جعلی ڈگری پر سزا

جعلی ڈگری پر سزا
تحریر : رفیع صحرائی
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملتان نے عوامی راج پارٹی کے سربراہ سابق ایم این اے جمشید دستی کو جعلی ڈگری کیس میں مجموعی طور پر 17سال قید کی سزا سنا دی۔ جمشید دستی کے خلاف الیکشن کمیشن نے جعلی ڈگری کیس دائر کر رکھا تھا۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملتان نے جعل سازی پر 2سال، جعلی دستاویزات پر 7سال، جعلی دستاویزات کو اصلی دکھانے کے جرم میں 2سال قید اور 10ہزار روپے جرمانہ، رشوت دینے کی کوشش کرنے کے جرم میں تین سال جبکہ دفعہ 82کے جرم میں تین سال قید کی سزا سنائی ہے۔ استغاثہ کے مطابق ملزم نے مظفر گڑھ کے حلقہ این اے 178سے الیکشن میں حصہ لیا۔ جعلی ڈگری کی بنیاد پر انہیں قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دیا گیا۔
پرویز مشرف نے جب عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بی اے کی شرط رکھی تو بہت سے نامی گرامی سیاست دان الیکشن لڑنے کے اہل نہ رہے تھے۔ انہوں نے مجبوراً اپنی اگلی نسل کو یا کسی عزیز رشتے دار کو الیکشن کے اکھاڑے میں اتارا۔ بہت سے سیاست دانوں نے تب جعلی ڈگریاں بنوا کر بھی الیکشن لڑا تھا جن میں سے کچھ سیاست دان ایکسپوز بھی ہو گئے تھے۔ بعد میں ہونے والے عام انتخابات میں اہلیت کا معیار بی اے ختم کر دیا گیا۔
ہمارے مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والے بہاول پور کے مشہور سیاست دان جمشید دستی نے 2013ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا اور ایم این اے منتخب ہوئے۔ وہ اپنے دبنگ لہجے اور مزاحمتی سیاست کی وجہ سے پورے ملک میں مشہور ہو گئے۔
جمشید دستی بدقسمتی سے اوائل عمری میں تعلیم حاصل نہیں کر سکے تھے۔ سیاست میں مقام بنا تو انہیں اپنی تعلیمی کم مائیگی کا احساس شدت سے ہونے لگا۔ ان کے ساتھی سیاست دانوں کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی۔ جمشید دستی نے دیر آید درست آید کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے تعلیم مکمل کرنے کا سوچا۔ یہ سال 2017ء کی بات ہے جب انہوں نے اپنی تعلیمی کمی کو دور کرنے کے لیے سنجیدگی سے غور کیا۔ انہیں پتا تھا کہ اگلا سال 2018ء الیکشن کا سال ہے۔ ہو سکتا ہے ان کے دل میں یہ خیال آ گیا ہو کہ کہیں الیکشن کمیشن انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ایک مرتبہ پھر بی اے کی شرط عائد نہ کر دے۔ یہ بھی ممکن ہے ان کے کسی بدخواہ نے یہ مشورہ دے دیا ہو کہ پہلے آپ بی اے کر لیں، ایف اے وغیرہ بعد میں ہو جائے گا۔ وجہ کچھ بھی ہو جمشید دستی نے فیصلہ کر لیا کہ ایف اے سے پہلے بی اے پاس کر لیا جائے۔ چنانچہ مبینہ طور پر انہوں نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے 19اگست 2017ء کو رول نمبر 23966رجسٹریشن نمبر 16-IB b- 3127کے تحت بی اے کا امتحان 800میں سے 455نمبر حاصل کر کے پاس کر لیا۔ الیکشن کمیشن کو مہیا کیے گئے بی اے کے رزلٹ کارڈ کی فوٹو کاپی پر تصویر بھی جمشید دستی ہی کی ہے۔ بی اے کا داخلہ بھیجتے وقت جمشید دستی نے ایف اے کی سند یا رزلٹ کارڈ کی کاپی لگائی تھی یا نہیں، اس کے بارے میں یونیورسٹی کے شعبہ داخلہ کے ریکارڈ سے ہی پتا چل سکتا ہے۔
جمشید دستی نے 2017ء میں بی اے پاس کرنے کے بعد سوچا ہو گا کہ لگے ہاتھوں ایف اے پاس بھی کر لینا چاہیے۔ ممکن ہے سیاسی مصروفیات کی وجہ سے انہیں دیر ہو گئی ہو یا بورڈ کی شرط ہو کہ بی اے پاس کرنے کے بعد ایف اے کا امتحان دینے کے لیے دو تین سال کا وقفہ ضروری ہے۔ بہرحال جمشید دستی نے 2020ء میں انٹرمیڈیٹ بورڈ کراچی سے 9نومبر 2020 ء کو ایف اے کا امتحان رول نمبر 988607کے تحت 1100میں سے 427نمبر حاصل کر کے بطور پرائیویٹ امیدوار تھرڈ ڈویژن میں پاس کر لیا۔ جب الیکشن کمیشن میں جمشید دستی کے وکیل سے اس بابت پوچھا گیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ ان کے موکل نے بی اے کا امتحان 2017ء میں اور ایف اے کا امتحان 2020ء میں پاس کیا تھا۔
جمشید دستی سے الیکشن ہارنے والے ان کے مخالف امیدوار اور درخواست دہندہ نے الیکشن کمیشن کے روبرو یہ الزام بھی عائد کیا کہ جمشید دستی کی میٹرک کی سند بھی جعلی ہے۔ ان کے وکیل کا موقف ہے کہ انہوں نے بہاول پور بورڈ سے میٹرک پاس کر رکھا ہے۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ جمشید دستی نے میٹرک کس سال میں پاس کیا تھا۔
جمشید دستی بہت مضبوط سیاسی پس منظر کے حامل نہیں ہیں ورنہ وہ بھی سابق وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کی طرح کہہ سکتے تھے کی ’’ ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے چاہے اصلی ہو یا نقلی‘‘۔
جعلی ڈگری پر جمشید دستی کو نااہلی اور قید و جرمانہ کی سزا ہو گئی ہے۔ وہ یقیناً اس سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کر کے ریلیف حاصل کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ مسئلہ صرف جرمانے و قید کی سزاں کا نہیں ہے۔ اگر یہ سزائیں برقرار رہتی ہیں تو وہ آئندہ کبھی الیکشن نہیں لڑ سکیں گے۔ گویا ان کا سیاسی کیریئر ہی ختم ہو جائے گا۔





