خوش فہمی اور غلط فہمی
خوش فہمی اور غلط فہمی
تحریر :صفدر علی حیدری
ایک صاحب لکھتے ہیں
’’ میں نے پروفیسر مشکور سے پوچھا خوش فہمی اور غلط فہمی میں کیا فرق ہے۔ فرمایا کوئی فرق نہیں ۔ پہلی صورت خوش مزاج لوگوں کی سمجھ میں ہوتی ہے اور دوسری صورت منفی مزاج رکھنے والوں کی سوجھ بوجھ کو کہتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ اُن کا اپنا شمار دونوں میں سے کس قسم میں ہوتا ہے۔ پروفیسر صاحب نے خود کو خوش فہم لوگوں میں شامل کیا ۔ میں نے کہا پروفیسر صاحب مجھے غلط فہمی تھی کہ آپ اچھی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ مگر آپ کو اپنے بارے میں مکمل خوش فہمی ہے ‘‘۔
خوش فہمی اچھی چیز ہے۔ شاید یہ امید کا دیا بجھنے نہیں دیتی۔ امید کا چراغ بجھ جائے تو مایوسی کا اندھیرا ہر چیز پر اپنا سایہ ڈال دیتا ہے۔
ایک بار میں نے اپنے ایک دوست سے پوچھا :
’’ محبت سے خوش فہمی نکال دی جائے تو باقی کیا بچتا ہے ؟
’’ غلط فہمی‘‘
مجھے حیرت کا جھٹکا سا لگا۔ اتنا مختصر اور مکمل جواب۔
اب سوال یہ ہے کہ ان دونوں میں بہتر چیز کون سی ہے ؟
خوش فہمی یا غلط فہمی ؟
اس حوالے سے بہت سی باتیں سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیں۔ قارئین کی دل چسپی کے لیے چیدہ چیدہ باتیں یہاں ذکر ہو رہی ہیں۔ امید ہے میرے قارئین کو درست نتیجے تک پہنچے میں آسانی ہو گی ۔ اب آپ یہ مت دیکھیں کہ کون کون کہہ رہا ہے۔ یہ دیکھیں کہ کیا کیا کہہ رہا ہے
غالب نے تو کہہ دیا تھا
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
لیکن آپ کے لیے میری امید یہی ہے اور توقع بھی کہ آپ بہت کچھ سمجھ جائیں ۔
’’ شاید دونوں میں ہم زمینی حقائق کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ خوش فہمی کی صورت میں جان کر اور غلط فہمی کی صورت میں لاعلمی کے بموجب ‘‘
خوش فہمی کا مطلب دراصل اپنی منشاء کے مطابق نتیجہ نکالنا ہے اور غلط فہمی حقیقت تک نہ پہنچنے کی کیفیت کو کہہ سکتے ہیں ۔
’’ خلافِ حقیقت مثبت گمان کرنا خوش فہمی اور خلافِ حقیقت محض گمان غلط فہمی ہو گا ۔ یہ گمان منفی بھی ہو سکتا ہے یعنی امکانات کی سطح پہ دیکھا جائے تو غلط فہمی کا دائرہ وسیع ہے ‘‘
’’ خوش فہمی غلط فہمی کی وہ نوعیت ہوتی ہے جس میں جو غلط رائے قائم ہو وہ مثبت نوعیت کی ہو ۔ اور غلط فہمی کوئی بھی رائے جو عوامل کے بر خلاف ہو ‘‘
ایک رائے یہ ہے کہ
’’ کسی چیز پر اپنی طرف سے اچھا قیاس کرنا لیکن وہ بعد ازاں اچھا ثابت نہ ہو خوش فہمی کہلاتا جب کہ کسی چیز پر برا قیاس کرنا لیکن وہ خلاف توقع بہتر ثابت ہو غلط فہمی کہلاتا ہے ‘‘
’’ ایک عمومی خوش فہمی یہ ہے کہ مجھے کبھی غلط فہمی نہیں ہو سکتی اور غلط فہمی یہ کہ کوئی دوسرا کبھی خوش فہم نہیں ہو سکتا ‘‘
بعض لوگوں کے نزدیک
’’ خوش فہمی اصل میں غلط فہمی کا نتیجہ ہے اور غلط فہمی کم فہمی سے جنم لیتی ہے جس کی ہمارے ہاں کبھی کمی نہیں رہی ۔ ویسے یہ جان بوجھ کر انجان بننا اور کسی چیز کو نظر انداز کرنا کوئی ہم سے سیکھے ‘‘
’’ خوش فہمی میں شخص کسی معاملے یا صورت حال کو حقیقت سے کہیں بہتر سمجھتا ہے ، جب کہ غلط فہمی میں وہ کسی چیز کو حقیقت سے کہیں بدتر سمجھتا ہے ۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی شخص سمجھے کہ وہ کسی امتحان میں بہت اچھے نمبروں سے پاس ہو گا حالاں کہ وہ ناکام ہو جاتا ہے تو یہ خوش فہمی ہے ۔ جب کہ، اگر کوئی سمجھے کہ وہ امتحان میں ناکام ہو گا جب کہ وہ اچھے نمبروں سے پاس ہو جاتا ہے تو یہ غلط فہمی ہے ‘‘
ایک اور رائے دیکھیے
’’ جب کسی شخص کا کوئی عقیدہ یا سوچ حقیقت سے زیادہ اچھی یا سازگار ہو، اور بعد میں وہ حقیقت کے برعکس نکلے‘‘۔
مثال: ایک شخص جو اپنے آپ کو بہت زیادہ باصلاحیت سمجھے، اور جب اس کے کام کو پرکھا جائے تو وہ اس کی توقع کے برعکس بہت کمزور نکلے۔
غلط فہمی یہ ہے کہ
’’ جب کسی شخص کی رائے یا خیال حقیقت کے برعکس ہو اور اس کا منفی پہلو زیادہ ہو‘‘۔
مثال:
ایک شخص جو سمجھے کہ وہ کسی کام کو نہیں کر سکتا، لیکن جب وہ اسے کرتا ہے تو وہ حیرت انگیز طور پر اچھے طریقے سے مکمل ہو جاتا ہے۔
گویا خوش فہمی حقیقت کو بڑھا چڑھا کر دیکھتی ہے، جب کہ غلط فہمی حقیقت کو کم تر کر کے۔
خوش فہمی میں امید زیادہ ہوتی ہے اور کمتری کا شکار ہوتا ہے۔
غلط فہمی میں امید کم ہوتی ہے اور نتیجہ توقع سے بہتر نکلتا ہے۔
’’ خوش فہمی میں اصل غلطی یہ ہے کہ ہم اچھی چیز کی توقع کر رہے ہوتے ہیں، مگر وہ اچھی نہیں نکلتی جبکہ غلط فہمی میں اصل غلطی یہ ہے کہ ہم بری چیز کی توقع کر رہے ہوتے ہیں، مگر وہ درحقیقت بری نہیں ہوتی۔
غلط فہمی میں مبتلا شخص حقیقت کا ادراک ہونے پر غلطی درست کرنے کی سمت میں جا سکتا ہے۔
جب کہ خوش فہمی وہ عارضہ ہے جس میں مبتلا شخص اپنے آپ کو وہ سمجھنے لگ جاتا ہے جو وہ نہیں ہوتا اور اگر یہی خوش فہمی اگر اس میں جڑیں گہری کر لے تو وہ یہ چاہتا ہے کہ دوسرے بھی اسے وہی سمجھیں جو وہ خود کو سمجھتا ہے ‘‘۔
’’ خوش فہمی میں مثبت مگر جھوٹی امید پائی جاتی ہے ۔
خوش فہمی میں سوچ کا مثبت پہلو زیادہ نمایاں نظر آتا ہے۔
غلط فہمی میں اصلاح کی گنجائش ہوتی ہے مگر خوش فہمی میں اصلاح مشکل ہے ‘‘۔
’’ خوش فہمی ‘کچھ ہونے’ کی غلط فہمی ہوتی ہے
اور غلط فہمی ‘کچھ نہ ہونے’ کی خوش فہمی ہوتی ہے ‘‘
’’ غلط فہمی میں سوچ کا منفی پہلو زیادہ نمایاں نظر آتا ہے
