فلسطین: عالمی ضمیر اورپاکستان کا دوٹوک موقف

فلسطین: عالمی ضمیر اور
پاکستان کا دوٹوک موقف
عالمی تاریخ ایک بار پھر اس مقام پر کھڑی ہے جہاں طاقتور اقوام کی بے حسی اور مسلمہ انسانی اقدار کی پامالی ایک کرب ناک المیے کو جنم دے چکی۔ غزہ کی زمین، جو کبھی فلسطینیوں کی امیدوں، خوابوں اور شناخت کا مرکز تھی، آج انسانیت اور عالمی ضمیر کا مدفن بن چکی۔ پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنے حالیہ خطاب میں نہ صرف حقائق بیان کیے بلکہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ایک سنجیدہ اور جرأت مندانہ کوشش کی۔ اسحاق ڈار کا خطاب ان الفاظ سے شروع ہوا جو تاریخ میں ایک دردناک سچ کے طور پر محفوظ کیے جائیں گے، غزہ انسانیت اور عالمی ضمیر کا مدفن بن چکا ہے۔ یہ جملہ محض جذباتی نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت کی طرف اشارہ ہے، جس میں دنیا کے طاقتور ممالک کی خاموشی اور اقوام متحدہ کی بے عملی ایک مہلک کردار ادا کررہی ہے۔ اسرائیلی افواج کی جانب سے مسلسل بمباری، بلاامتیاز قتل عام اور بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں وہ المناک حقائق ہیں جو کسی طور بھی مہذب دنیا کے ضمیر کو ساکت نہیں کر سکتے۔ اسحاق ڈار نے اعداد و شمار کے ساتھ حقائق پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اب تک 64ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ یہ محض ایک اعداد و شمار کی فہرست نہیں بلکہ ان میں ہر ایک نمبر کے پیچھے ایک کہانی، ایک خاندان، ایک تباہ شدہ خواب اور ایک اجڑا ہوا مستقبل ہے۔ پاکستان کا یہ سوال کہ فلسطینیوں کی حالت زار پر عالمی ضمیر کب جاگے گا؟ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے بلند بانگ دعوے کرنے والے ممالک، جو کبھی ایک صحافی کی گرفتاری پر ہنگامہ برپا کردیتے ہیں، آج ہزاروں فلسطینی بچوں، خواتین، بزرگوں کے بے گناہ قتل پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ جیسا عالمی ادارہ جس کا بنیادی مقصد امن و انصاف کی فراہمی تھا، خود آج بے بسی کی تصویر بنا بیٹھا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کی نہ صرف حمایت کی بلکہ عملی سطح پر اپنے موقف کو واضح رکھا ہے۔ اسحاق ڈار نے اپنے خطاب میں ایک بار پھر دو ریاستی حل پر زور دیا اور کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر مکمل عمل درآمد کیا جائے۔ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے 1988 ء میں فلسطینی ریاست کو فوراً تسلیم کیا اور آج بھی عالمی سطح پر فلسطین کی آزاد ریاست کے قیام کے لیے صف اول میں کھڑا ہے۔ اسحاق ڈار کی تقریر محض تنقید نہیں بلکہ اس میں ٹھوس تجاویز بھی شامل تھیں، جن میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی، غزہ میں بلارکاوٹ انسانی امداد کی فراہمی، فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کو روکنے کے لیے عالمی دبائو، اسرائیل کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر انصاف کی کٹہرے میں لانا شامل ہیں، یہ تجاویز نہ صرف بروقت اور حقیقت پسندانہ ہیں، بلکہ اگر ان پر عالمی برادری ایمان داری سے عمل کرے تو نہ صرف غزہ بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔اس بات پر بھی اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ فرانس، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، بیلجیئم، پرتگال جیسے ممالک نے فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف بین الاقوامی قانون کی توثیق ہے، بلکہ ایک اخلاقی موقف بھی ہے۔ پاکستان نے دیگر ممالک سے بھی یہی اپیل کی ہے کہ وہ بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کریں، تاکہ مسئلہ فلسطین کو اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر ایک مستقل ریاست کی حیثیت سے اٹھایا جاسکے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر اسحاق ڈار کی مختلف عالمی رہنمائوں سے ملاقاتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان فلسطین کے مسئلے پر صرف بیانات تک محدود نہیں بلکہ سفارتی محاذ پر بھی متحرک ہے۔ ان ملاقاتوں میں کینیڈا، ہنگری، خلیج تعاون کونسل اور شام کے رہنمائوں سے باہمی تعلقات اور فلسطینی عوام کے لیے تعاون پر بات چیت کی گئی۔ ان سرگرمیوں سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ پاکستان مسئلہ فلسطین کو عالمی سطح پر زندہ رکھنے میں سنجیدہ ہے۔ اسحاق ڈار کا یہ بیان کہ ’’ اب باتوں کا وقت گزر چکا، اب عمل کا وقت ہے’’ عالمی قیادت کے لیے ایک واضح پیغام ہے۔ بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام، انسانیت کی توہین ہے اور اس پر خاموشی اختیار کرنا دراصل اس جرم میں شریک ہونے کے مترادف ہے۔ دنیا کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ انصاف کے ساتھ کھڑی ہے یا طاقت کے ساتھ۔ تاریخ خاموش نہیں رہے گی، اگر آج دنیا نے خاموشی اختیار کی، تو تاریخ اسے معاف نہیں کرے گی۔ دنیا کو یاد رکھنا چاہیے کہ ظلم جب حد سے بڑھ جائے تو مٹ جاتا ہے، لیکن ظلم کو روکنے کے لیے آواز بلند کرنا، مظلوموں کے لیے ڈھال و سہارا بننا ہی انسانیت کی معراج ہے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ میں جو موقف اپنایا ہے، وہ صرف ایک ملک کا نہیں بلکہ وہ اصول کے مطابق، ایک باضمیر ملک اور انسانیت کی آواز ہے۔ اب عالمی برادری پر فرض ہے کہ وہ اس آواز کا ساتھ دے اور غزہ کے مظلوم عوام کے لیے انصاف کی راہ ہموار کرے۔
غربت کی شرح میں تشویشناک اضافہ
پاکستان میں گزشتہ تین سال کے دوران غربت میں تشویش ناک اضافہ ایسی حقیقت ہے، جسے نظرانداز کرنا اب ممکن نہیں رہا۔ عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق غربت کی شرح 25.3فیصد تک پہنچ چکی، جو ایک خطرناک رجحان کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں 2001میں غربت کی شرح 64.3فیصد تھی، لیکن دو دہائیوں کی محنت سے 2018تک یہ شرح کم ہوکر 18.3فیصد پر آگئی تھی، تاہم 2020کے بعد سے، مختلف معاشی، ماحولیاتی اور سماجی چیلنجز نے غربت میں ایک بار پھر اضافہ شروع کردیا۔ عالمی بینک کے مطابق 2023-24میں غربت کی شرح 24.8فیصد سے بڑھ کر 25.3فیصد ہوچکی، یعنی ہر چوتھا پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ غیر رسمی شعبوں میں کام کرنے والے افراد کی تعداد 95فیصد تک جا پہنچی ہے جبکہ 85فیصد لوگ کم آمدن والے شعبوں میں ملازمت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین اور نوجوانوں کی بڑی تعداد لیبر فورس سے باہر ہے، جو ملکی معیشت میں ایک وسیع خلا کو ظاہر کرتی ہے۔ رپورٹ میں اس امر پر بھی زور دیا گیا کہ 2011سے 2021کے دوران لوگوں کی آمدن میں صرف 2سے 3فیصد اضافہ ہوا جبکہ زرعی شعبہ غربت میں کمی لانے میں محدود کردار ادا کر سکا۔ روزگار کے مواقع کی کمی، پیداواری صلاحیت میں جمود اور معاشی ڈھانچے میں غیر متوازن تبدیلیاں غربت میں اضافے کے بڑے اسباب میں شامل ہیں۔ دوسری جانب، وزارت خزانہ نے عالمی بینک کی رپورٹ پر ردعمل دیتے ہوئے اسے جزوی طور پر تسلیم کیا اور کہا کہ غربت میں حالیہ اضافے کی وجوہ میں کووِڈ19، شدید سیلاب اور معاشی دبائو شامل ہیں۔ وزارت نے یہ بھی واضح کیا کہ عالمی غربت کے اعداد و شمار میں اضافے کی ایک بڑی وجہ عالمی معیار کے مطابق یومیہ آمدن کی حد میں تکنیکی تبدیلی بھی ہے۔ حکومت کی جانب سے غربت کے خاتمے کے لیے جاری اقدامات جیسے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، ہنگامی کیش ٹرانسفرز، زراعت اور چھوٹے کاروباروں کے لیے معاونت یقیناً قابل تعریف ہیں، لیکن موجودہ حالات میں یہ ناکافی معلوم ہوتے ہیں۔ اگر اصلاحاتی ایجنڈا عوام دوست، ہدفی اور شفاف نہ ہو تو غربت میں پائیدار کمی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کو ٹھوس، دیرپا اور شفاف اصلاحات کی ضرورت ہے جو انسانی وسائل کی ترقی، تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع کی منصفانہ تقسیم پر مبنی ہوں۔ بصورت دیگر، بڑھتی ہوئی غربت نہ صرف معیشت بلکہ قومی سلامتی کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔ وقت آچکا کہ ہم غربت کو محض ایک عددی اشاریہ نہیں بلکہ ایک انسانی المیہ سمجھ کر اس کے خلاف عملی اور جامع جدوجہد کا آغاز کریں۔





