27ویں آئینی ترمیم اور اختیارات کی تفویض

27ویں آئینی ترمیم اور اختیارات کی تفویض
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
ملک کی وکلاء برادری آئین کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کے لئے ہمیشہ پیش پیش رہی ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے وکلا کو بعض طالع آزمائوں کے عدم تعاون سے26آئینی ترمیم کے موقع پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔26ترمیم کے معاملے میں وکلاء برادری میں یک جہتی ہوتی تو حکومت کے لئے یہ ترمیم مشکل ہو جاتی ۔ اس موقع پر سیاسی جماعتوں نے جو منفی کردار ادا کیا، اس نے عدلیہ کا شیرازہ بکھیر دیا۔ آج عدلیہ ایک بار پھر اپنی آزادی کے لئے سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججوں اور جسٹس طارق جہانگیری کے معاملے اور 27ویں آئینی ترمیم کے خدشات نے وکلا برادری کو سر جوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ جنرل پرویز کے خلاف وکلا برادری اور سول سوسائٹی نے جو کردار ادا کیا اس نے ایک شاندار ماضی چھوڑا مگر 26ویں آئینی ترمیم سے وکلا برادری منقسم ہو گئی ہے۔ پاکستان کا آئین قانون کے ایوانوں میں دستک دے رہا ہے اسے بربادی سے بچایا جائے۔ پاکستان کی تاریخ کاوہ خوش کن موقع تھا جب وکلاء اور سول سوسائٹی نے باہم ملکر جنرل پرویز مشرف کے خلاف تحریک کا آغاز کیا جس نے آمر وقت کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ اس وقت ملک میں نہ عدلیہ آزاد ہے صحافت پر قدغن اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی جماعت کے رہنما اور ورکرز اپر امن احتجاج بھی کریں تو ان کے خلاف مقدمات کی قطار لگ جاتی ہے۔ بانی پی ٹی آئی کو اقتدار کی سیڑھی پر چڑھا کر سیڑھی کھنچ لینے کے بعد اسے قید و بند میں ڈال دیا گیا۔ ہمیں عمران خان سے کوئی لینا دینا نہیں ایک بات واضح ہے عدلیہ آزاد ہوتی تو اس کے خلاف مقدمات کی سماعت اور سزائوں کے خلاف اپیلوں پر فیصلے ہو جاتے۔ بقول ایک مرحوم جج انہیں پرواز کرنے کو کہا گیا ہے مگر پر کاٹ دیئے گئے ہیں۔ آج عدلیہ کی وہی پوزیشن نے جس کے بارے میں جج صاحب نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں یہ بات کہی تھی۔ وکلاء برادری اور قوم کو ابھی ایک اور دریا کا سامنا ہے جو 27ویں آئینی ترمیم کی صورت میں لائے جانے کا قوی امکان ہے۔ ہماری اطلاعات کے مطابق آئندہ ماہ سپریم کورٹ بار کے انتخابات اور صوبائی بار کونسلوں کے الیکشن میں حکومت کی بھرپور کوشش ہو گی وہ من پسند وکلاء کو سامنے لائیں تاکہ اسے اگلا مرحلہ طے کرنے میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ حکومت نے وکلاء برادری سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگوں کو وزارت قانون میں عہدوں کی پیش کش کرکے اور اعلیٰ عدلیہ میں مناصب اور بار کونسلوں کو معمول سے ہٹ کر گرانٹس کی فراہمی کرکے رام کر لیا ہے۔ اس کے ساتھ سنیئر وکلاء کا ایک گروپ آئندہ لائی جانے والی آئینی ترمیم کے سلسلے میں ابھی سے سرگرم ہو گیا ہے۔ اس ضمن میں وکلاء کی پہلی کانفرنس کا انعقاد وفاقی دارالحکومت کے ایک ہوٹل میں پولیس کے حصار میں ہو چکا ہے جس سے ملک کے نامور وکلاء جناب اعتزاز احسن، حامد خان اور علی ظفر کے علاوہ پی ٹی آئی کے بیرسٹر گوہر اور پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے خطاب کرتے ہوئے 26ویں آئینی ترمیم کا ذمہ دار ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو قرار دیتے ہوئے سویلین کے ملٹری ٹرائل کو بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ جناب اعتزاز احسن نے اس نازک موقع پر ملک کے مظلوم طبقات کے ساتھ کھڑا ہونے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا وکلاء برادری کو سیاسی جماعتوں کے بغیر آئین کی بالادستی کے لئے پرامن اور آئینی جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ آئینی ترمیم کے خدشات کے پیش نظر وکلاء برادری آئندہ ماہ لاہور میں ایک قومی کانفرنس کا انعقاد کر رہی ہے جس میں ملک بھر کے سنیئر قانون دانوں کو شرکت کی دعوت دی جائے گی۔ دراصل حکومت 27آئینی ترمیم کے بعد ملک کی ایک بڑی شخصیت کو آئینی ذمہ داریاں دینے کی طرف رواں دواں ہے جس کے خلاف وکلاء برادری ابھی سے متحرک ہو گئی ہے۔ عدلیہ میں ماضی کی روایات کو برقرار رکھا جاتا تو آج ملک میں کم از کم آئین اور قانون کی بالادستی ہوتی مگر بدقسمتی نہ عدلیہ آزاد ہے نہ آئین پر عمل درآمد ہو رہا ہے اور نہ قانون کی عمل داری ہے۔ ملک پر مخصوص دو جماعتیں قابض ہیں۔ دونوں جماعتوں نہ عدلیہ کی آزادی اور آئین و قانون کی بالادستی سے کوئی سروکار ہے انہیں اپنے اقتدار کا حصول درکار ہے۔26 آئینی ترمیم کرکے عدلیہ کو انتظامیہ کا حصہ بنا دیا گیا ہے حالانکہ عدلیہ آزاد ہوتی تو سیاسی رہنمائوں اور ورکرز کے خلاف نہ بے بنیاد مقدمات قائم ہوتے نہ وہ طویل عرصہ سے قید و بند میں رہتے۔ انتخابات کو دیکھ لیں جو جماعتیں اقتدار میں لائی گئیں، ان کے بعض رہنمائوں اپنا کہنا ہے الیکشن میں ریکارڈ دھاندلی ہوئی ہے۔ بعض رہنمائوں کو جو اسمبلی کی نشست کی پیش کش ہوئی جسے انہوں مسترد کر دیا۔ پھر کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چھٹہ کے بیان نے الیکشن کے منصفانہ نہ ہونے کی قلعی کھول دی لیکن بعد ازاں انہیں بھی خاموش کر دیا گیا۔ پاکستان کے عوام کو مہنگائی کا سامنا تو تھا ہی لیکن سانحہ ڈی چوک نے عوام کو سڑکوں پر آنے سے خوف زدہ کر دیا ہے۔ اس وقت ملک میں خوف کا عالم ہے اپوزیشن جماعتیں کوئی معمولی سی کانفرنس کریں تو بھی کڑی نگرانی کی جاتی ہے بلکہ انہیں اس طرح کی تقاریب کرنے کی اجازت تک نہیں ملتی۔ سوال ہے پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کے ساتھ کا اختلاف ہو سکتا ہے مگر ملک کے کروڑوں عوام کے مینڈیٹ پر شب خون مارنے کی اجازت کس نے دی۔ ملک میں اس وقت نہ قانون کی عمل داری ہے نہ آئین پر عمل ہو رہا ہے، جبکہ ہمارا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ فاٹا جو کبھی امن کا مظہر تھا، جنرل پرویز مشرف کے آپریشن کے بعد وہاں کے حالات نے ایسا پلٹا کھایا امن نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ کے پی کے اور بلوچستان میں دہشت گردوں کا راج ہے۔ گو ہماری مسلح فوج اپنی جانوں کے نذرانے دے کر ملک کی حفاظت کر رہی ہے مگر یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ حکومت کو ملک کے حالات کی بہتری کی لئے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد لانا ہوگا تاکہ ہمارا ملک ایک بار پھر امن کا گہوارہ بن سکے۔





