ColumnImtiaz Ahmad Shad

غزہ بحران، عالمی ضمیر کا امتحان

ذرا سوچئے
غزہ بحران، عالمی ضمیر کا امتحان
امتیاز احمد شاد
اسرائیل اور فلسطین کا تنازع ایک صدی سے زیادہ عرصے پر محیط ہے، مگر موجودہ حالات نے اس کو نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کا سب سے اہم اور خطرناک مسئلہ بنا دیا ہے۔ 2023ء سے جاری کشیدگی نے 2025ء میں ایک ایسے بحران کی صورت اختیار کر لی ہے کہ جس میں انسانی جانوں کا ضیاع، معاشی بدحالی، اور عالمی سیاست کی تقسیم سب کچھ شامل ہے۔ آج یہ سوال نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ عالمی امن کے مستقبل پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے کہ فلسطینی عوام کے ساتھ انصاف کب اور کیسے ہوگا۔ حالیہ ہفتوں میں اسرائیل نے غزہ پر اپنے فوجی آپریشن تیز کر دئیے ہیں۔ فضائی بمباری اور زمینی کارروائیوں نے شہری علاقوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے ہسپتال، سکول، عبادت گاہیں اور پناہ گزین کیمپ سبھی اس تشدد کی لپیٹ میں آئے ہیں۔ ہزاروں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جبکہ لاکھوں بے گھر ہو کر پناہ کی تلاش میں ہیں۔ غزہ کی پٹی میں انسانی بحران کی صورت حال ناقابلِ برداشت ہو چکی ہے۔ کھانے پینے کی اشیائ، ادویات، پانی اور بجلی کی شدید قلت ہے۔ اقوامِ متحدہ اور امدادی ادارے بارہا متنبہ کر چکے ہیں کہ اگر فوری اور مستقل جنگ بندی نہ ہوئی تو غزہ مکمل طور پر ایک انسانی المیہ بن جائے گا۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ عسکری گروہوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا ہے، مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں کیونکہ مرنے والوں کی بڑی تعداد عام شہریوں پر مشتمل ہے۔ اس صورت حال نے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے: ایک طرف وہ ممالک ہیں جو اسرائیل کی پالیسیوں کو کھلے یا چھپے الفاظ میں سپورٹ کرتے ہیں، اور دوسری طرف وہ ہیں جو فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت کو بنیادی انسانی حق قرار دیتے ہیں۔
دنیا کے مختلف خطوں سے مختلف نوعیت کے ردِ عمل سامنے آ رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ میں کئی قراردادیں پیش کی گئی ہیں جن میں فوری جنگ بندی اور انسانی امداد کی فراہمی پر زور دیا گیا ہے۔ جنرل اسمبلی میں بڑی اکثریت نے دو ریاستی حل کی تائید کی، مگر سلامتی کونسل میں ویٹو طاقتوں کی وجہ سے یہ عمل اکثر رُک جاتا ہے۔ یورپی ممالک میں بھی تقسیم پائی جاتی ہے؛ کچھ ممالک نے فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کر لیا ہے جبکہ چند بڑے ممالک اب بھی اسرائیل کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ امریکہ بدستور اسرائیل کا اہم ترین اتحادی ہے۔ اگرچہ وہاں کی عوام اور سول سوسائٹی میں فلسطینیوں کے لیے ہمدردی بڑھ رہی ہے، لیکن حکومتی سطح پر اسرائیل کی عسکری کارروائیوں کی براہِ راست مذمت کم ہی سامنے آتی ہے۔ دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ یورپ، ایشیا اور امریکہ کے شہروں میں لاکھوں لوگ فلسطینی عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کر رہے ہیں۔ یہ احتجاج عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ایک اہم کاوش ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت اور آزاد ریاست کے قیام کا حامی رہا ہے۔ حالیہ واقعات کے بعد پاکستان کی حکومت نے نہ صرف اسرائیلی جارحیت کی سخت مذمت کی بلکہ اسے نسل کشی کے مترادف قرار دیا۔
