بعد از فلسطین نئی تاریخ کا آغاز

بعد از فلسطین نئی تاریخ کا آغاز
سیدہ عنبرین
دنیا جن سربراہان مملکت کو بڑے لیڈر کے طور پر جانتی ہے یا یاد رکھتی ہے وہ اپنی سنجیدگی، برد باری، مثبت فیصلے کرنے کی صلاحیت، اصولوں پر ڈٹ جانے اور باطل قوتوں اور مختلف مافیا کے سامنے نہ جھکنے کے حوالے سے جو کردار ادا کرتے ہیں وہ انہیں زندہ جاوید بنا دیتا ہے۔ بظاہر ایک چھوٹے قد کا شخص بڑا لیڈر ہو سکتا ہے، اس طرح ڈونلڈ ٹرمپ کی قامت رکھنے والا کوئی بھی شخص چھوٹا لیڈر ہو سکتا ہے، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو بھی اسی زمرے میں آتا ہے، آج دنیا میں دو بڑی قوتوں کے سربراہ ملکر ایک تین ہزار سال پرانے شہر کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں، یہ دونوں شخصیات دیکھنے میں تو قد آور ہیں لیکن در حقیقت بہت پست قامت ہیں۔ اسرائیل اور امریکہ دونوں کے بارے میں طویل عرصہ تک یہ تاثر رہا کہ دونوں کی ترقی کا راز ان کے لیڈروں کی دور رس نگاہوں اور عام آدمی کی محنت و لگن میں پنہاں ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس نکلی، دونوں حکومتیں اور ان کے سربراہ گزشتہ چند برسوں میں کھل کر سامنے آئے ہیں، دونوں کوتاہ نظر اور حد درجہ متعصب ہیں، دونوں اپنے دماغ سے نہیں سوچتے، دونوں کو ایک بڑا اور طاقتور مافیا کنٹرول کرتا ہے، یہ یہودی مافیا ہے، جو دنیا کے ستر فیصد کاروبار کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہے۔ امریکہ اور اسرائیل دونوں توسیع پسندانہ عزائم رکھتے ہیں، ایک غزہ کو ہڑپ کرنے کے بعد اردن، مصر، شام اور سعودی عرب کی زمین پر قابض ہونا چاہتا ہے تو دوسرا کبھی پانامہ کو ہتھیانے کی بات کرتا ہے، کبھی گرین لینڈ پر قبضے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے، کبھی بگرام کے فوجی اڈے کے بارے میں سوچ کر اس کے منہ میں پانی آتا ہے۔
دوسری طرف چھپن اسلامی ممالک میں لاکھوں ایکڑ رقبہ، معدنیات تیل کی دولت، دنیا کی بہترین افرادی قوت، جفاکش فوجیں، بہترین دفاع، چار موسم، سونا گلتی زمینیں، وسائل کی بھرمار، پشت پر ایٹم بم کی طاقت، لیکن ایک بالشت بھر کے ملک اور ایک بالشیئے اور نام نہاد لیڈر کے سامنے بے بس ہیں، نہیں معلوم ان کا خمیر کس مٹی سے اٹھا ہے، نتین یاہو نے دو ریاستی حل کیلئے بے تاب، آنیاں جانیاں کرنے والوں کو دو ٹوک لفظوں میں پیغام دیا ہے کہ وہ فلسطین نامی کسی ریاست، کسی ملک کو نہیں مانتا، وہ غزہ سے بچے کھچے فلسطینیوں کو باہر نکال کر اس خطہ ارض پر اسرائیل کو قائم کرنے جا رہا ہے، دنیا اس کی زبان اور اس کا ہاتھ پکڑنے سے قاصر ہے۔ سر زمین عرب سے شمالی افریقہ تک تلواروں کی جھنکار میں آگے بڑھنے والے کبھی اس قدر کمزور پڑ جائیں گے گزشتہ صدی میں کوئی ایسا سوچ بھی نہ سکتا تھا، لیکن آج اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔ اقوام متحدہ جیسا بے دست و پا ادارہ گزشتہ ستر برس سے مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتا رہا۔ چھپن ملک چین کی بانسری بجاتے رہے اور پرامید رہے کہ بس اب فلاں واقعے کے بعد اس کا چال چلن ٹھیک ہوجائے گا، اس کی ناک کے نیچے عراق، شام، مصر، لیبیا، سوڈان، افغانستان، یمن اور پاکستان پر قیامتیں گزر گئیں، سب ملکر اس قیامت کا انتظار کرتے رہے جب پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑنے لگیں گے، سب ملکر انتظار کرتے رہے کہ سورج ابھی سوا نیزے پر نہیں آیا، پس اس کا مطلب ہے ابھی قیامت نہیں آئی۔
فلسطین اور غزہ پر جو قیامت گزر ی ہے، عقل انسانی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی، ہم بڑے آرام سے کہہ دیتے ہیں اور سن لیتے ہیں غزہ میں ایک لاکھ مرد، خواتین، بچے ، بوڑھے جام شہادت نوش کرگئے، یہ سب کچھ چشم زدن میں نہیں ہوا، غزہ کے مسلمانوں نے دو برس مزاحمت جاری رکھی، وہ بھوکے پیاسے بھی لڑے، وہ زخموں سے چور ہو کر بھی لڑتے رہے، وہ پر امید تھے کہ چھپن ملکوں میں سے شاید کوئی چھ ملک بھی ان کی مدد کو پہنچ گئے تو وہ بازی پلٹ دیں گے۔ فقط ایک ملک ان تک گرتا پڑتا پہنچا، وہ بھی اس طرح کہ جب اس پر بم برسائے گئے تو باقی سب نے آنکھیں میچ لیں اور کرکٹ میچ سے دل بہلاتے رہے۔ غزہ میں گزرے کل اٹھارہ کثیر المنزلہ عمارتیں بمباری کر کے گرا دی گئی ہیں، مجموعی طور پر سوا سو سے زائد ایسی رہائشی عمارتیں گرائی گئی ہیں، سیکڑوں سکول اور درجنوں ہسپتال کھنڈر بنا دیئے گئے ہیں، پانچ لاکھ فلسطینیوں کو ہانک کر علاقے سے نکالا جا چکا ہے، جبکہ دو اسلامی ملکوں میں یہ مقابلہ جاری ہے کہ زیادہ اونچی عمارت تعمیر کرنے کا اعزاز کسے حاصل ہے۔ قطر پر برسائے گئے راکٹوں اور میزائلوں سے بھی خواب غفلت میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوا، اب اقوام متحدہ کے اجلاس میں ایک رسمی کارروائی کے بعد غزہ اور فلسطین کی فاتحہ پڑھنے کیلئے جمع ہونیوالے مسلمان ممالک بالشت بھر کا فلسطین حاصل کر کے اسے اپنی عظیم کامیابی سے تعمیر کریں گے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس موقع پر بعض متمول ملکوں کے سربراہوں کا اجلاس طلب کیا، لیکن وہاں ٹرمپ کو کوئی یہ کہنے کی جرات نہ کر سکا کہ غزہ کی تعمیر نو اور بحالی کا کام انہیں کرنا چاہئے جنہوں نے اسے برباد کیا۔ ایک اور اجلاس میں ان مسلمان ملکوں کے سربراہوں کو بلایا گیا ہے جن کی فوجیں نظم و نسق برقرار رکھنے کا تجربہ رکھتی ہیں، انہیں کہا جائیگا کہ وہ اپنے دستے ان علاقوں کیلئے مختص کریں تاکہ بچے کھچے فلسطینیوں کا انخلا پر امن انداز میں ہو سکے۔ اس کار خیر میں سبھی اپنا حصہ ڈالیں گے اور سمجھیں گے انہوں نے اپنا فرض ادا کر دیا۔
نادان مسلمان اس بات پر بہت خوش نظر آتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل کی خواہش کے برعکس بیشتر یورپی ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں، بس اب صرف امریکہ ہی رہ گیا ہے، کاش کسی کو اندازہ ہوتا کہ یہ سب کچھ امریکہ اور اسرائیل کی مرضی کے عین مطابق ہو رہا ہے۔ جو یورپی ممالک آج اسرائیل کی مذمت کر رہے ہیں اور امت مسلمہ پر احسان کرتے ہوئے فلسطین کو تسلیم کر رہے ہیں وہ درحقیقت اگر کوئی مثبت کردار ادا کرنا چاہتے تو ایک لاکھ فلسطینیوں کی شہادت سے بہت پہلے اسرائیلی مظالم کے سامنے ڈھال بن کر کھڑے ہوجاتے اور اس قدر ظلم نہ ہونے دیتے مگر سب امریکی اور اسرائیلی ایجنڈے کے ساتھ تھے، فلسطینی بھوک اور پیاس سے مرتے رہے، امریکہ جنگ بندی کی قرار دادوں کو ویٹو کرتا رہا، سب خاموش رہے۔ فلسطینی زخموں سے کراہتے رہے، طبی امداد ان تک نہ پہنچ سکی، حتیٰ کہ خوراک اور پانی لے کر جانے والی ٹرالوں پر فائرنگ ہوتی رہی۔ کوئی آگے بڑھ کر اسرائیل کو نہ روک سکا، چھپن ملکوں نے فلسطین کو اجڑتے اور برباد ہوتے دیکھا ہے اور برباد ہونے والے فلسطینی اسرائیل کی سرحدوں کو پھیلتا ہوا دیکھیں گے، تاریخ اپنا نیا سفر شروع کرنے والی ہے، اسے بھی کوئی نہ روک سکے گا، یوم حساب آ رہا ہے۔





