سیلابی زندگیاں، حکومتی بیانات اور عوامی حقیقتیں: جلال پور کی کہانی

سیلابی زندگیاں، حکومتی بیانات اور عوامی حقیقتیں: جلال پور کی کہانی
حمزہ شاہد
ملتان کی تحصیل جلال پور پیر والا کے دیہی علاقے تاحال سیلابی پانی میں گھرے ہوئے ہیں۔ درجنوں دیہات میں سیکڑوں مکانات منہدم ہو چکے ہیں، جب کہ ہزاروں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں۔
گندم اور چاول جیسی اہم اجناس پر مشتمل کھیت سیلاب کی زد میں آ کر برباد ہو چکے ہیں، کچے گھروں کی دیواریں گر چکی ہیں، اور علاقہ مکین اپنے آشیانوں سے محروم ہو کر خیموں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔
ایک طرف حکومت کی جانب سے خیمے قائم کیے گئے ہیں، تو دوسری جانب فلاحی تنظیموں نے بھی متاثرین کی مدد کے لیے خیمہ بستیاں آباد کی ہیں۔ حکومتی خیموں میں رہائش پذیر متاثرین سے جب گفتگو کی گئی تو ان کا شکوہ تھا کہ گزشتہ دو روز سے انہیں ایک وقت کا کھانا بھی بڑی مشکل سے میسر آ رہا ہے۔ متاثرین کے بقول، کھانے کا ایک ٹرک آتا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے لاوارثوں میں خوراک پھینکی جا رہی ہو؛ نہ کوئی نظم، نہ کوئی ترتیب نتیجتاً کچھ افراد کو کھانا نصیب ہوتا ہے اور باقی بھوکے ہی سو جاتے ہیں۔
جب پاکستان مرکزی مسلم لیگ کی جانب سے قائم کی گئی’’ خدمتِ خلق‘‘ خیمہ بستیوں کا دورہ کیا گیا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ جن ذمہ داریوں کو حکومت کو نبھانا چاہیے تھا، وہ یہ فلاحی ادارے سرانجام دے رہے ہیں۔ ضلع جلال پور میں تین مقامات پر خیمہ بستیاں قائم کی گئی ہیں، جہاں متاثرین کے لیے خوراک، رہائش اور طبی معائنے سمیت بنیادی سہولیات کا خاطر خواہ بندوبست موجود ہے۔ ان بستیوں میں روزانہ تین وقت کا کھانا مہیا کیا جا رہا ہے، ہر خیمے میں پنکھا اور سولر پلیٹ نصب کی گئی ہے، جبکہ مچھر دانیوں کا بھی مناسب انتظام کیا گیا ہے۔ خیمہ بستیوں میں بچوں کی تعلیم کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے عارضی اسکولز بھی قائم کیے گئے ہیں تاکہ ان کی تعلیم متاثر نہ ہو۔
خیمہ بستیوں میں طبی سہولیات فراہم کرنے والے ڈاکٹر ظفر چیمہ کے مطابق اب تک نو بچوں کی پیدائش ہو چکی ہے، جن میں سے ایک نومولود خیمے ہی میں دنیا میں آئی جس کا نام عائشہ رکھا گیا، اور خوش قسمتی سے ماں اور بچی دونوں مکمل طور پر صحت مند ہیں۔ اس وقت تین مختلف خیمہ بستیوں میں 18خواتین ایسی ہیں جو امید سے ہیں، اور آنے والے چند ہفتوں میں ان کی زچگی متوقع ہے۔
خواتین کی طبی ضروریات کے پیشِ نظر لیڈی ڈاکٹر کی موجودگی کو یقینی بنایا گیا ہے، جبکہ الٹرا سائونڈ کی سہولت کے ساتھ ساتھ دل کا معائنہ کرنے کے لیے ای سی جی مشین بھی خیمہ بستیوں میں دستیاب ہے۔
