نیویارک سمٹ: ایران کا اخراج اور اسٹریٹیجک مضمرات

نیویارک سمٹ: ایران کا اخراج اور اسٹریٹیجک مضمرات
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
نیویارک میں 24ستمبر 2025ء کو منعقد ہونے والا عرب-اسلامی سمٹ مشرق وسطیٰ کی پیچیدہ جیو پولیٹیکل حرکیات کا ایک اور مظہر بن کر سامنے آیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور قطری امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی کی مشترکہ میزبانی میں منعقد ہونے والے اس اجلاس نے ایک بار پھر علاقائی سیاست کے نازک توازن کو عیاں کیا۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، مصر، اردن، ترکی، انڈونیشیا اور پاکستان کے رہنماں کی موجودگی میں اس سمٹ کا مرکزی ایجنڈا غزہ کی جنگ کا خاتمہ اور یرغمالیوں کی رہائی تھا۔ لیکن اس اجلاس سے ایران کی غیر موجودگی نے نہ صرف توجہ حاصل کی بلکہ اسے ایک گہرے اسٹریٹیجک تناظر میں دیکھنے کی دعوت بھی دی۔ یہ اخراج کوئی اچانک فیصلہ نہیں تھا بلکہ اس خطے کی گہری تقسیم، تاریخی دشمنیوں اور عالمی طاقتوں کے اثر و رسوخ کا تسلسل تھا۔ یہ سمٹ نہ صرف غزہ کے بحران کے حل کی کوششوں کا حصہ تھا بلکہ مشرق وسطیٰ کے مستقبل کے سیاسی اور سلامتی کے ڈھانچے کی تشکیل کی طرف ایک اہم قدم بھی تھا۔
غزہ کا بحران، جو برسوں سے مشرق وسطیٰ کے جیو پولیٹیکل تنائو کا ایک اہم نقطہ رہا ہے، اس سمٹ کے ایجنڈے کا مرکزی موضوع تھا۔ اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی شہریوں کی ہلاکت اور بڑھتا ہوا انسانی المیہ عالمی ضمیر کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں یرغمالیوں کی فوری رہائی پر زور دیا، جبکہ قطری امیر نے جنگ بندی کی فوری ضرورت پر بات کی۔ اس اجلاس میں شریک رہنمائوں نے ایک متحدہ موقف اپنانے کی کوشش کی، لیکن ایران کی غیر موجودگی نے ایک واضح خلا کو اجاگر کیا۔ ایران، جو خود کو فلسطینی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار کہتا ہے، اس اہم سفارتی عمل سے مکمل طور پر باہر رہا۔ اس کی غیر موجودگی کو محض ایک اتفاقیہ نہیں سمجھا جا سکتا، بلکہ یہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا نتیجہ تھا جو علاقائی اور عالمی طاقتوں کے مفادات سے جڑی ہوئی ہے۔
یہ صورتحال 2017ء کے ریاض سمٹ کی یاد دلاتی ہے، جب سعودی عرب نے ٹرمپ کے ساتھ مل کر ایک اسی طرح کا عرب-اسلامی اجلاس منعقد کیا تھا۔ اس وقت بھی ایران کو دانستہ طور پر دعوت نہیں دی گئی تھی، اور ترکی، پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک کو شامل کیا گیا تھا۔ قطر یونیورسٹی کے پروفیسر محمد المصفر نے اس وقت کہا تھا کہ ایران کا اخراج حیران کن نہیں، کیونکہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع ہیں، اور ایران اسلامی اتحاد کا حصہ نہیں۔ آج، 2025ء میں، یہی پیٹرن دہرایا گیا، جو اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ ایران کو علاقائی سفارتی فورمز سے الگ رکھنے کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ اخراج صرف سفارتی دشمنی کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک گہرے اسٹریٹیجک حساب کا حصہ ہے، جو مشرق وسطیٰ کی سلامتی، اتحادوں اور طاقت کے توازن سے جڑا ہوا ہے۔