پاکستان نے تجویز پیش کی ہے کہ ایک عرب۔ اسلامی ٹاسک فورس تشکیل دی جائے جو فلسطینی عوام کو فوری انسانی اور سفارتی مدد فراہم کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے سلامتی کونسل میں بھی آواز بلند کی اور عالمی طاقتوں پر زور دیا کہ وہ دوہرا معیار ترک کریں۔ مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتیں یک زبان ہو کر فلسطین کی آزادی کی حمایت کر رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی پاکستانی عوام کی اکثریت فلسطینی عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتی نظر آتی ہے۔ مزید برآں، پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حال ہی میں طے پانے والا دفاعی معاہدہ بھی اس تناظر میں اہم سمجھا جا رہا ہے۔ یہ معاہدہ نہ صرف خطے میں طاقت کے توازن کو متاثر کرے گا بلکہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف مسلم دنیا کو زیادہ متحد کرنے میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ اسلامی دنیا میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ قطر میں ہونے والے عرباسلامی ایمرجنسی سمٹ میں 34 ممالک نے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جس میں اسرائیل کی جارحیت کی مذمت اور فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت شامل تھی۔ سعودی عرب، ترکی، ایران، قطر اور دیگر ممالک نے بھی کھل کر اسرائیلی اقدامات کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔ تاہم عملی اقدامات میں اب بھی کمی محسوس کی جا رہی ہے۔ بیشتر اسلامی ممالک نے سفارتی سطح پر احتجاج ریکارڈ کروایا ہے، مگر عسکری یا معاشی دبا ڈالنے میں وہ ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ اسلامی دنیا کے عوام اپنے اپنے ملکوں میں احتجاج کر رہے ہیں۔ ان مظاہروں سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ مسلم امہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑی ہے، لیکن قیادتوں کے درمیان عملی اتحاد کی کمی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
یہ سوال اہم ہے کہ مستقبل میں یہ تنازع کہاں جا سکتا ہے؟ تین بڑے امکانات سامنے آتے ہیں
عالمی برادری کی اکثریت یہی کہتی ہے کہ اسرائیل اور فلسطین دونوں کو آزاد ریاستوں کی شکل میں تسلیم کیا جائے۔ مگر اسرائیلی حکومت کی ہٹ دھرمی اس راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر موجودہ پالیسیوں کا سلسلہ جاری رہا تو یہ تنازع مزید لمبا کھنچ سکتا ہے۔ اس کا نتیجہ مزید انسانی جانوں کے ضیاع اور خطے میں بدامنی کی صورت میں نکلے گا۔ اگر امریکہ، یورپ، روس یا چین جیسے بڑے کھلاڑی فعال کردار ادا کرتے ہیں تو شاید کوئی وقتی یا جزوی حل نکل آئے۔ تاہم اس کے لیے عالمی سیاست کو اپنے مفادات سے اوپر اٹھنا ہوگا، جو بظاہر مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کا تنازع صرف دو قوموں کے درمیان جھگڑا نہیں رہا بلکہ اب یہ انسانی ضمیر کا امتحان بن چکا ہے۔ غزہ میں بچے، عورتیں اور معصوم شہری روزانہ اپنی جانوں کی قربانی دے رہے ہیں۔ عالمی برادری کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ انصاف، انسانیت اور امن کا ساتھ دیتی ہے یا طاقت اور جبر کی حمایت میں خاموش رہتی ہے۔ پاکستان اور اسلامی دنیا کا موقف اصولی طور پر درست اور جرات مندانہ ہے، مگر عملی اقدامات کی ضرورت باقی ہے۔ جب تک مسلم دنیا متحد ہو کر مشترکہ حکمتِ عملی اختیار نہیں کرے گی، تب تک اسرائیل پر دبائو ڈالنا مشکل ہوگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ظلم کبھی دیرپا نہیں رہتا۔ فلسطینی عوام کی قربانیاں اور دنیا کے باشعور طبقوں کی حمایت اس بات کا اشارہ ہیں کہ انصاف کی منزل شاید دور ہو، مگر ناممکن نہیں۔ یہی امید ہی فلسطین کے مستقبل کی سب سے بڑی روشنی ہے۔

جواب دیں

Back to top button