وزیراعظم کا عالمی پلیٹ فارم پر صائب بیانیہ

وزیراعظم کا عالمی پلیٹ
فارم پر صائب بیانیہ
وزیراعظم شہباز شریف کا حالیہ دورہ امریکا، جہاں انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کی، قومی مفادات کے تحفظ، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے، اقتصادی استحکام کے فروغ اور بین الاقوامی تعلقات کے استحکام کی سمت جامع اور متحرک حکمت عملی کی عکاسی کرتا ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم نے عالمی برادری کو پاکستان کے موقف سے آگاہ کیا اور کئی اہم عالمی رہنمائوں سے ملاقاتیں کرکے نہ صرف پاکستان کے موقف کی وضاحت کی بلکہ سفارتی سطح پر نئے امکانات کی راہیں بھی ہموار کیں۔ وزیراعظم کا اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی سمٹ میں خطاب نہایت بروقت اور حقیقت پسندانہ تھا۔ انہوں نے عالمی برادری کو یاد دلایا کہ پاکستان کا کاربن اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے مگر پاکستان ماحولیاتی آفات کے سب سے زیادہ شکار ممالک میں شامل ہے۔ 2022ء کے تباہ کن سیلاب کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے عالمی برادری کو یاد دلایا کہ پاکستان کو 30ارب ڈالر سے زائد کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا اور موجودہ مون سون کے دوران بھی عوام شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نے زور دیا کہ پاکستان نہ صرف گرین ہائوس گیسز میں کمی کے لیے عملی اقدامات کر رہا بلکہ متبادل توانائی اور گرین انرجی کو فروغ دینے میں بھی سنجیدہ ہے۔ ان کا خطاب صرف ایک شکایتی بیان نہیں تھا، بلکہ انہوں نے پاکستان کی مثبت کوششوں کا تذکرہ کیا، جس سے یہ تاثر گیا کہ پاکستان عالمی ماحولیاتی ذمے داریوں کو سنجیدگی سے لے رہا ہے۔ وزیراعظم کی چینی وزیراعظم لی چیانگ، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، سری لنکن صدر انورا کمارا اور ورلڈ بینک گروپ کے صدر اجے بنگا سے ملاقاتیں اہم سفارتی کامیابیاں ہیں۔ یہ ملاقاتیں نہ صرف عالمی منظرنامے میں پاکستان کے کردار کو اجاگر کرتی بلکہ علاقائی و بین الاقوامی تعلقات میں استحکام کی نوید بھی ہیں۔ وزیراعظم اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان گرم جوش ملاقات خاصی دلچسپی کا باعث بنی۔ اگرچہ یہ ملاقات غیر رسمی نوعیت کی تھی، مگر یہ واضح کرتا ہے کہ پاکستان امریکی پالیسی سازوں کے ساتھ رابطے میں رہنا چاہتا ہے، خصوصاً ان شخصیات کے ساتھ جن کا مستقبل میں دوبارہ اقتدار میں آنا ممکن ہے۔ وزیراعظم کی آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا اور ورلڈ بینک کے صدر سے ملاقاتیں انتہائی اہمیت کی حامل رہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی تکمیل کے لیے پُرعزم ہے اور حکومت کی اقتصادی اصلاحات کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ 2022ء کے سیلاب کے اثرات کو آئی ایم ایف کے جائزے میں شامل کیا جائے تاکہ پاکستان کو مزید مالی آسانیاں میسر آئیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے عالمی بینک کی کرونا اور سیلاب کے دوران معاونت پر شکریہ ادا کیا اور ملک کے اصلاحاتی ایجنڈے، خصوصاً توانائی، نج کاری اور وسائل کے بہتر استعمال کے حوالے سے بریفنگ دی۔ یہ ملاقاتیں ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان معاشی استحکام کے لیے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے فعال تعاون کررہا ہے۔ وزیراعظم اور سری لنکن صدر کے درمیان ملاقات بھی سفارتی طور پر خاص اہمیت رکھتی ہے۔ دونوں رہنمائوں نے دوطرفہ تجارت، تعلیمی و ثقافتی تبادلے اور دفاعی تعاون سمیت کئی شعبوں پر بات چیت کی۔ کھیلوں، بالخصوص کرکٹ میں تعاون بڑھانے پر اتفاق، دونوں ممالک کے درمیان عوامی رابطوں کو مضبوط بنانے کی کوشش ہے، جو خطے میں نرم سفارت کاری کے فروغ کے لیے موثر اقدام ہے۔ وزیراعظم نے درابن، ڈیرہ اسماعیل خان میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں 13دہشت گردوں کی ہلاکت پر فورسز کو خراج تحسین پیش کیا۔ ان کا کہنا کہ ’’ پاک فوج اور سیکیورٹی ادارے دہشت گردی کی جڑیں اکھاڑ پھینکنے کے لیے پرعزم ہیں’’ ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین پر امن کے قیام کے لیے کسی قسم کی نرمی نہیں برتے گا۔ اس بیان سے عالمی برادری کو یہ بھی باور کروایا گیا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر کردار ادا کرتا رہا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ وزیراعظم نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے خوشگوار اور غیر رسمی ملاقات کے دوران خطے کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔ وزیراعظم نے اس موقع پر کہا کہ صدر ٹرمپ امن کے داعی ہیں اور ماضی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں ان کا کردار مثبت رہا ہے۔ یہ پیغام ایک حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کے ذریعے پاکستان امریکی قیادت کے مختلف دھڑوں سے متوازن تعلقات قائم رکھنا چاہتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی نیویارک میں اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے دوران متحرک سفارت کاری، جامع خارجہ پالیسی اور مضبوط اقتصادی بیانیہ ملک کے عالمی تشخص کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہورہا ہے۔ چاہے وہ موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ ہو، معاشی اصلاحات کی بات ہو یا دہشت گردی کے خلاف موقف، وزیراعظم نے ہر محاذ پر پاکستان کا موقف ٹھوس انداز میں پیش کیا۔ ضروری ہے کہ ان عالمی وعدوں اور ملاقاتوں کو پائیدار پالیسیوں میں تبدیل کیا جائے۔ بین الاقوامی برادری کو اعتماد میں لینے کے ساتھ، پاکستان کو اندرونی سطح پر بھی سیاسی و اقتصادی استحکام کو ترجیح دینا ہوگی تاکہ عالمی فورمز پر پیش کی گئی تصویر زمینی حقائق سے بھی مطابقت رکھے۔ حکومت اگر اسی تسلسل سے شفاف اور متحرک خارجہ پالیسی پر عمل پیرا رہے تو پاکستان بین الاقوامی سطح پر نہ صرف ایک باوقار ریاست کے طور پر ابھرے گا، بلکہ اپنی اقتصادی و ماحولیاتی مشکلات سے بھی موثر انداز میں نبرد آزما ہوسکے گا۔
مسئلہ کشمیر اور او آئی سی کی موثر آواز
اسلامی تعاون تنظیم ( او آئی سی) کے رابطہ گروپ برائے جموں و کشمیر کا حالیہ اجلاس ایک بار پھر عالمی برادری کی توجہ مسئلہ کشمیر پر مرکوز کرنے کی سنجیدہ اور قابلِ تحسین کوشش ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر منعقد ہونے والے اس اہم اجلاس میں کشمیری عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی اور ان کے حقِ خودارادیت کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا گیا، جو کشمیری عوام کے لیے حوصلہ افزا پیغام ہے۔ اس اجلاس میں پاکستان، سعودی عرب، ترکیہ، نائیجر اور آذربائیجان جیسے اہم مسلم ممالک کے نمائندگان کی شرکت اور کشمیری عوام کے حقیقی نمائندوں کی موجودگی نے اجلاس کی سنجیدگی اور اہمیت کو دوچند کردیا۔ اجلاس کی صدارت او آئی سی کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل برائے سیاسی امور یوسف ایم نے کی، جس میں مقبوضہ کشمیر کی سیاسی و سیکیورٹی صورت حال پر تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان کے مطابق اجلاس میں وزیراعظم پاکستان کے معاون خصوصی برائے خارجہ امور طارق فاطمی نے جس انداز میں بھارتی مظالم، غیر قانونی اقدامات اور آبادیاتی تبدیلیوں کو بے نقاب کیا، وہ نہایت بروقت اور موثر رہا۔ طارق فاطمی نے بھارت کی جانب سے ظالمانہ قوانین کے نفاذ، شہری آزادیوں پر قدغن اور مقبوضہ علاقے میں آبادیاتی تناسب کو تبدیل کرنے کی پالیسیوں کو نہ صرف بے نقاب کیا بلکہ او آئی سی پر زور دیا کہ وہ بھارت پر دبائو ڈالے تاکہ سیاسی قیدیوں کی رہائی ممکن ہو اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں بند کی جائیں۔ اس سے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کرنے کے نقصانات کو سمجھے۔پہلگام حملے کے بعد کے حالات نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن اور استحکام مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے بغیر ممکن نہیں۔ بھارتی رہنمائوں کی طرف سے آنے والے اشتعال انگیز بیانات نہ صرف کشیدگی کو ہوا دیتے بلکہ خطے کے امن کو بھی خطرے میں ڈالتے ہیں۔ اس پس منظر میں او آئی سی کا یہ بیان کہ بھارتی انتخابات کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کا متبادل نہیں ہوسکتے، ایک مضبوط اور واضح موقف ہے جو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں سے ہم آہنگ ہے۔ او آئی سی نے مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم، 2800سے زائد کشمیریوں کی گرفتاری، گھروں کی مسماری اور بزرگ کشمیری رہنما شبیر شاہ کی عدم رہائی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ مذہبی آزادیوں پر پابندی، جیسے کہ سری نگر کی جامع مسجد اور عیدگاہ میں عبادات پر قدغن، بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے، جس کی عالمی سطح پر مذمت ہونی چاہیے۔ اجلاس میں 5اگست 2019ء کے بھارتی اقدامات کو یکسر مسترد کرنا او آئی سی کے دیرینہ موقف کا اعادہ ہے۔ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور وہاں غیر کشمیریوں کو آباد کر کے انتخابی نتائج کو متاثر کرنے کی کوششیں عالمی قوانین، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور انسانی حقوق کی روح کے منافی ہیں۔او آئی سی نے اس موقع پر اپنے سیکریٹری جنرل کے خصوصی ایلچی کے حالیہ دورہ پاکستان اور آزاد کشمیر کا خیر مقدم بھی کیا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ او آئی سی کا یہ اجلاس ایک بروقت اور اہم قدم ہے جو مسئلہ کشمیر کو عالمی فورمز پر اجاگر کرنے کے لیے نئی توانائی مہیا کرتا ہے۔ اقوام متحدہ بشمول عالمی برادری کو اپنی دہری پالیسی ترک کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل میں عملی کردار ادا کرنا ہوگا، ورنہ جنوبی ایشیا میں ایک اور بڑا انسانی المیہ جنم لینے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔





