Column

بحری وسائل کا تحفظ: ایک عالمی فریضہ

بحری وسائل کا تحفظ: ایک عالمی فریضہ
تحریر: اقصیٰ کنول
بحری وسائل محض تجارتی راستے یا قدرتی ذخائر نہیں، بلکہ یہ کسی بھی ملک کی معیشت، سلامتی اور ماحولیاتی بقاء کے بنیادی ستون ہیں۔ تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی حالات، موسمیاتی بحران، اور بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تجارت نے سمندری حدود کی اہمیت کو پہلے سے کہیں زیادہ بڑھا دیا ہے۔ بحری صنعت، جو عالمی معیشت کی شہ رگ سمجھی جاتی ہے، آج خود شدید ماحولیاتی دبائو اور آلودگی جیسے خطرات کا سامنا کر رہی ہے۔ ورلڈ میری ٹائم ڈے ہر سال اس عزم کی تجدید کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ سمندری وسائل کی حفاظت، بحری تجارت کی اہمیت اور ماحولیاتی توازن کے قیام کو اجاگر کیا جائے۔ یہ دن اس امر کی یاد دہانی ہے کہ سمندر ہماری معیشت ، ماحول اور مستقبل کے لئے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان چیلنجز کے تناظر میں ’’ ہمارا سمندر، ہماری ذمہ داری، ہمارا مستقبل‘‘ کے موضوع پر منایا جانے والا ورلڈ میری ٹائم ڈے 2025ایک یاد دہانی ہے کہ بحری وسائل کا تحفظ اب صرف آپشن نہیں، ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔
سمندر کرہ ارض کے موسمی نظام کو منظم کرنے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے خوراک کا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ لاکھوں لوگوں کے روزگار کا وسیلہ بنتے ہیں اور بے شمار اقسام کی حیاتیاتی انواع کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ ان کا وجود نہ صرف ہمارے ماحول بلکہ ہماری معیشت اور معاشرت کے تانے بانے سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ سمیت دنیا کے تمام بڑے ادارے اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ اگر سمندروں کو آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے محفوظ نہ بنایا گیا تو کرہ ارض کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔
دنیا کی تقریباً 80فیصد بین الاقوامی تجارت سمندری راستوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ بندرگاہیں، تجارتی راہداریاں اور بحری جہاز عالمی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہی صنعت اگر درست اصولوں پر نہ چلائی جائے تو سمندر کی صحت کے لیے ایک بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔ بحری جہازوں سے خارج ہونے والی آلودگی، پلاسٹک کچرے کا سمندروں میں اخراج، اور تیل کے رسائو جیسے مسائل سمندری ماحول کے لیے سنگین خطرات بن چکے ہیں۔
ان خطرات سے نمٹنے کے لیے کئی عالمی معاہدے وجود میں آئے ہیں، جن میں سب سے نمایاں ( میرین پولوشن) مار پول کنونشن ہے۔ یہ معاہدہ اور اس سے متعلقہ دیگر قوانین بحری جہازوں کی جانب سے پیدا کردہ آلودگی کو محدود کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں، جن میں گندے پانی، زہریلے مواد، تیل، اور دیگر فضلات کے سمندر میں اخراج پر سخت ضابطے عائد کیے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جہازوں سے گرین ہاس گیسز کے اخراج کو کم کرنے کے لیے بھی مختلف ٹیکنالوجیز اور پالیسیز پر کام ہو رہا ہے تاکہ عالمی حدت میں اضافے کو روکا جا سکے۔