مرکزی مسلم لیگ کے ترجمان، محمد تابش قیوم، کا کہنا تھا کہ ہمارا مشن صرف ریسکیو تک محدود نہیں، بلکہ ریلیف سے لے کر بحالی تک کا سفر ہم مسلسل جاری رکھیں گے۔ لاہور، فیصل آباد اور کراچی سے تعلق رکھنے والے 500 سے زائد رضاکار اس وقت موقع پر موجود ہیں، جو متاثرہ خاندانوں کے گھروں کی صفائی اور تعمیرِ نو میں بھرپور کردار ادا کریں گے۔
مرکزی مسلم لیگ کے ایک نمایاں کارکن، بابر نے جلال پور میں سیلاب کی تباہ کاریوں میں پھنسے دو ہزار سے زائد افراد کو ریسکیو کر کے ایک قابلِ تحسین مثال قائم کر دی ہے۔
ریلیف کمشنر پنجاب کے مطابق، سیلاب کی تباہ کاریوں سے 4700سے زائد دیہات متاثر ہوئے ہیں، جبکہ دریاں میں سیلابی صورتحال کے باعث مجموعی طور پر 47لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔
متاثرہ اضلاع میں 271ریلیف کیمپ قائم کیے گئے ہیں جہاں شہریوں کو کھانا اور دیگر بنیادی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ علاوہ ازیں، متاثرہ علاقوں میں 300میڈیکل کیمپ بھی قائم کیے گئے ہیں تاکہ طبی امداد بروقت فراہم کی جا سکے۔
سیلاب میں پھنسے ہوئے 26لاکھ 38ہزار سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے۔ مویشیوں کے علاج معالجے کے لیے 283ویٹرنری کیمپ بھی قائم کیے گئے ہیں، جبکہ متاثرہ اضلاع میں ریسکیو اور ریلیف کی کارروائیوں کے دوران 21لاکھ 17ہزار جانوروں کو بھی محفوظ ٹھکانوں پر منتقل کیا گیا ہے۔
اگر جلال پور پیر والا کی صورتحال کی بات کی جائے تو یہاں ریسکیو 1122اور حکومتی خیمہ بستیوں کے علاوہ ضلعی انتظامیہ یا دیگر حکومتی نمائندے موجود نہ تھے۔ آنکھوں دیکھی صورتحال یہ تھی کہ حکومتی خیموں میں مقیم متاثرین حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔
یہاں تک کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے علاوہ ڈاکوئوں کا خوف بھی ان کی زندگیوں کو اجیرن بنا چکا ہے۔ وہ گھر جو سیلابی پانی میں ڈوب گئے، وہاں ڈاکوئوں نے جینا محال کر دیا ہے اور متاثرین اپنے دکھ، خوف اور بے یار و مددگی کے سوا کچھ کہنے کی سکت نہیں رکھتے۔ یہ منظر انسانیت کے لیے باعث شرم اور حکومتی نااہلی کی عکاسی ہے، جو دکھ اور تکلیف میں مبتلا عوام کی آواز کو دبانے کی ناکام کوششوں کو بے نقاب کرتا ہے۔
فلاح و بہبود کے اس عظیم مشن میں ہم سب کو مل کر حصہ لینا چاہیے۔ ہمیں سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر، کندھے سے کندھا ملا کر، صرف انسانی خدمت کے لیے کوشاں رہنا ہوگا۔ خدمت خلق اور الخدمت فائونڈیشن جیسی تنظیمیں جو بے لوث محنت کر رہی ہیں، قابلِ تحسین ہیں۔ یہ ادارے ٹوٹے ہوئے خوابوں اور مایوس دلوں کو جینے کی نیا امید دے رہے ہیں اور دن رات ایک کر کے متاثرین کی زندگیوں میں خوشیوں کی کرن بکھیرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
ہم سب کا فرض ہے کہ ان کوششوں میں ہاتھ بٹائیں، تاکہ انسانیت کی یہ خدمت مزید وسعت پائے اور متاثرین کی مشکلات کم ہوں۔ یہی اجتماعی جذبہ ہی ہمارے ملک کی تعمیر و ترقی کا اصل ہتھیار ہے۔





