اسلام کی دعوت و تبلیغ

اسلام کی دعوت و تبلیغ
تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان
دین اسلام اور خالق کائنات اللہ تعالیٰ کی عبادت طرف دعوت دینا انبیاء علیہم السلام اور علمائے ربانین کا طریقہ ہے، جوکہ سب سے بڑی نیکی اور سب سے بہترین کام ہے ۔ ظاہر ہے جو لوگ اسلام کی دعوت دیں گے ان کی پہلی ذمہ داری ہوگی کہ وہ خود اس پر عمل بھی کریں گے، نیک بنیں گے اور اپنے اعمال و کردار سے دین حق کی سچائی کو ثابت کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی تبلیغ کے لئے انبیاء علیہم السلام کو بھیجا، جنہوں نے پتھروں کے جواب میں پتھر نہیں برسائے اور گالیوں کا جواب گالم گلوچ سے نہیں دیا، بلکہ حکمت سے کام لیتے ہوئے بڑے احسن انداز سے فریضہ تبلیغ سر انجام دیا۔ خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا کہ جہاں جس انداز میں سمجھانے کی ضرورت ہوتی وہی انداز اختیار فرماتے اور احساس رکھتے کہ دعوت کا ایسا انداز نہ ہو کہ جس سے مدعوئین اکتاہٹ محسوس کرنے لگیں۔ اور اب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ، اب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی گئی کتاب قرآن مجید اور نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی بطور نمونہ ہمارے سامنے ہے۔ اور دین اسلام کی تبلیغ کا کام آپ کے اور ہمارے بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے ذمہ ہے جو کہ ہماری بنیادی ذمہ داری ہے ۔ تبلیغ اسلام کا کام ہر زمانے میں جاری رہا اور موجودہ حالات میں بھی اس کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ پہلے تھی ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیتے ہوئے فرمایا : ’’ ( اے نبیؐ) آپ کہہ دیجیے یہ میرا راستہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں بصیرت کے ساتھ، میں اور میرے ساتھی بھی۔ اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں‘‘ ( سورۃ یوسف:108)۔
یہی امت کا اصل مشن ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ امت مسلمہ میں ہر دور میں کم از کم ایک ایسی جماعت کا وجود ضروری ہے جو عام لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے ‘‘ ( سورۃ آل عمران:104)۔
فرداً فرداً سارے ہی مسلمان ان احکامِ قرآن کے مخاطب ہیں اور ان کا فرض بنتا ہے کہ اللہ کی طرف بلانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں ، دین اسلام دعوت کو لے کر پوری دنیا پر چھا جائیں اور غیر مسلم لوگوں کو اللہ کی بندگی و اطاعت کی طرف بلائیں۔
امت مسلمہ کو دیکھ کر دنیا کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس دنیا میں بسنے والے انسانوں کی زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ اور انسانیت کے لیے حقیقی راہِ نجات کیا ہے ؟ اس گواہی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کا حق ادا کیا ، پوری زندگی اللہ کا پیغام انسانوں تک پہنچاتے رہے اسی طرح اس کا حق ادا کیا جائے اور پوری زندگی اس مشن کو زندہ اور قائم رکھا جائے ۔ شرح و تفسیر میں مفسرین کی یہ صراحت ملتی ہے کہ ہم مسلمانوں کو روز محشر اللہ کی عدالت میں اس بات کی شہادت دینی ہوگی کہ اے اللہ! تیرے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہم کو جو ہدایت ملی تھی، ہم مسلمانوں نے اسے تیرے عام بندوں تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اے اللہ! ترے آخری نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے ہم کو جو دین حق ملا تھا، ہم نے اسے من و عن پوری دنیا تک پہنچا دیا اور اسے قبول کرنے کی عام دعوت دی۔ ظاہر ہے اس دنیا میں اگر ہم نے دعوت دین کا کام نہیں کیا اور اللہ کے بندوں تک دین حق کا پیغام لے کر نہیں پہنچے اور ان کو قبول اسلام کی دعوت نہیں دی تو آخرت میں اللہ کے دربار میں یہ گواہی ہم کیسے دے سکیں گے ؟۔
