امریکہ کی ’’ برڈن شیئرنگ‘‘ پالیسی

امریکہ کی ’’ برڈن شیئرنگ‘‘ پالیسی
تحریر : قارخان یوسف زئی
غزہ کی سرزمین پر خون اور تباہی کی داستانیں کئی عشروں سے جاری ہیں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کی گئی پالیسی، جس میں عرب اور مسلم ممالک سے غزہ میں فوجی دستے بھیجنے اور تعمیرِ نو کے اخراجات برداشت کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، ایک ایسی حکمت عملی ہے جو علاقائی طاقتوں کی ذمہ داریوں کو نئی جہت عطا کرتی ہے۔ یہ محض سیاسی بیانات کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک ایسی سوچ کی عکاسی ہے جو امریکا کی ’’ امریکہ فرسٹ‘‘ پالیسی کو واضح کرتی ہے۔ اس تجویز نے غزہ کے بحران کو عالمی سیاست کے ایک پیچیدہ کھیل کے طور پر پیش کیا ہے، جہاں انسانی بحران کے ساتھ ساتھ طاقت کے توازن اور ذمہ داریوں کی تقسیم کا سوال بھی اہم ہے۔
ٹرمپ کی یہ تجویز اس وقت سامنے آئی جب غزہ میں جنگ اپنے عروج پر تھی۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق، ہزاروں جانیں ضائع ہو چکی تھیں، اور بنیادی ڈھانچہ تباہ حال تھا۔ ٹرمپ نے عرب رہنماں سے ملاقاتوں میں واضح کیا کہ عرب ممالک اس بحران سے نمٹنے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہیں۔ اس کی جڑیں امریکی خارجہ پالیسی کے اس تصور میں پیوست ہیں جسے ’’ برڈن شیئرنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی، امریکہ اب براہ راست فوجی مداخلت سے گریز کرنا چاہتا ہے اور اپنے اتحادیوں، خاص طور پر عرب ممالک، کو آگے لانا چاہتا ہے تاکہ اخراجات اور ذمہ داریاں تقسیم کی جا سکیں۔
غزہ کی موجودہ حالت پر نظر ڈالیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ تعمیرِ نو کی ضرورت کتنی شدید ہے۔ ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ کی ایک مشترکہ رپورٹ کے مطابق، غزہ کو دوبارہ کھڑا کرنے کے لیے کم از کم 53ارب ڈالر درکار ہیں، اور یہ صرف بنیادی ڈھانچے کی بات ہے۔ رہائشی مکانات کا 53فیصد حصہ تباہ ہو چکا ہے، صحت کے مراکز کا 84فیصد حصہ ناکارہ ہو گیا ہے، پانی کی سپلائی کا صرف 25فیصد فعال ہے اور سڑکوں کا 68فیصد حصہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ یہ اعداد و شمار محض تعداد نہیں، بلکہ لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کی کہانی ہیں۔ جب ہم ان اعداد کو انسانی تناظر میں دیکھتے ہیں تو تصویر اور بھی بھیانک ہو جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق، جنگ میں ہلاک ہونے والوں میں تقریباً 70فیصد عورتیں اور بچے ہیں۔ کم از کم 14500بچوں کی ہلاکت ہوئی، جن میں سے سب سے کم عمر کا شکار ایک دن کا بچہ تھا اور سب سے زیادہ عمر کی 97سال کی خاتون۔ یہ اعداد اس جنگ کی بے رحمی کو ظاہر کرتے ہیں، جہاں ہسپتال، اسکول، اور رہائشی علاقے مسلسل نشانہ بنتے رہے ہیں۔
ٹرمپ کی پالیسی اس بحران کے تناظر میں عرب ممالک کو آگے لاتی ہے، مگر یہ سوال اہم ہے کہ کیا عرب دنیا اس ذمہ داری کے لیے تیار ہے؟ عرب لیگ کی جانب سے پیش کیا گیا متبادل منصوبہ، جو 53ارب ڈالر کا ہے، فلسطینیوں کو ان کی سرزمین پر رکھنے پر زور اور حماس کو گورننس سے دور رکھنے کی تجویز پیش کرتا ہے۔ اس منصوبے میں ایک عبوری کمیٹی کی تشکیل کی بات کی گئی ہے جو فلسطینی ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ہو گی اور فلسطینی اتھارٹی کی واپسی کی تیاری کرے گی۔ ٹرمپ کی تجویز کے برعکس، یہ عرب منصوبہ جبری نقل مکانی کو سختی سی مسترد کرتا ہے اور اسے نسل کشی قرار دیتا ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ عرب ممالک، جیسے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اور مصر، اس پالیسی پر شدید تحفظات رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بغیر اسرائیلی تعاون اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری کے، وہ نہ تو فوجی دستے بھیجیں گے اور نہ ہی مالی امداد فراہم کریں گے۔ ٹرمپ کی حکمت عملی میں یہ دبا ایک اوزار کے طور پر استعمال ہو رہا ہے، جو عرب رہنماں کو متبادل منصوبے پیش کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
امریکی کردار پر نظر ڈالیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ امریکا نے اس جنگ میں اسرائیل کو غیر معمولی فوجی امداد فراہم کی ہے۔ اکتوبر 2023ء سے لے کر اب تک، 15000سے زائد بم، 57000آرٹلری شیلز، اور 100سے زائد اسلحہ کی فروخت کی منظوری دی گئی ہے۔ فروری 2025ء میں ٹرمپ نے مزید 3ارب ڈالر کی امداد کی منظوری دی، جس میں 35500بم شامل تھے۔ یہ امداد اس وقت دی جا رہی ہے جب غزہ میں انسانی بحران اپنے عروج پر ہے۔ سلامتی کونسل میں امریکا نے چھ بار غزہ میں جنگ بندی کی قراردادوں پر ویٹو کیا ہے۔ امریکی موقف یہ ہے کہ یہ قراردادیں حماس کی مذمت نہیں کرتیں اور اسرائیل کے دفاع کے حق کو نظر انداز کرتی ہیں۔ مگر یہ ویٹو عالمی سطح پر امریکہ کو تنہا کر رہے ہیں۔ کئی ممالک، جیسے کہ فرانس، برطانیہ، کینیڈا، اور آسٹریلیا، نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے، جو اسرائیلی اقدامات سے مایوسی کی عکاسی کرتا ہے۔عرب ممالک نے خبردار کیا ہے کہ اگر ٹرمپ کی نقل مکانی کی تجاویز پر عمل ہوا تو علاقے میں مکمل عدم استحکام آئے گا۔ یرغمالیوں کا مسئلہ اس سارے منظرنامے کا ایک اہم حصہ ہے۔
بغیر اسرائیلی دستبرداری اور فلسطینی حقوق کی ضمانت کے، کوئی بھی قدم اٹھانا ممکن نہیں۔ ٹرمپ کی حکمت عملی میں یہ ایک کمزور کڑی ہے، کیونکہ عرب دنیا اپنے اندرونی مسائل سے نمٹ رہی ہے اور غزہ کو ایک اضافی بوجھ کے طور پر دیکھتی ہے۔ دوسری جانب، غزہ کی عوام کی حالت زار اس بحران کی شدت کو اجاگر کرتی ہے۔ 2.2ملین افراد میں سے بیشتر کیمپوں میں رہ رہے ہیں، جہاں خوراک، پانی، اور ادویات کی شدید قلت ہے۔ غزہ میں 41سے 47ملین ٹن ملبہ ہے، جسے صاف کرنے میں 14سال لگ سکتے ہیں۔ یہ بحران نہ صرف فوری امداد بلکہ طویل مدتی منصوبہ بندی کا بھی کا تقاضا کرتا ہے۔
عرب رہنمائوں کا موقف یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکا نے غزہ کو تباہ کیا ہے، تو تعمیرِ نو کی ذمہ داری بھی انہی پر عائد ہوتی ہے۔ یہ تنازع عالمی سطح پر ایک گرم موضوع بنا ہوا ہے، جہاں ایک جانب انسانی حقوق کی تنظیمیں اسرائیلی اقدامات کو جنگی جرائم قرار دے رہی ہیں، اور دوسری جانب اسرائیل خود کو دفاع میں دیکھتا ہے۔ ٹرمپ کی تجویز اس بحث کو ایک نئی جہت دیتی ہے، کیونکہ یہ عرب ممالک کو ایک ایسے کردار میں ڈالتی ہے جو وہ شاید قبول نہ کریں۔ تحقیق سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ٹرمپ کا منصوبہ ان کی سابقہ پالیسیوں، جیسے کہ ’’ ڈیل آف دی سنچری‘‘ کا تسلسل ہے، جو فلسطینیوں کے حقوق کو نظر انداز کرتی تھی۔ یہ نیا منصوبہ بھی اسی سوچ کی پیداوار ہے۔





