کیا امریکہ اب بھی سپر پاور ہے؟

کیا امریکہ اب بھی سپر پاور ہے؟
تحریر : روشن لعل
لفظ ’’ بھرم‘‘ کے جو مختلف معانی ہیں ان میں سے ایک ساکھ بھی ہے۔ جب کبھی’’ بھرم قائم ہونا‘‘ یا ’’ بھرم قائم رکھنا‘‘ جیسے الفاظ بولے جاتے ہیں تو ان کا مطلب ساکھ بننا اور ساکھ بنائے رکھنا ہوتا ہے۔ جہاں تک ’’ امریکی بھرم ‘‘ کا تعلق ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کی ایک خاص ساکھ ہے جس کے مطابق یہ دنیا کی واحد عسکری اور معاشی طاقت ہے۔ امریکہ کے دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کا بھرم سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد قائم ہوا۔ سرد جنگ کے خاتمہ سے قبل امریکہ اور مرحوم سوویت یونین دنیا کی دو ہم پلہ بڑی طاقتیں تھیں۔ سرد جنگ کے خاتمہ پر سوویت یونین کا نام دنیا کے نقشے سے مٹ جانے کے بعد امریکہ کو دنیا کی واحد سپر پاور تصور کر لیا گیا۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد عالمی سطح پر جانے مانے کئی دانشوروں نے یہ کہا کہ سرمایہ دارانہ اور اشتراکی معیشتوں کے حامل دو متحارب ملکوں کا خود کو ایک دوسرے سے بڑی عسکری طاقت بنانے کا مقابلہ کیوں کہ ختم ہو چکا، لہذا اب امریکہ کو اس طرح کا کردار ادا کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے جس کی ضرورت سوویت یونین کے سپر پاور بنے رہنے کی صورت میں موجود تھی۔ ان دانشوروں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر امریکہ وہی کردار ادا کرنے کی کوشش کرے گا جو سرد جنگ کے زمانے میں کرتا رہا تو یہ بات کسی اور سے زیادہ خود اس کی اپنی معیشت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگی۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ میں حکومت چاہے ڈیموکریٹک پارٹی رہی یا ریپبلکن پارٹی کی ، واشنگٹن سے پہلے کی طرح ہر وہ کام کیا گیا جس سے ان کے ملک کا دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کا بھرم قائم رہے۔ سرد جنگ کے زمانے کی طرح خود کو عسکری طاقت بنائے رکھنے کی کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب امریکہ کے دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہونے کے پر سوال اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔ امریکہ کے دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہونے پر سوال اس وقت اٹھنا شروع ہوئے جب اس ملک کے اپنے اندر سے یہ آوازیں باہر آئیں کہ دنیا کی اس واحد سپر پاور کے دیوالیہ ہونے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ کسی بھی ملک کے دیوالیہ (Default)ہونے کا اس پر واجب الادا قرض(Debt )سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اس وقت جہاں امریکہ کا یہ بھرم ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی معاشی اور عسکری طاقت ہے وہاں یہ بھی شہرت ہے یہ دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک بھی ہے۔ کسی بھی ملک کے مقروض ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ دیوالیہ ہونی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے کیونکہ دنیا میں شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جو کسی دوسرے ملک یا بین الاقوامی ادارے کا مقروض نہ ہو۔ ماہرین کے مطابق کسی مقروض ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ اس وقت پیدا ہو تا ہے جب اس کے قرض کی شرح جی ڈی پی کی نسبت 60فیصد زیادہ ہو جائے ۔ ایسی صورت میں مقروض ملک کی طرف سے معینہ مدت کے دوران لیے گئے قرض پر سود یا اصل زر کی ادائیگی کے امکان کو معدوم تصور کیا جاتا ہے۔ یہ بات کیونکہ طے شدہ ہے کہ سرمایہ دارانہ معیشت میں کوئی بھی ملک قرض لینے سے گریز نہیں کر سکتا لہذا قرض کو عیب تسلیم کیے بغیر یہ کہا جاتا ہے کہ اکثر ملکوں کو اس وقت قرض لینے کی ضرورت پیش آتی ہے جب ان کے اخراجات اور مالیاتی محاصل (Revenue Collectionمیں عدم توازن پیدا ہو جائے۔ ایسا عدم توازن پیدا ہونے کی صورت میں قرض لینے کا جواز اس کی ادائیگی کا ذریعہ اور طریقہ بیان کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کا بھرم رکھنے والا امریکہ بھی اگر مختلف اداروں اور ملکوں کا مقروض ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اسے قرض لینے کی ضرورت اسی وجہ سے پیش آئی کیونکہ اس کے اخراجات اور مالیاتی محاصل میں توازن برقرار نہیں رہ سکا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان جیسے ملکوں کو بھی اخراجات اور مالیاتی محاصل میں عدم توازن کی وجہ سے آئی ایم ایف وغیرہ سے قرض لینا پڑتا ہے مگر اس مماثلت کے باوجود بھی امریکہ اور پاکستان کے معاملات کو ایک جیسا نہیں سمجھا جاسکتا ۔ واضح رہے کہ کسی بھی ملک کے قرض لینے کی شرح ، اس کی جی ڈی پی کی نسبت 60فیصد سے زیادہ ہو جائے تو اس شرح کو غیر محفوظ تصور کیا جاتا ہے اس وقت پاکستان کی جی ڈی پی کی نسبت اس کا قرض تقریباً78 فیصد جبکہ ماہرین معاشیات کے مطابق 2025ء کے آخر تک امریکی قرض، جی ڈی پی کی نسبت 125فیصد تک ہو سکتا ہے ۔ یہاں یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ اگر امریکہ کا قرض (Debt)اس کی جی ڈی پی کی نسبت انتہائی غیر متوازن ہے تو اس کا اور پاکستان کا معاملہ ایک جیسا کیوں نہیں سمجھا جاسکتا۔ اس بات کا جواب یہ ہے کہ جنگ عظیم دوئم کے بعد 1946ء میں امریکہ کا اندرونی و بیرونی قرض اس کی جی ڈی پی کا 106فیصد تھا جس کی ادائیگیاں معینہ مدت میں طے شدہ شیڈول کے مطابق اس طرح کی گئیں کہ امریکہ کا قرض 1974ء میں اس کی جی ڈی پی کا 23فیصد ہو گیا۔ ان باتوں کو مد نظر رکھ کر سمجھا جاسکتا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے معاملات ایک جیسے کیوں نہیں ہیں۔ یاد رہے کہ اگر ارجنٹینا یا پاکستان جیسی ملک دیوالیہ ہوں تو اثرات صرف ان ملکوں کے عوام تک محدود ہو نگے جبکہ امریکہ کے دیوالیہ ہونے سے پوری دنیا میں مالیاتی قیامت برپا ہو سکتی ہے۔
امریکہ میں حکومت کے لیے قرض (Debt )لینے کی حد کا قانون موجود ہے۔ اس قانون کے باوجود امریکہ کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ اس لیے پیدا ہوا کیونکہ قرض لینے کی حد تک پہنچنے کے بعد وہاں مزید قرض لیے بغیر واجب الادا قرض کی شیڈول کے مطابق ادائیگیاں ممکن نہیں تھیں۔ امریکہ میں یہ صورتحال جوبائیڈن کے دور میں پیدا ہوئی اور ٹرمپ کی حکومت میں بھی جاری ہے۔ایسی صورتحال پیدا ہونے کے باوجود امریکہ نے مزید قرض لینے کا راستہ ترک نہیں کیا بلکہ قانون سازی کر کے قرض لینے کی حد بڑھا دی ۔ اس قانون سازی سے امریکہ کو وقتی طور پر دیوالیہ ہونے سے تو بچا لیا گیا ہے مگر اس طرح کا حل دیرپا ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ 2010ء کے بعد وہاں جی ڈی پی کی نسبت قرض کی مسلسل بڑھتی ہوئی شرح کو دیکھ کر ماہرین نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ 2050ء تک امریکہ کی جی ڈی پی نسبت قرض کی شرح 195 فیصد تک ہو سکتی ہے۔ ماہرین کے نزدیک امریکہ کے دیوالیہ ہونے جیسے خطرات سے باہر نکلنے اور معاشی طاقت کے طور پر بھرم قائم رکھنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو واشنگٹن سرد جنگ میں ادا کیا ہوا کردار جاری رکھنے سے احتراز کرے لیکن صدر ٹرمپ کے سر پر اب بھی امریکہ کو دنیا کی واحد سپر پاور بنائے رکھنے کا بھوت سوار ہے جبکہ بیرونی دنیا میں امریکہ کے سپر پاور بنے رہنے پر سوال اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔





