ColumnImtiaz Aasi

سویلین کا ملٹری ٹرائل ،ملٹری ایکٹ کا دائرہ کار؟

سویلین کا ملٹری ٹرائل ،ملٹری ایکٹ کا دائرہ کار؟
نقارہ خلق (
امتیاز عاصی
گو سپریم کورٹ نے سویلین کو ملٹری کورٹس سے سزائوںکے خلاف اپیل کا حق دینے کے لئے حکومت کو قانون سازی کے لئے45 دن کا وقت دے دیا ہے تاہم ایک سوال ابھی تک تشنہ طلب ہے آیا ملٹری ٹرائل کن لوگوں کا ہوسکتا ہے یا نہیں؟آرمی ایکٹ کے تحت صرف انہی سویلین کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے جو ملٹری ایکٹ میں آتے ہیں جیسا کہ لانڈری مین،ہیر ڈریسراور اس طرح کے سویلین جوملٹر ی میں کام کر رہے ہوں ان کا بھی اسی وقت ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے اگر جنگ ہو رہی ہواور ان سے کوءی جرم سرزد ہو گیا ہووہ آرمی ایکٹ کی سکیشن 2 ڈی میں آتے ہوں ورنہ آرمی ایکٹ کے تحت کسی سویلین کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا۔ اب سوال ہے جس عدالت نے سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل کرنے کی اجازت دی وہ بھی تو سپریم کورٹ کے جج صاحبان ہیں۔چلیں وقتی طور پر یہ تصور کر لیا جائے ملٹری کورٹس سے سزا یافتہ مجرمان کی اپیلیں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں سماعت ہوں گی تواعلیٰ عدلیہ میں کام کرنے والے معزز جج صاحبان وہی ہیںجنہوں نے سویلین کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کی اجازت دی۔ کون سا کوئی نئے جج ان کی اپیلیں سنیں گے؟پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اتنی بڑی تعداد میں سویلین کا ملٹری ٹرائل نہیں ہوا جیسا کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے رہنمائوں اور ورکرز کا ہو ا ہے یا ابھی ہونا باقی ہے۔ہم ملک کے آئین کی بات کریں تو وہ ہر شہری کو اپیل کا حق دیتا ہے ۔بدقسمتی سے اس وقت ملک کے آئین کو کھلونا بنا دیا گیا ہے ۔سیاسی آزادیوں پر قدغن ہے ایسے ایسے قوانین بنا دیئے گئے ہیں کوئی سچ بات کہے تو اس کے خلاف مقدمہ بن جاتا ہے۔اب جو بنیادی سوال ہے آیا سویلین کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں اس کے بارے میں اعلیٰ عدلیہ نے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے بلکہ اس قانونی نقطہ کا جائزہ لینے کی بجائے آگے چل پڑے ہیں۔ اگر حکومت اس سلسلے میں قانونی سازی کر بھی لے کہ ملٹری کورٹس سے سزا یافتہ مجرمان کو اپیل کا حق دینا ہے تو جج صاحبان تو وہی ہیں جنہوں نے ملٹری ٹرائل کی اجازت دی۔ درحقیقت آئین میں 26 ویں ترمیم نے اعلیٰ عدلیہ کے پر کاٹ دیئے ہیں۔ہم اگر ماضی کی طرف لوٹیں تو چیف جسٹس صاحب عوامی مسائل کے معاملات پرعام طور پر از خود نوٹس لے لیا کرتے تھے جو اب خواب بن گیا ہے۔ جوڈیشری میں تفریق دکھائی دے رہی ہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججوں کی نالش کا تاحال فیصلہ نہیں ہو سکا تھا کہ جسٹس طارق جہانگیری کے اختیارات کا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے۔ عجیب تماشہ ہے سوشل میڈیا پر میں دیکھ رہا تھا کہ کوئی صاحب جسٹس جہانگیری کے بارے میں کہہ رہے تھے وہ زمانہ طالب علمی میں پی ایس ایف سے منسلک تھے تو یہ کون سی حیرت کی بات ہے۔ زمانہ طالب علمی میں ہر کوئی کسی نہ کسی طلبہ تنظیم سے جڑا ہوتا تھا۔ جسٹس جہانگیری کا مجھے بھی اچھی طرح یاد ہے وہ پی ایس ایف کے ساتھ تھے لیکن کیا یہ ان کا جرم ٹھہرا ہے۔ میں یہ بات دعویٰ سے کہتا ہوں وکلاء اور جج صاحبان میں سے بہت کم ہوں جو کسی نہ کسی سیاسی جماعت یا اس کی ذیلی تنظیم کے ساتھ نہیں رہے ہوں گے۔ موجودہ حکومت نے آئین کا حلیہ بگاڑ دیا ہے ۔گزشتہ چند سالوں سے عدلیہ کے حالات پر رونا آتا ہے جسٹس شوکت صدیقی والا معاملہ دیکھ لیں لیکن انہوں نے دبائو ڈالنے والے حلقوں کا برملا اظہار کرکے اپنا قد کاٹھ بڑا کر لیا ہے ورنہ اگر وہ خاموش رہتے تو انہیں کون یاد رکھتا۔ ہمیں کسی سیاسی جماعت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے جہاں تک عدلیہ کی آزادی کی بات ہے عدلیہ آزاد نہیں ہے۔ اگر عدلیہ آزاد ہوتی تو سیاسی جماعت کے بے شمار ورکر جیلوں میں پڑے ہیں ان کے مقدمات کی سماعت ہوتی ہے نہ انہیں ضمانت مل رہی ہے۔ان تمام باتوں کے باوجود کوئی عدلیہ کو آزاد سمجھتا ہے تو احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔آئین میں ترمیم سے عدلیہ انتظامیہ کا حصہ بن گئی ہے ۔چیف جسٹس کا انتخاب وزیراعظم صاحب تین ججز کے پینل سے کیا کریں گے ورنہ ماضی میں اس سلسلے میں یہ بات طے تھی جو جج سینیارٹی میں سب سے سنیئر ہوگا وہی چیف جسٹس بننے کا حقدار ہو گا لیکن جسٹس منصور کو چیف جسٹس بننے سے روکنے کے لئے حکومت نے ایک نیاراستہ دریافت کیا ۔ملک میں انصاف ناپید ہو چکا ہے جن اقوام میں انصاف نہیں ہوتا وہ قومیں صفحہ ہستی سے مٹ جایا کرتی ہیں ۔آج ہماری تباہی میں کون سی کسر باقی ہے۔ہمارے نزدیک ان تمام خرابیوں کے ذمہ دار سیاست دان ہیں سیاسی جماعتوں کے لوگ اقتدار کی ہوس نہ رکھنے والے ہوں تو عدلیہ کی آزادی پر کوئی قدغن نہیں لگا سکتا مگر اس حکومت نے تو تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ ایک بڑی سیاسی جماعت کابانی اور سابق وزیراعظم جیل میں ہے اس کی سزائوں کے خلاف اپیلیں سماعت کے لئے نہیں لگ رہی ہیں ۔ حکومت کو اس بات کا ادراک ہے اس کے مقدمات سماعت ہوں گے تو اسے رہائی مل جائے گی جو اس کے لئے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے چیف جسٹس کو انصاف کے حصول کے لئے خط لکھا تھا جس کے جواب میں چیف جسٹس صاحب کا کہنا تھا وہ عمران خان کی درخواست پر چوبیس گھنٹوں میں فیصلہ صادر کریں گے لیکن ابھی تک خا ن کی درخواست پر کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔ سیاسی جماعتیں عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھتی تو آئین میں 26ترمیم نہیں ہو سکتی تھی۔ آئینی ترمیم کے آغاز میں حکومت اپوزیشن کو آئینی ترمیم کا مسودہ دکھانے سے گریزاں تھی لیکن بعد ازاں باامر مجبوری ترمیمی مسودہ دکھانا پڑا ۔ سیاست دانوں نے ذاتی مفادات کی خاطر عدلیہ کی آزادی چھین لی ہے جس سے ملک کا ڈھانچہ بکھر گیا ہے ۔موجودہ حالات میں نہ عدلیہ آزاد ہے اعلیٰ عدلیہ کو بھی چاہیے وہ ملٹری ٹرائل کے دائرہ کار میں جو لوگ آتے ہیں ان کے بارے میں صائب فیصلہ کرے تاکہ ملٹری ٹرائل کے بارے میں ابہام دور ہو سکے۔

جواب دیں

Back to top button