اقوامِ متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف (SDGs)میں سمندری تحفظ، ماحولیاتی توازن، انفراسٹرکچر کی بہتری، اور عالمی شراکت داری جیسے پہلوئوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ ان اہداف کا مجموعی پیغام یہی ہے کہ کرہ ارض کی بقا، ماحولیاتی نظام کی بحالی اور پائیدار ترقی، اجتماعی ذمہ داری، اور عملی تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ سمندری وسائل کا موثر تحفظ، موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ، اور بحری انفراسٹرکچر کی ترقی، ان عالمی اہداف کی روشنی میں ایک ناگزیر تقاضا بن چکا ہے، جس کے لیے ریاستوں، اداروں اور معاشروں کو باہمی ہم آہنگی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔
اس عالمی پس منظر میں پاکستان ایک اہم میری ٹائم ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔ بحیرہ عرب سے متصل اس کی ساحلی پٹی نہ صرف قومی سلامتی بلکہ معیشت، ماہی گیری، توانائی کے حصول اور ماحولیاتی توازن کے لیے بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ کراچی، پورٹ قاسم اور گوادر کی بندرگاہیں پاکستان کی بین الاقوامی تجارت کا مرکز ہیں۔ پاکستان کے لیے محفوظ اور پائیدار شپنگ روٹس کی اہمیت ناقابلِ تردید ہے، اور یہی وجہ ہے کہ پاک بحریہ اس میدان میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔
گزشتہ برسوں میں پاک بحریہ نے سمندری ماحول کی بہتری کے لیے مختلف ٹھوس اقدامات کیے ہیں، جن میں ساحلی علاقوں میں بڑے پیمانے پر مینگرووزکی شجرکاری کے منصوبے شامل ہیں۔ مینگرووز نہ صرف سمندر سے زمین کے کٹا کو روکتے ہیں بلکہ یہ سمندری حیاتیاتی تنوع، ماہی گیری اور کاربن جذب کرنے کے حوالے سے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ شجرکاری منصوبے نہ صرف پاکستان کے ماحولیاتی منظر نامے کو بہتر بنا رہے ہیں بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی مثبت شناخت کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پاک بحریہ غیر قانونی ماہی گیری کے خلاف موثر نگرانی اور کارروائیاں کر رہی ہے۔ یہ اقدامات نہ صرف ملکی وسائل کی حفاظت کے لیے ضروری ہیں بلکہ یہ سمندری حیاتیاتی توازن کو برقرار رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان کی خصوصی اقتصادی زون (EEZ)میں موجود قدرتی وسائل جیسے تیل، گیس، معدنیات اور ماہی گیری کے ذخائر کو بیرونی استحصال سے بچانے کے لیے بھی پاک بحریہ مسلسل سرگرمِ عمل ہے۔ مزید برآں، پاک بحریہ کے اینٹی نارکوٹکس اور اینٹی اسمگلنگ آپریشنز سمندری گورننس کا ایک اہم پہلو ہیں۔ ان کارروائیوں کے ذریعے نہ صرف غیر قانونی سرگرمیوں کا قلع قمع کیا جا رہا ہے بلکہ سمندری راستوں کو محفوظ اور مستحکم بنانے میں بھی مدد مل رہی ہے۔ ان تمام اقدامات کے ذریعے پاک بحریہ اس عالمی تصور کو تقویت دے رہی ہے کہ سمندر صرف راستے نہیں، بلکہ ریاستی خودمختاری، ماحولیاتی توازن اور معاشی بقاء کا ذریعہ بھی ہیں۔
ورلڈ میری ٹائم ڈے 2025دراصل ہمیں یاد دلاتا ہے کہ سمندر صرف وسائل کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک امانت ہے، جسے محفوظ رکھنا ہمارا اخلاقی، ماحولیاتی اور معاشی فریضہ ہے۔ اس امانت کی حفاظت صرف کسی ایک ادارے یا ریاست کی ذمہ داری نہیں بلکہ پوری دنیا کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم سب مل کر ’’ ہمارا سمندر، ہماری ذمہ داری، ہمارا مستقبل‘‘ کے عزم کو عملی شکل دیں، کیونکہ ایک محفوظ، پائیدار اور صحت مند سمندر ہی ایک محفوظ اور خوشحال دنیا کی ضمانت ہے۔

جواب دیں

Back to top button