ColumnTajamul Hussain Hashmi

علامہ اقبالؒ کا غازی علم دین

علامہ اقبالؒ کا غازی علم دین
تحریر : تجمل حسین ہاشمی
آقاؐ کی ولادت سراپا رحمت ہے ، آپؐ کی آمد سے کائنات کو زندگی ملی۔ مرحبا یا مصطفیؐ! 1927ء میں لاہور کے ایک ہندو پبلیشر راج پال نے حضورؐ کی شان میں گستاخانہ کتاب شائع کی۔ مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا اور اس پر مقدمہ قائم ہوا۔ سٹی مجسٹریٹ نے راج پال کو چھ ماہ قید کی سزا سنائی، مگر ہائی کورٹ کے جج کنور دلیپ سنگھ نے اسے رہا کر دیا۔ رہائی کے اس فیصلے نے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کر دیا۔ اس وقت ایک نوجوان، غازی علم دین، غیرتِ ایمانی سے سرشار ہو کر اٹھا اور اس گستاخ کو واصلِ جہنم کر دیا۔ مفکرِ اسلام علامہ اقبالؒ نے علم دین کو سزا سے بچانے کے لیے قائداعظم محمد علی جناحؒ کو وکیل بنایا، 1929ء میں غازی علم دین کو پھانسی دے دی گئی۔ یوں وہ شہادت کے بلند ترین مرتبے پر فائز ہوئے۔ اس موقع پر علامہ اقبالؒ نے فرمایا: ’’ یہی نوجوان ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے‘‘۔
مولانا خادم حسین رضوی مرحوم بھی غازی علم دین شہید اور علامہ اقبالؒ کے عشقِ رسولؐ سے لبریز نظریات کے بڑے قدردان تھے اور اپنے بیانات میں اکثر ان کا ذکر کرتے۔
1930 ء کے الہ آباد اجلاس میں علامہ اقبالؒ نے علیحدہ مملکت کا خواب پیش کیا، جس کی بنیاد بھی دراصل عشقِ رسولؐ تھی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ تحریکِ پاکستان کی اصل روح عشقِ مصطفیٰ ؐ تھی، اور تحریکِ آزادی کشمیر کی اساس بھی یہی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہ حقیقت اٹل ہے اور تا قیامت قائم رہے گی۔ جموں و کشمیر بھی آزاد ہو گا۔
اسلام امن، محبت اور انسانی حقوق کا دین ہے۔ دنیا کو تسلیم کرنا ہوگا کہ حضورؐ کی ناموس پر قربانی دینا ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ نہ غازی علم دین مولوی تھے، نہ قائداعظمؒ اور نہ ہی علامہ اقبالؒ، مگر تینوں کی زندگیاں عشقِ رسولؐ کی روشنی سے منور تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کائنات تخلیق ہی حضورؐ کی ذاتِ اقدس کے لیے ہوئی، اور اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبؐ کی محبت ہر مسلمان کے دل میں ودیعت فرما دی ہے۔
پاکستان کلمہ طیبہ کے نام پر وجود میں آیا اور اللہ نے پاکستان کے ذمہ اپنے گھر کی چوکیداری کا شرف عطا فرمایا۔ آج پاکستان اسلامی دنیا کی توانا آواز ہے۔ کوئی مسلمان خواہ نماز پڑھنے میں کوتاہی کرے یا روزہ نہ رکھتا ہو، لیکن توہینِ رسالت کبھی برداشت نہیں کر سکتا ۔ ہمارے کلمے میں محمدؐ ہیں، ہماری نماز میں محمدؐ ہیں، ہماری اذان میں محمد ؐ ہیں اور ہمارے قرآن میں محمدؐ جلوہ گر ہیں ۔ جہاں کہیں بھی گستاخی ہو ، مسلمان کا دل زخمی ہوتا ہے اور وہ احتجاج پر مجبور ہو جاتا ہے۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دنیا کو باور کرایا: ’’ حضور ؐ ہمارے دلوں میں بستے ہیں، جب ان کی توہین کی جاتی ہے تو ہمارے دلوں کو شدید تکلیف پہنچتی ہے اور آپ جانتے ہیں کہ دل کی تکلیف سب سے زیادہ اذیت ناک ہوتی ہے‘‘۔
آج ہمارے لیے سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ملکی ترقی اور معاشرتی اصلاح کے لیے حضورؐ کی تعلیمات کو اپنایا جائے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں وہی معاشرہ تعمیر کیا جائے جس کی بنیاد آپؐ نے رکھی تھی۔ افسوس کہ آج ہم حسد، کینہ اور نفرت میں جل رہے ہیں۔ انسانی حقوق پامال ہیں، بے راہ روی عام ہے اور ہم رسولِ اکرمؐ کی اصل تعلیمات سے دور ہو چکے ہیں۔
ملکی کامیابی محبوبؐ کی زندگی پر چلنے سے ہی ممکن ہے۔ قرآن میں علم و ترقی کے بے پناہ خزانے موجود ہیں، مگر ہم نے ان سے منہ موڑ لیا ہے۔ حکومتِ وقت کو سمجھنا ہوگا کہ محض عقل اور دنیاوی تدبیروں سے مسائل حل نہیں ہوں گے، بلکہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے سے ہی بے روزگاری، غربت اور بے راہ روی جیسے بڑے مسائل ختم ہو سکتے ہیں ۔ بھوک انسان کو کفر اور خودکشی تک لے جاتی ہے، اور یہی سب ہماری بگڑتی معاشرت کا سبب ہیں۔
پاکستان کے قیام کا مقصد اسلام کی سربلندی اور دینی آزادی تھا۔ مگر آج صورتحال یہ ہے کہ ظلم عام ہے، آئین پامال ہے اور دین دشمن عناصر کھلے عام سرگرم ہیں۔ سرکاری اداروں میں کرپشن اور نااہلی نے معاشرے کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ اس بگاڑ کے سب سے بڑے ذمہ دار وہ ہیں جو ریاستی فیصلوں کے مالک ہیں۔

جواب دیں

Back to top button