فلوٹیلا مشن: فلسطین کی اُمید، قربانی اور مزاحمت کا استعارہ

فلوٹیلا مشن: فلسطین کی اُمید، قربانی اور مزاحمت کا استعارہ
تحریر : ڈاکٹر اے اے جان
مقدمہ: دُنیا کی تاریخ قربانی اور مزاحمت کے باب کے بغیر ادھوری ہے۔ ظلم و جبر ہمیشہ طاقتوروں کی پہچان رہا ہے، لیکن اس کے مقابل انسانیت کی ایک اور کہانی بھی جنم لیتی ہے، قربانی اور انصاف کیلئے جدوجہد کی کہانی۔ فلسطین اس باب کا سب سے روشن اور دردناک حوالہ ہے۔ غزہ کی تنگ گلیوں، مقبوضہ بیت المقدس کی فضائوں اور دریائے اردن کے کناروں پر ظلم کی جو داستانیں لکھی گئیں، وہ انسانی تاریخ کے بدن پر ایک ناسور کی مانند ہیں لیکن اسی کے ساتھ ساتھ قربانی، صبر اور امید کی روشن مثالیں بھی اسی دھرتی پر نظر آتی ہیں۔ فلوٹیلا مشن انہی مثالوں میں سے ایک ہے۔ یہ قافلہ محض جہازوں اور امدادی سامان کا نام نہیں، بلکہ یہ انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے والی ایک صدا تھی، ظلم کے اندھیروں میں جلتا ہوا چراغ تھا، اور محکوم قوموں کیلئے ایک پیغام تھا کہ حق کی خاطر لڑنا کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔
حصہ اوّل: فلسطین کا تاریخی پس منظر: 1917ء کے بالفور ڈیکلریشن سے شروع ہونیوالا فلسطینی المیہ آج تک جاری ہے۔ برطانوی حکومت نے یہودی قوم کو فلسطین میں ایک ’’ قومی گھر‘‘ دینے کا وعدہ کیا، جبکہ وہاں صدیوں سے عرب مسلمان اور عیسائی آباد تھے۔ 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی لاکھوں فلسطینی اپنے ہی گھروں سے بے دخل کر دئیے گئے، اس دن کو فلسطینی’’ نکبہ‘‘ یعنی عظیم تباہی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس کے بعد سے آج تک فلسطینی عوام اپنی زمین، اپنی شناخت اور اپنی آزادی کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ اسرائیل نے طاقت، ہتھیار اور عالمی سیاست کو اپنے حق میں استعمال کیا، جبکہ فلسطینی عوام نے مزاحمت، صبر اور قربانی کو اپنا ہتھیار بنایا۔
فیض احمد فیض
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
حصہ دوم: غزہ کا محاصرہ: غزہ کی پٹی دنیا کا سب سے بڑا کھلا قید خانہ کہلاتی ہے۔ تقریباً دو ملین لوگ محصور، جنہیں خوراک، پانی، دوا اور حتیٰ کہ تعلیم و روزگار کے مواقع سے بھی محروم رکھا گیا۔ اسرائیل نے سمندری، فضائی اور زمینی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ اس محاصرے نے بچوں کی زندگیاں اجیرن بنا دیں۔ بیمار علاج کے بغیر مر گئے۔ نوجوانوں کو روزگار نہ ملا۔ عورتیں اور بزرگ بنیادی سہولتوں سے محروم رہے۔ اس ظلم نے دنیا کے ضمیر کو کئی بار جھنجھوڑا، لیکن عالمی طاقتوں نے ہمیشہ اپنے سیاسی مفادات کو ترجیح دی۔
یہ جو ظلم سہتے ہیں روز و شب
یہ ہمارے زمانے کے لوگ ہیں
حصہ سوم: فلوٹیلا مشن کا آغاز: 2010ء میں ترکی کی ایک تنظیم IHH( فائونڈیشن فار ہیومن رائٹس اینڈ فریڈمز) نے فیصلہ کیا کہ غزہ کے عوام تک سمندر کے راستے امداد پہنچائی جائے، اس مشن میں چھ جہاز شامل تھے جن پر خوراک، ادویات، طبی سامان اور تعمیراتی وسائل موجود تھے۔ یہ قافلہ صرف ترک شہریوں تک محدود نہ تھا۔ اس میں برطانیہ، امریکا، جرمنی، پاکستان، ملائیشیا، الجزائر اور دیگر ممالک کے کارکن شامل تھے۔ ڈاکٹر، صحافی، وکلاء اور عام انسان دوست افراد، سب ایک آواز میں کہہ رہے تھے کہ ’’ غزہ کا محاصرہ ختم کرو، انسانیت کو زندہ رہنے دو!‘‘
ظلم کے ضابطے، کوڑوں کی بارشیں
کوئے دار و رسن، قید کی سختیاں
سب گوارا ہمیں، سب منظور ہیں
بس کہ آزادی کا وہ سورج طلوع ہو
حصہ چہارم: ماوی مرمرہ کا سانحہ:31مئی 2010ء کی رات اسرائیلی افواج نے ’’ ماوی مرمرہ‘‘ جہاز پر حملہ کیا۔ ہیلی کاپٹروں اور کمانڈوز کے ذریعے یہ کارروائی کی گئی۔ غیر مسلح کارکنوں پر گولیاں برسائی گئیں، جس کے نتیجے میں دس کارکن شہید اور کئی زخمی ہوئے۔ یہ حملہ بین الاقوامی پانیوں میں ہوا، جس سے اسرائیل کا غیر قانونی اور غیر انسانی رویہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب ہوا لیکن یہ خون رائیگاں نہیں گیا۔ شہداء کی قربانی نے فلسطین کے مسئلے کو عالمی سطح پر ایک بار پھر اجاگر کر دیا۔
قتل گاہوں سے چن کے ہمارے علم
