سعودی عرب کا95واں قومی دن

سعودی عرب کا95واں قومی دن
تحریر : ضیاء الحق سرحدی
ہر سال برج میزان کے اول روز 23ستمبر کو سعودی عرب کا قومی دن منایا جاتا ہے۔ یہ یوم 23ستمبر1932ء کے اس عظیم دن کی یاد میں منایا جاتا ہے، جب سلطنت سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن السعود نے طویل اور انتھک جدوجہد کے بعد اس سر زمین پر اس ریاست کی بنیاد رکھی۔ ان کے بعد ان کے بیٹوں نے انتہائی کامیابی اور مستعدی کے ساتھ ریاستی امور سر انجام دئیے، یہاں تک کہ سعودی ریاست خادم حرمین شریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز السعود مدظلہ کے محفوظ ہاتھوں میں پہنچی، جنہوں نے اسے علاقائی، قومی اور عالمی سطح پر ایک جدید اور خوشحال ریاست کے طور پر متعارف کروایا۔ یہ ایک منفرد اور بے مثال دن ہے۔ اس روز اس خطے کے چھوٹے چھوٹے زمین کے ٹکڑوں کو یکجا کرکے ایک ایسی ریاست کو وجود بخشا گیا جس نے تمام عالمی پلیٹ فارموں پر اہم سیاسی خدمات سر انجام دی ہیں۔ سعودی عرب کو عالمی سیاست میں اہم مقام حاصل ہے۔ آج وہ دنیا کے نقشے پر خوشحال، فلاحی مملکت کے طور موجود ہے۔ جس نے سیاسی، معاشی، معاشرتی، ثقافتی، صنعتی اور زرعی شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں۔ اپنے قیام کے روز اول سے ہی مملکت سعودی عرب پوری دنیا میں اُمت مسلمہ کی فلاح اور یکجہتی کے لیے کوششیں کرتی آئی ہے۔ مسلم اُمہ کے لیے حج وعمرہ کی سہولتیں فراہم کرنا سعودی عرب کے لیے عظیم سعادت ہے۔ اس فریضے کی ادائیگی میں تمام ذرائع اور قابلیتوں کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کی غرض سے امداد فراہم کرنے والی اقوام میں آج سعودی عرب سر فہرست ہے۔ نیز وہ ترقی پذیر ممالک کو مالی امداد بھی فراہم کرتا رہتا ہے۔ ہر دور میں پاک سعودی تعلقات انتہائی مضبوط اور مثالی رہے ہیں، پاکستان اور سعودی عرب آزمودہ مذہبی اور ثقافتی رشتوں میں بندھے ہیں، جن میں سیاسی اور معاشی تعلقات نے مزید وسعت پیدا کر دی ہے۔ سعودی عرب کا قومی دن صرف ایک رسم تک محدود نہیں بلکہ اپنے اندر خاص تاریخی، ثقافتی اور سیاسی اہمیت رکھتا ہے۔ جزیرہ نما عرب میں اس طرح سے قومی دن کا منایا جا نا ایک غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ ریاست سعودی عرب کی بانی نے ناصرف چھوٹے چھوٹے زمینی ٹکڑوں کو یکجا کر کے ایک جدید ریاست کی بنیاد رکھی بلکہ اس منفرد دن کو منانے کا موقع بھی فراہم کیا۔ آج یہ ریاست عالمی سطح پر ایک سیاسی ستون ہے۔ اس کی بنیاد اصولوں پر ہے۔ سعودی عرب کی عظیم کامیابیوں کا دارومدار صحیح فیصلوں پر ہے، جنہوں نے عوام کو ایک قوم کی شکل میں ڈھال دیا ہے۔ اس کی کامیابی کا راز کتاب اللہ اور سنت رسول ؐ اور دین کے بنیادی اصولوں اور مثالی رواج و ثقافت سے دیرینہ رشتے میں مضمر ہے۔ خادم الحرمین الشرفین نے سعودی عرب کی قومی یکجہتی کو بھی بطور درخشاں اور منفرد مثال پیش کیا اور سعودی عرب کی قومی یکجہتی، پیار، محبت کے ایسے رشتے سے تعبیر ہے جس نے حکمرانوں اور عوام کو جوڑ رکھا ہے۔ اسلام آباد میں سعودی سفارتخانہ اور کراچی میں سعودی قونصلیٹ جنرل اپنے پاکستانی بھائیوں کو حج، روزگار اور سیر و تفریح جیسے مقاصد کے لیے ویزا اور سفری سہولتیں فراہم کرنے کی غرض سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ اسلام آباد میں واقع شاہی سفارت خانہ برائے سعودی عرب عوام اور حکمرانوں کی جانب سے اس عزم کا اعادہ کرتا ہے کہ ہم اچھے برے وقت میں پاکستان کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ تاریخ اسلام میں آج تک حرمین شریفیں کی خدمت اور تعمیر جدید میں سعودیہ کا کردار قابل رشک ہے۔ بیت اللہ اور مسجد نبویؐ کی تعمیر اور توسیع کا کام ملک فیصل بن عبدالعزیز کے زمانے سے شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ حجاج اور معتمدین کی بڑھتی تعداد کی بناء پر حرم کے چاروں طرف کی عمارتیں، ہوٹلز، بازار مہنگے دام خرید کر حرم کی توسیع میں شامل کر دئیے گئے ہیں۔ انڈر گرائونڈ فلور، فرسٹ فلور اور چھت ملا کر چاروں منزلیں رمضان اور حج میں کھچا کھچ بھری ہوتی ہیں، بلکہ سڑکوں اور بازاروں ،ہوٹلوں، لان میں بھی نمازیں ہوتی ہیں۔ سعودیہ سے پہلے آج تک کسی حکومت نے اتنا وسیع تعمیری کام نہیں کیا۔35لاکھ سے زائد نمازی نماز ادا کرتے ہیں ان کے وضو، باتھ روم اور صفائی کا بے مثال انتظام ہے۔ دوسرا بڑا کام قرآن پاک کی خدمت۔ مدینہ میں احد پہاڑ کے برابر بہت بڑا اور نیا پر نٹنگ پریس لگایا ہے، جہاں سے اب تک 50ملین قرآن پاک کے نسخے مختلف ساز میں چھپ کر تقسیم ہوئے ہیں جبکہ25ملین نسخے دنیا کی مختلف 55زبانوں میں چھپ کر مفت تقسیم ہوتے ہیں۔ تاریخ اسلام میں حرمین شریفین اور قرآن کی خدمت اس سے قبل اس طرح کبھی نہیں ہوئی۔ سعودیہ میں امن و امان مثالی ہے، جس کی وجہ سے شریعت اسلام پاسداری ہے۔ تعمیر و ترقی اور سڑکوں کا جال پورے ملک کو ملتا ہے۔ سڑکیں بڑی شاندار بنی ہیں، پٹرول2/1ریال فی لٹر ہے۔62سال سے ایک ڈالر کی قیمت ساڑھے تین ریال کے قریب ہے۔ تعلیم بالکل مفت ہے۔ علاج کی سہولتیں دیکھنے کے قابل ہیں۔ اپنے ملک کی خدمت کے علاوہ سعودی عرب دنیا میں غریب مسلمان ملکوں کی خدمت اور خصوصاً ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھی رہا ہے۔ یونیسیف کے طبی مشن میں امریکا کے بعد سب سے زیادہ فنڈ سعودی عرب دیتا ہے۔ سعودی عرب کے پاس دنیا کے سب سے زیادہ تیل کے ذخائر موجود ہیں ( جو پچیس فیصد بنتے ہیں) ۔ مملکت کو دوسرے قدرتی وسائل بھی عطا ہوئے ہیں جن میں صنعتی خام مال اور پاکسائیٹ، لائم سٹون، جپسم، فاسفیٹ اور آئرن جیسے معدنیات کی بڑی مقدار شامل ہے۔ یہاں نہ تو فارن ایکسچینج پر کوئی پابندی ہے اور نہ ہی کیپیٹل اور منافع کی واپسی پر لہٰذا اس کی کرنسی بہت مضبوط ہے اور کمپنیوں کو سو فیصد منافع واپسی کی اجازت ہے۔ مملکت کے تمام شعبوں میں افرادی قوت کے اخراجات بہت کم ہیں۔ سعودی عرب کی جانب سے خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے زیر صدارت کابینہ کے اجلاس کے بعد ویژن 2030ء کا اعلان کیا گیا ہے جس کے اصل محرک سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ہیں۔ اس منصوبے کے تحت سعودی معیشت بتدریج تیل کی بجائے صنعت و تجارت کے دوسرے شعبوں پر استوار کی جائے گی۔ سعودی معیشت کی ترقی میں نجی و غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اور تیل کی آمدن پر انحصار کم سے کم کر دیا جائے گا۔ انہوں نے اس ویژن کے خدو خال بتاتے ہوئے کہا کہ اس کے تحت سرکاری اثاثوں کو فروخت کیا جائے گا۔ ٹیکسوں کی شرح بڑھائی جائے گی اور اخراجات میں کمی کی جائے گی۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کے زرمبادلہ کے ذخائر کے انتظام میں بھی جو ہری تبدیلی لائی جائے گی۔ نجی شعبے کے لیے قومی معیشت کی ترقی میں زیادہ کردار ادا کرنے کے مواقع پیدا کئے جائیں گے۔ سعودی ویژن 2030کے اعلان پر پوری دنیا کی طرف سے ان کے اس فیصلہ کی تحسین کی جارہی ہے۔ بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں سعودی معیشت اور زیادہ مضبوط ہو گی۔ سعودی ترقی ایک متوازی ترقی ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات و اقدار جیسی تمام جہات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ اس طرح مملکت کے لئے مادی راحت اور اقتصادی کارکردگی مذہبی، روحانی اور اخلاقی اقدار کے امتزاج کے ساتھ ممکن ہو سکی ہے۔ مسلمان ملکوں کی یکجہتی کے لیے ورلڈ مسلم لیگ مکہ سرگرم عمل ہے۔ دینی رہنمائی کے لئے بہت بڑا ادارہ وزارت مذہبی امور کے تحت کام کر رہا ہے جو مختلف زبانوں میں دینی کتب کی ترسیل کے علاوہ مبلغین اسلام کو دنیا بھر میں تبلیغ اسلام کے لیے بھیجتا ہے۔ افریقہ، ایشیا، یورپ کے بڑے شہروں میں اسلامک سینٹر، مسجد، لائبریری کی تعمیر کرکے غیر مسلموں کو دعوت اسلام کا مشن جاری ہے۔ بادشاہت کے نظام کے باوجود سعودی شہری کسی بھی جمہوری ملک سے زیادہ رفاہی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جو اللہ کے اس وعدے کا نتیجہ ہے۔
سورہ الاعراف آیت نمبر96میں رب کا فرمان ہے: ’’ بستی والے اگر مجھ پر ایمان لائیں اور تقویٰ کی راہ اختیار کریں تو ہم ان کے لیے آسمان وزمین کی برکات کھول دیتے ہیں‘‘۔ اور سورہ حج آیت نمبر 41میں ارشاد ہے کہ ’’ جن کو ہم زمین میں حکومت دیتے ہیں تو نماز قائم کرتے ہیں زکوٰۃ دیتے ہیں اور نیکی پھیلاتے ہیں، برائی سے روکتے ہیں تو سمجھ لو انجام اچھا اللہ ہی دیتا ہے‘‘۔