آخری خطبہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے مجمع سے گواہی لی تھی کہ تم سب اس بات کے گواہ رہنا کہ مجھ پر تبلیغ دین کی جو ذمہ داری تھی، میں نے اسے ادا کر دیا ہے۔ اسی طرح آج دنیا کے عام انسانوں تک اس ہدایت کو پہنچانے کی یہ ذمہ داری ہم مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے ۔ غور کیجیے ! کیا امت مسلمہ پوری دنیا کو مخاطب کرکے کہہ سکتی ہے کہ اے دنیا والو! تم سب گواہ رہنا کہ اللہ تعالیٰ نے بحیثیت امت مسلمہ ہم پر تبلیغ دین کی جو ذمہ داری ڈالی تھی، وہ ذمہ داری ہم نے ادا کردی ہے۔ پوری دنیا تو کیا ہم اپنی بستی یا قرب و جوار کے غیر مسلم باشندوں کو مخاطب کرکے بھی ایسا نہیں کہہ سکتے، کیوں کہ ہم نے مطلوبہ انداز میں ان تک دین کی بات پہنچائی ہی نہیں۔
قرآن مجید کی تیسری سورۃ آل عمران کی آیت نمبر110میں امت مسلمہ کا مقصد وجود کیا بتایا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ ( اب دنیا میں ) وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں ( کی ہدایت و اصلاح ) کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔
اس دنیا کی سب سے بڑی حقیقت اللہ کا وجود ہے، دعوت اسلام دنیا کا سب سے عمدہ کام ہے اور دنیا کی سب سے بڑی سچائی بھی اسلام ہے، یہی نجات کا واحد راستہ ہے، اس کی طرف لوگوں کو بلانا، سب سے بڑی نیکی ہے ۔ ظاہر ہے جو لوگ اسلام کی دعوت دیں گے ان کی پہلی ذمہ داری ہوگی کہ وہ خود اس پر عمل کریں۔ نیک بنیں اور اپنے اعمال و کردار سے اس سچائی کو ثابت کریں ۔
قرآن مجید میں ایک جگہ اسی بات کو بڑے خوب صورت انداز میں کہا گیا ہے ’’ اور اس شخص کی بات سے اچھی بات کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا میں مسلمان ہوں‘‘۔ ( حم السجدہ:33 )۔
جبکہ غیر مسلم لوگوں کے دلوں میں بھی اسلام کی پیاس موجود ہے کیونکہ جو دائرہ اسلام سے باہر ہیں ان کو مسلسل اپنی فطرت سے جنگ لڑنا پڑتی ہے ، جبکہ اسلام خود دین فطرت ہے۔ اسلام میں عدل و انصاف ہے، عزت و احترام ہے، انسانوں کی ہر طرح کی ضروریات کی رعایت ہے۔ ہر شخص صرف اپنے ہی اعمال کا جواب دہ ہے اور کسی پر اس کی طاقت و قوت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا گیا ۔ اس کے عقائد بہت ہی شفاف اور عقل و فہم میں آنے والے ہیں۔ عبادات سے لے کر معاشرت و معاملات بلکہ زندگی کے ہر میدان کے لیے مفصل ہدایات ہیں۔ اس کی مذہبی کتاب وحی الٰہی پر مبنی ہے اور ہمیشہ کے لیے خردبرد سے محفوظ ہے ۔ اس کی دیگر تعلیمات کا بھی پورا ذخیرہ مستند تاریخی روایات پر مشتمل ہے اور صدیوں کی تاریخ ان احکام و تعلیمات کا عملی ثبوت ہے ۔ اسلام کی یہ ایسی خوبیاں ہیں جو کسی بھی حقیقت پسند آدمی کو ایمان لانے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ اگر ان خوبیوں کو کسی غیر مسلم یا مشرک کے سامنے بیان کیا جائے تو کم از کم وہ ان چیزوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ہمارا فرض ہے کہ غیر مسلم بھائیوں کو اسلام سے متعارف کرائیں اور ان کو اسلام اختیار کرنے کی دعوت دیں، تاکہ بطور مسلمان ہم اپنی ذمہ داری احسن طور پر نبھاکر روز قیامت اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچ سکیں۔