ٹرمپ کی انتظامیہ کا کردار بھی اس تناظر میں اہم ہے۔ فروری 2025ء میں ایران پر ’’ زیادہ سے زیادہ دبائو ‘‘ کی پابندیوں کی بحالی نے علاقائی سفارت کاری کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ یہ پالیسی ایران کی تیل کی برآمدات کو کم کرنے اور اس کے بیرونی اثر و رسوخ کو روکنے پر مرکوز ہے۔ سمٹ سے ایران کو خارج کرکے ٹرمپ نے ایک واضح پیغام دیا کہ عرب ریاستیں، جو امریکہ کی اتحادی ہیں، ایران کے بغیر بھی امن کی کوششوں کو آگے بڑھا سکتی ہیں۔ اجلاس کے دوران ٹرمپ نے کہا کہ یہ گروپ دنیا کے کسی بھی دوسرے گروپ سے زیادہ اسے کر سکتا ہے۔ یہ بیان ایک اسٹریٹیجک نقطہ نظر کی عکاسی کرتا ہے، جہاں امریکہ اپنے اتحادیوں کو ترجیح دیتا ہے اور ایران کو سفارتی عمل سے الگ تھلگ رکھتا ہے۔ اس اخراج کے اسٹریٹیجک مضمرات گہرے اور دور رس ہیں۔ قلیل مدتی طور پر، یہ ایران کی مرکزی عرب سفارتی اقدامات سے علیحدگی کو مزید گہرا کرتا ہے۔ ایران نے ہمیشہ خود کو فلسطینی حقوق کا سب سے بڑا چیمپئن کہا ہے، لیکن اس اہم سمٹ سے اس کی غیر موجودگی نے اس دعوے پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ یہ صورتحال عرب ممالک کے درمیان اتحاد کو مضبوط کرنے کا باعث بن سکتی ہے، جیسا کہ اس سمٹ میں دیکھا گیا، جہاں رہنماں نے ایک متحدہ موقف اپنایا۔
ایران کی سفارتی عمل سے علیحدگی امریکی-ایرانی بات چیت کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے۔ ٹرمپ کی ’’ زیادہ سے زیادہ دبائو‘‘ کی پالیسی پہلے ہی ایران پر اقتصادی اور سیاسی دبائو بڑھا رہی ہے، اور اس سمٹ سے اس کی غیر موجودگی نے اس دبا کو مزید واضح کیا۔ اگر سفارتی راستے بند ہوتے ہیں تو ایران اپنی پراکسی حکمت عملی کو اور مضبوط کر سکتا ہے۔ ٹرمپ کا اسٹریٹیجک حساب کتاب یہ ہے کہ ایران کے بغیر بھی غزہ کا بحران حل کیا جا سکتا ہے۔ سمٹ میں پیش کیا گیا منصوبہ اسرائیلی فوجی انخلا، علاقائی امن دستوں کی تعیناتی اور حماس کی تحلیل پر مبنی تھا۔ اس منصوبے میں فلسطینی اتھارٹی کو سیاسی کردار دینے کی تجویز بھی شامل تھی، جو اسرائیل کی مخالفت کے باوجود پیش کی گئی۔ یہ نقطہ نظر واضح کرتا ہے کہ ٹرمپ عرب رہنمائوں کو ایک متحدہ پلیٹ فارم دے کر علاقائی استحکام کو فروغ دینا چاہتے ہیں، جبکہ ایران کو اس عمل سے باہر رکھا جا رہا ہے۔ یہ حکمت عملی خطے کے سیاسی منظر نامے کو نئی شکل دینے کی کوشش ہے، جہاں ایران کا اثر کم سے کم کیا جائے اور عرب ممالک کی قیادت کو مضبوط کیا جائے۔
یہ سمٹ مشرق وسطیٰ کی سفارت کاری میں ایک اہم تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔ عملی عرب ریاستیں، جو اب اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں، خطے کے مستقبل کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ ایران کا اخراج اس تبدیلی کا ایک اہم حصہ ہے، جو نہ صرف اس کی سفارتی علیحدگی کو بڑھاتا ہے بلکہ خطے کی سلامتی اور سیاسی توازن کو متاثر کرنے والی نئی حکمت عملیوں کی راہ ہموار کرتا ہے۔ یہ صورتحال خطے کے رہنمائوں کے لیے ایک موقع بھی ہے اور چیلنج بھی۔ اگر سفارتی عمل میں تمام فریقین کو شامل کیا جائے تو مستقل امن کی راہ ہموار ہو سکتی ہے، لیکن ایران کی مسلسل علیحدگی خطے میں تنائو کو مزید بڑھا سکتی ہے۔
ایران کی غیر موجودگی نے اس سمٹ کو ایک خاص سمت دی، لیکن اس کے اثرات صرف غزہ تک محدود نہیں ہیں۔ یہ خطے کے وسیع تر سیاسی اور سلامتی کے ڈھانچے پر اثر انداز ہوں گے۔ عرب رہنما، جو اس سمٹ میں شریک ہوئے، ایک متحدہ موقف اپنانے میں کامیاب رہے، لیکن اس اتحاد کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ وہ کس حد تک عملی اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔





