین شپ کے روشن ستارے ہیں۔ ان کی قربانیاں، فکری قیادت، اور تنظیمی بصیرت نہ صرف ہماری پیشہ ورانہ شناخت کا حصہ ہیں بلکہ مستقبل کی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بھی ہیں۔ پی ایل اے نہ صرف ایک ادارہ ہے بلکہ یہ لائبریری تحریک کا ایسا محور ہے جو علم، روشنی، اتحاد، اور پیشہ ورانہ عظمت کی علامت ہے۔