اور نکلیں گے عَشّاق کے قافلے
حصہ پنجم: عالمی ردِعمل: اس واقعے کے بعد دنیا بھر میں احتجاج کی لہر دوڑ گئی۔
ترکی نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات معطل کر دئیے۔
یورپ اور امریکا کے کئی شہروں میں مظاہرے ہوئے۔
اقوام متحدہ نے اسرائیل کی کارروائی کو ’’ ناقابلِ قبول‘‘ قرار دیا۔
عوامی سطح پر بھی فلسطین کے حق میں ایک نئی بیداری پیدا ہوئی۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ کیا انسانی حقوق صرف طاقتور اقوام کیلئے ہیں؟ کیا فلسطینی انسان نہیں؟
بقول احمد فراز
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا
حصہ ششم: فلوٹیلا کے بعد کے قافلے: فلوٹیلا مشن کے بعد کئی اور قافلے روانہ ہوئے۔ اگرچہ اسرائیل نے سب پر پابندی لگائی، لیکن یہ تحریک رک نہ سکی۔ دنیا کے مختلف خطوں سے لوگ امداد لیکر نکلے، کبھی ترکی سے، کبھی یورپ سے، کبھی افریقہ سے۔ یہ قافلے دراصل ایک اعلان تھے کہ غزہ کے لوگ اکیلے نہیں ہیں۔ دنیا کے کونے کونے میں ایسے دل موجود ہیں جو ان کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتے ہیں۔
بقول محسن نقوی
میں جس کے عشق میں برباد ہو گیا محسن
وہ اجنبی بھی میرا ہم سفر نکلے گا
حصہ ہفتم: پاکستان اور عالمِ اسلام کا ردِعمل: پاکستان میں فلوٹیلا مشن کی خبر بجلی کی طرح پھیلی، عوام نے مظاہرے کیے، اخبارات میں اداریے لکھے گئے، شعرا نے فلسطین کے حق میں کلام کہا۔ عالم اسلام میں ترکیہ کو ایک رہنما کی حیثیت حاصل ہوئی، کیونکہ اس نے سب سے جرات مندانہ موقف اپنایا، تاہم کئی مسلم ممالک نے صرف رسمی بیانات تک خود کو محدود رکھا۔ یہی منافقت آج بھی امت مسلمہ کے زخموں کو اور گہرا کرتی ہے۔
جیسا کہ حبیب جالب نے کہا
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کے چلے
وہ جو سایہ عام بن کے چلے
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
حصہ ہشتم: ادبی معنویت اور فلسطین: ادب ظلم کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کرتا ہے۔ فلسطین پر دنیا کے کئی شعرا نے کلام لکھا۔ فیض کی نظمیں، جالب کے انقلابی اشعار، محسن نقوی کی قربانی کی تصویریں اور مظفر وارثی کی دعائیں، سب فلسطین کی جدوجہد کے استعارے ہیں۔ فلسطین دراصل ظلم کیخلاف مزاحمت کی علامت بن چکا ہے۔ جب بھی دنیا میں کوئی محکوم قوم آزادی کی بات کرتی ہے، وہ فلسطین کو اپنی تحریک کا حصہ سمجھتی ہے۔
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
حصہ نہم: انسانی ضمیر کا امتحان: فلوٹیلا مشن نے دنیا کو یاد دلایا کہ انسانی حقوق کا مطلب صرف مغربی دنیا نہیں۔ فلسطینی بھی انسان ہیں، ان کے بھی خواب ہیں، ان کے بھی بچے ہیں لیکن عالمی طاقتوں کی منافقت عیاں ہوئی۔ ایک طرف وہ انسانی حقوق کے علمبردار بنتے ہیں، دوسری طرف اسرائیل کے ظلم پر خاموش رہتے ہیں۔ یہ دوغلا پن دراصل انسانیت کے ضمیر پر ایک دھبہ ہے۔
مظفر وارثی کہتے ہیں
ستمگر کو خود اپنے ظلم کا حساب دینا ہے
یہ دنیا فانی ہے، یہ دن بھی بدلنے ہیں
حصہ دہم: فلسفیانہ پہلو اور مستقبل کی اُمید: فلوٹیلا مشن ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ اندھیروں میں بھی اگر کوئی چراغ جلایا جائے تو وہ روشنی ضرور پھیلاتا ہے۔ ظلم وقتی طور پر غالب آ سکتا ہے، مگر ہمیشہ کیلئے نہیں۔ فلسطین کی آزادی آج نہیں تو کل ضرور ہوگی کیونکہ دنیا میں ہمیشہ حق غالب آتا ہے، یہی تاریخ کا سبق ہے، یہی قرآن کا پیغام ہے، اور یہی انسانی ضمیر کی آواز ہے۔
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
اختتامیہ: فلوٹیلا مشن قربانی، انسانیت اور امید کا استعارہ ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ظلم کے سامنے سر جھکانا بزدلی ہے اور مظلوم کی مدد کرنا انسانیت کی اصل پہچان۔ فلسطین کے معصوم بچے آج بھی امید کی نگاہ سے دنیا کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ قافلہ رکا نہیں بلکہ ایک سوچ، ایک تحریک اور ایک تاریخ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
ظلمت کو جلا ڈالیں گے، ہم لوگ وفا ڈالیں گے
اس ظلم کے اندھیروں میں، اُمید کا دیا ڈالیں گے
ڈاکٹر اے اے جان