آخر میں نتیجہ دونوں کا منفی ہی نکلتا ہے‘‘
اب ایک شگفتہ سی رائے دیکھیے
’’ آپ خود کو پیارا سمجھتے ہیں یہ آپ خوش فہمی ہے اور لوگ آپ کو پیارا سمجھتے ہیں یہ بھی آپ کی ہی غلط فہمی ہے ‘‘
’’ خوش فہمی، اپنی منشا کے مطابق نتیجہ نکالنا، ہر کام کو اپنی خواہش کے مطابق خیال کرنا، غلط فہمی ۔
گویا ایک دل اور دوسرا دماغ کے غلط ہونے کا ثبوت ہے ۔
میرا خیال اتنی رائے کافی ہے ۔ بعض اوقات باتیں یا چیزیں زیادہ ہو جائیں تو فیصلہ کرنا اور زیادہ دشوار ہو جاتا ہے ۔ اور میں ایسا نہیں چاہتا ‘‘۔
بس آخر میں اپنے دوست صدیق علی خان رائے کا حوالہ دوں گا جو مجھے بہت پسند آئی
’’ خوش فہمی وہ کیفیت ہے جس میں انسان حقیقت سے بڑھ کر اپنے بارے میں یا اپنے حالات کے بارے میں اچھا گمان رکھتا ہے۔ یہ گمان اگر اعتدال میں ہو تو امید، حوصلہ اور مثبت سوچ کو جنم دیتا ہے، لیکن جب حد سے بڑھ جائے تو انسان حقیقت سے کٹ کر ایک خیالی دنیا میں رہنے لگتا ہے۔ خوش فہمی بعض اوقات خوشی کا سہارا بن جاتی ہے، مگر ساتھ ہی انسان کو حقیقت کے کڑوے ذائقے سے بے خبر رکھتی ہے۔
غلط فہمی اس کے برعکس ہے۔ یہ اُس وقت جنم لیتی ہے جب انسان سچائی کو سمجھے بغیر کوئی رائے قائم کر لیتا ہے۔ غلط فہمی اکثر تعلقات کو زہر آلود کر دیتی ہے، اعتماد کو توڑ دیتی ہے اور حقیقت کو دھندلا کر پیش کرتی ہے۔ یہ ایک ایسی کمزوری ہے جو انسان کو دوسروں کے بارے میں بے جا گمان کرنے پر مجبور کرتی ہے اور رشتوں میں دراڑ ڈال دیتی ہے‘‘۔
یہ کالم اتفاق سے اس طرز کا ہو گیا، مجھے تو پاک، سعودی تعلقات اور اس معاہدے کے بارے لکھنا تھا، جس کا بڑا شہرہ ہے، اتنا کہ اس پر سب بول اور لکھ رہے ہیں اور اس کے حق میں لکھنے والے کثیر تعداد میں ہیں۔
اس حوالے سے اتنا زیادہ باتیں ہو رہی ہیں کہ انسان مخمصے میں پڑ جائے کہ
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے ؟
ایک بزرگ صحافی کی رائے پڑھی تو حیرت سے اچھل پڑا
’’ اس معاہدے کے بعد پاکستان کا قرضہ ہوا میں اڑ جائے گا‘‘
مگر ایک اور بڑے صحافی کا کالم پڑھا تو سوچ میں پڑ گیا کہ کون سی بات سچ سمجھوں ، کس بات کو خلاف واقعہ سمجھ کر رد کر دوں۔
انہوں نے لکھا کہ اس معاہدے کے حوالے سے ہمارے ازلی دشمن اسرائیل نے کسی ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ گویا ان کی نظر میں اس کی کوئی اہمیت ہے ہی نہیں۔
اب اس طرح کی متضاد رائے پڑھ کر میں تو سچ الجھ کر رہ گیا ہوں اور یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ اس معاہدے کے حوالے سے جو مثبت تاثر ابھارا جا رہا ہے اسے پاکستانیوں کی خوش فہمی کا نام دوں یا غلط فہمی کا!!!
صفدر علی حیدری





